تھیلاسیمیا (Thalassemia)----- تعارف ماہیت اور علاج

تعارف :
تھیلاسیمیاکالفظ دو یونانی الفاظ سے ماخوذ ہے ۔ایک Thalassa جس کے معنی "سمندر" جبکہ دوسرے لفظ Aemia کا مطلب ہے "خون" ۔اس مرض میں مبتلا مریضوں میں خون بہت کم بنتا ہےاور اسے زندہ رہنے کے لئے باہر سے خون کے سمندر یعنی بہت زیادہ خون کی ضرورت ہوتی ہے ۔اسی لئے اسے تھیلا سیمیا کا نام دیا گیا۔چونکہ یہ مرض ابتدا میں بحیرہ روم کے اطراف کے ممالک میں پھیلا تھا اسی وجہ سے اسے بحر رومی انیمیا بھی کہا جاتا ہے۔والدین سے وراثتی طور منتقل ہونے کی وجہ سے اسے موروثی انیمیا کے نام سےبھی موسوم کرتے ہیں۔موروثی ہونے کی وجہ سے یہ ایسی بیماری ہے جو تمام عمر ٹھیک نہیں ہو سکتی۔

وجوہات :
تھیلاسیمیا ایک موروثی بیماری ہےیعنی یہ والدین کی جینیاتی خرابی کے باعث اولاد کو منتقل ہوتی ہے۔اس مرض میں جزوی طور پر جینیاتی خرابی کی وجہ سے خون کے سرخ خلیات میں پائی جانے والی پروٹین " ہیمو گلوبن" کی تشکیل ناقص طریقے سے ہوتی ہے۔ ہیموگلوبن چونکہ آکسیجن کی ترسیل کا اہم ذریعہ ہے اس لئے ناقص ہیموگلوبن کی وجہ سے خون کے سرخ ذرات آکسیجن کی منتقلی صحیح طور پرنہیں کرسکتے نیز یہ جلد ہی تباہی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں ۔اسی وجہ سے اس مرض میں مبتلا بچوں میں خون کی پیدائش بہت کم یا بالکل نہیں ہوتی ۔ بچے‬اس خراب ‮‬جین‮‬کو‬ والد یا والدہ ‬یادونوں‮‬سے‬ حاصل کرتے ہیں۔‮‬اگر‮‬بچہ دونوں‮‬سے‬خراب‮‬جین‮ وصول کرےتو بچہ‮‬‬تھیلاسمیاکبیرکا شکار‬ہوتا‬ہے۔‬اگر‬دو‮نوں میں سے کسی ایک سےخراب جین آئے تو اس بچے کو‬تھیلاسمیا صغیرہوتا‮ ہے۔تب‮‬یہ‮ بچہ‬خراب‮‬جین‬کا‬کیرئیر‮ہوتاہے۔ تھیلاسیمیا کبیرمیں مبتلا بچہ ‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬پیدائش سے تین چار ماہ کی عمر تک نارمل رہتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ خون کے سرخ خلیے بننے کا عمل سست ہونے کی وجہ سے اس کا رنگ میں زردی آنا شروع ہو جاتی ہے،چکر آنے اور سر درد کی شکایت رہتی ہے ، سانس لینے میں دشواری محسوس ہوتی ہے، دل تیزی سے دھڑکتا ہے، مریض کو بھوک بہت کم لگتی ہے اور وہ کمزورھوتا چلا جاتا ہے۔‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬

وراثتی طورپرمرض کی منتقلی:
• اگر والدین کسی بھی قسم کے تھیلاسیمیا کے حامل نہ ہوں تو سارے بچے بھی نارمل ہوتے ہیں۔
• اگر والدین میں دونوں تھیلاسیمیاکبیر کا شکار ہوں تو سارے کے سارے بچے بھی تھیلاسیمیاکبیر میں مبتلا ہوں گے۔
• اگر والدین میں دونوں تھیلاسیمیاصغیر(کیرئیر)کا شکار ہوں توان کے 50 فیصدبچےتھیلاسیمیا صغیرکا شکار ہوں گے۔25 فیصد تھیلاسیمیا کبیرمیں مبتلا ہوں گے اور25 فیصد بچے نارمل ہوں گے۔
• اگر والدین میں سےکوئی ایک تھیلاسیمیاکبیر کا شکار ہو اور دوسرا تھیلاسیمیا صغیر کا شکار ہو تو انکے 50 فیصد بچے تھیلاسیمیاصغیر میں مبتلا ہوں گےجبکہ بقیہ 50 فیصدبچے تھیلاسیمیاکبیر میں مبتلا ہوں گے۔
• اگر والدین میں سےکوئی ایک تھیلاسیمیاصغیر کا شکار ہو تو انکے 50 فیصد بچے تو نارمل ہوں گے جبکہ بقیہ 50 فیصد بچے تھیلاسیمیا مائینر میں مبتلا ہوں گے۔ یعنی یہ ممکن ہے کہ ایسے کسی جوڑے کےسارے بچوں کو تھیلاسیمیاصغیر ہو یا چند بچوں کو ہو یا کسی بھی بچے کو نہ ہو۔
• اگر والدین میں سےکوئی ایک تھیلاسیمیا کبیر کا شکار ہو تو انکے سارے کے سارے بچے تھیلاسیمیاصغیر میں مبتلا ہوں گے۔

ماہیت مرض :
جنینی زندگی (دوران حمل)کے دوران جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو اس کے خون میں منفرد قسم کی ہیموگلوبن ہوتی ہے جسے جنینی ہیموگلوبن) (H.B.F کہتے ہیں۔ پیدائش کے وقت جب بچہ کھلی فضا میں سانس لیتا ہے تو جنینی ہیموگلوبن (H.B.F) آہستہ آہستہ ختم ہونا او ر اس کی جگہ بلوغی ہیموگلوبن (H.B.A) پیداہونا شروع ہوجاتی ہے ۔چھ ماہ کی عمر تک جنینی ہیموگلوبن صرف ڈیڑھ یا دو فیصد رہ جاتی ہے۔اوراس کی جگہ بلوغی ہیموگلوبن لے لیتی ہے۔بلوغی ہیموگلوبن دو طرح کی ہوتی ہے جنہیں ہیموگلوبن A اور ہیموگلوبن A2 کہا جاتا ہے ۔ ہیموگلوبن A تقریبا 96 فیصد ہوتی ہے جبکہ ہیموگلوبنA2 صرف2 سے3 فیصد ہوتی ہے بقایا ایک یا دو فیصد جنینی ہیموگلوبن ہوتی ہے ۔

جنینی ہیموگلوبن کا ختم ہونا اور بلوغی ہیموگلوبن کا اس کی جگہ لینے کا عمل " سوئچنگ" کہلاتا ہے ۔سوئچنگ کی تین صورتیں ہیں۔

مکمل سوئچنگ : اس میں جنینی ہیموگلوبن (H.B.F) مکمل طور پر ختم ہوجاتی ہے اور اس کی جگہ بلوغی ہیموگلوبن (H.B.A) لے لیتی ہے ۔ ایسا صحت مند یا نارمل بچوں میں ہوتا ہے۔

نامکمل سوئچنگ : اس میں جنینی ہیموگلوبن(H.B.F)ختم نہیں ہوتی بلکہ خون میں بدستورموجود رہتی ہے، اور بلوغی ہیموگلوبن (H.B.A) پیدا ہی نہیں ہوتی ۔ یہ لوگ بھی نارمل زندگی بسر کرتے ہیں ۔اسے تھیلا سیمیا صغیرکہتے ہیں ۔ان بچوں یا افراد میں بلوغی ہیموگلوبن A2 کی مقدار بڑھ کر3.5 فیصد سے 7 فیصد ہو جاتی ہے۔اور ان کے سرخ خلیات خون جسامت ہیں چھوٹے ہوتے ہیں ۔اس حالت کو microcytosis کہتے ہیں۔
زیادہ سوئچنگ : اس میں جنینی ہیموگلوبن (H.B.F)بننا بند ہوجاتی ہے اور بلوغی ہیموگلوبن (H.B.A) بھی پیدا نہیں ہوتی ۔ اس کے نتیجے میں مریض کے جسم میں خون کی شدید کمی واقع ہو جاتی ہے۔مریض کی زندگی بچانے کے لئے باہر سے خون کی ضرورت پڑتی ہے اور مریض کو بار بار مختلف وقفوں سے خون لگوانا پڑتا ہے۔ان وقفوں کی مدت کا انحصار مرض کی شدت کے مطابق ہوتا ہے جتنامرض شدید ہوگا خون لگوانے وقفہ بھی اتنا ہی کم ہوگا ۔اگر ان بچوں کو چار سے چھ ہفتے تک خون نہ دیا جائے تو خون کی کمی ہلاکت کا باعث بن سکتی ہے ۔ یہی تھیلا سیمیاکبیر ہے ۔

مرض کی شدت کے اعتبار سے تھیلاسیمیا کی تین اقسام ہیں۔ شدید ترین قسم "تھیلاسیمیاکبیر"(تھیلاسیمیا میجر)جبکہ کمترین شدت والی قسم "تھیلاسیمیا صغیر"(تھیلاسیمیا مائینر) کہلاتی ہے۔ درمیانی شدت والی قسم کو"تھیلاسیمیامتوسط" (تھیلاسیمیا انٹرمیڈیا) کہا جاتا ہے۔

ہیموگلوبن کی خرابی کے لحاظ سے بھی تھیلاسیمیا کی تین اقسام ہیں ۔ایک ، الفا تھیلاسیمیا ، دوسرا، بیٹا تھیلاسیمیا تیسرے ڈیلٹا تھیلا سیمیا ۔بلوغی ہیموگلوبن A جو خون میں سب سے زیادہ یعنی 96 فیصد ہوتی ہے ،میں دو الفا اور دو بیٹا زنجیریں ہوتی ہیں جبکہ بلوغی ہیموگلوبن A2 جو 2 سے 3 فیصد ہوتی ہے ، میں دو الفا اور دو ڈیلٹا زنجیریں پائی جاتی ہیں ۔ جنینی ہیموگلوبن دو الفا اور دو گیما زنجیروں پر مشتمل ہوتی ہے۔بلوغی ہیموگلوبن A2 اور جنینی ہیموگلوبن دونوں میں بیٹا زنجیر نہیں ہوتی۔

مرض کی کم یا زیادہ شدت ہیموگلوبن میں موجود الفا ، بیٹا یا ڈیلٹا زنجیروں میں خرابی سے ہوتی ہیں۔ان میں ڈیلٹاتھیلاسیمیا نسبتا غیراہم ہےاور یہ بلوغی ہیموگلوبن A2 میں موجود ڈیلٹا زنجیر میں خرابی سے پیدا ہوتا ہے چونکہ بلوغی ہیموگلوبن A2 خون میں بہت کم یعنی 2 سے 3 فیصد ہوتی ہے ۔اس لئے ڈیلٹا زنجیر کی خرابی کا کوئی خاص اثر نہیں پڑتایعنی اس کی خرابی سے تھیلاسیمیاصغیر ہی پیداہوتاہے ۔البتہ الفا اور بیٹا زنجیروں کی خرابی سےتھیلاسیمیا کبیر، متوسط اور صغیرتینوں پیدا ہوسکتےہیں۔

تھیلاسیمیا صغیر یا متوسط خواہ الفا ہو، بیٹا ہو یا ڈیلٹا ، اس میں کوئی بڑی پیچیدگی پیدا نہیں ہوتی ۔اس میں مبتلا لوگ عموما نارمل زندگی گزارتے ہیں۔انہیں صرف اس احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کہ جب کبھی یہ کمی خون میں مبتلا ہوں تو ان کا علاج کمی خون(انیمیا) کی طرح فولا د کے مرکبات سے نہ کیا جائے کیونکہ فولاد کا ان کے جسم میں جمع ہونا ان کے لئے مسائل کھڑے کرسکتا ہے۔البتہ بیٹاتھیلاسیمیا متوسط میں بیماری یا حمل کے دوران کبھی کبھار انتقال خون کی ضرورت ہوتی ہے۔

تھیلاسیمیا کبیرمیں الفا تھیلاسیمیاکبیر زیادہ خطرناک ہے ۔اس میں مبتلا بچے کم عمری میں ہی فوت ہوجاتے ہیں ۔‬بیٹا‮‬تھیلاسمیا‮ کبیر‬میں‬خون‮‬بدلواتے‬رہنے‮‬کی‬ضرورت‮ہوتی‬ہے۔لیکن باربار انتقال خون سے ان کے بدن میں فولاد کی زیادتی سے کا فی مسائل (مثلا تلی اورجگر کا بڑھ جانا، ہڈیوں میں کجی اوربدنمائی ، صلابت جگر، سرطان جگروغیرہ) پیدا ہوجاتے ہیں ۔بعض اوقات تلی اس قدر بڑھ جاتی ہے اور متورم ہوجاتی ہے کہ اسے سرجری کے ذریعے نکالنا پڑتا ہے۔بدن سے فولاد کے اخراج کےلئے دواؤں کی ضرورت پڑتی ہے۔‬‬‬‬‬ ‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬

الفا تھیلاسیمیا بحیرہ روم کے اطراف کے ممالک ، مشرق وسطی ، صحارا(افریقہ) ، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی میں زیادہ عام ہے۔یہ افریقی امریکن میں بھی عام طور پر پایا جاتا ہے۔ جبکہ بیٹا تھیلاسیمیا یونان اور ترکی کے ساحلی علاقوں میں پایا جاتا ہے ۔اس کےعلاوہ یہ بحیرہ روم کے جزائر سسلی ، ساڈینیا ، قبرص ، مالٹا اور کریٹ میں اس کا تناسب زیادہ ہے۔اسی طرح یہ مغربی ایشیا اورشمالی افریقہ میں بھی بہت عام ہے ۔یونان اورترک قبرس میں یہ16 فیصد موجود ہے ۔ان علاقوں میں الفا تھیلا سیمیا بھی 10 فیصد کے تناسب سے پایا جاتا ہے۔جنوبی ایشیا میں بھی یہ مرض کا فی پایا جاتا ہے ہے ۔مالدیپ ایسا ملک ہے جس کی 18 فیصد آبادی اس سے متاثر ہے۔یہ دنیا میں اس مرض کا سب سے زیادہ تناسب ہے ۔پاکستان ، بھارت ،نیپال ، بنگلہ دیش ، چین اورملائشیا میں بیٹا تھیلاسیمیا کا تناسب 3 سے 8 فیصد ہے ۔نیپال ، بنگلہ دیش اور پاکستان میں اس مرض کے متعلق آگہی کی کمی کی وجہ سے اس کے پھیلاؤ کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔

یاد رہے کہ جنیاتی (موروثی )امراض پیدائش کے وقت ہی لاحق ہوجاتے ہیں اور بعد میں ان میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی بھی واقع نہیں ہوتی یعنی ایک قسم کا تھیلاسیمیا کبھی بھی دوسری طرح کے تھیلاسیمیا میں تبدیل نہیں ہو سکتایعنی الفا تھیلاسیمیا کبھی بھی بی ٹا تھیلاسیمیا میں تبدیل نہیں ہوتا اور نہ ہی بی ٹا کبھی الفا میں۔اسی طرح انکے مرض کی شدت میں اضافہ یا کمی نہیں ہو سکتی۔‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬

تھیلاسیمیاصغیر (تھیلاسیمیا مائنر)
تھیلا سیمیا صغیر کا عارضہ ایسے بچوں کو ہوتا ہے جن کے والدین میں کسی ایک میں تھیلا سیمیا کا جین ہوتا ہے ۔تھیلا سیمیا صغیر کے مریضوں میں روزانہ کے معمولات زندگی اتنے زیادہ متاثر نہیں ہوتے اور اس حوالے سے انہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف یا شکایت نہیں ہوتی۔البتہ تھیلاسیمیا صغیرمیں مبتلا خواتین جب حاملہ ہوتی ہیں تو ان میں خون کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ایسےکیسز میں فولاد(آئرن) مکمل طور پر ممنوع ہوتا ہے ۔ انہیں صرف فولک ایسڈ کی گولی روزانہ دی جا سکتی ہے ۔ ایک دلچسپ بات یہ ہےکہ نارمل انسانوں کی نسبت تھیلاسیمیا صغیر کے حامل افراد ملیریا کا کم شکار ہوتے ہیں۔ تھیلاسیمیا ان علاقوں میں زیادہ پایا جاتا ہے جہاں ملیریا زیادہ ہوتا ہے ۔

تھیلاسیمیا صغیر میں مبتلا بیشتر افراد اپنے جین کے نقص سے قطعاً لاعلم ہوتے ہیں اور جسمانی ، ذہنی اور جنسی لحاظ سے عام لوگوں کی طرح ہوتے ہیں اور ایسے لوگ نارمل زندگی گزارتے ہوئے نارمل انسانوں جتنی ہی عمر پاتے ہیں مگر یہ لوگ تھیلاسیمیا اپنے بچوں کو منتقل کر سکتے ہیں۔علامات و شکایات نہ ہونے کی وجہ سے ایسے لوگوں کی تشخیص صرف لیبارٹری کے ٹیسٹ سے ہی ہو سکتی ہے۔ اور یہ ٹیسٹ اس لئے ضروری ہوتا ہے تاکہ ایسے افراد اپنی ہی طرح اس مرض میں مبتلا کسی دوسرے فرد سے شادی نہ کریں ۔کیونکہ ایسے دو افراد کی شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد تھیلا سیمیا کبیر میں مبتلا ہوسکتی ہے۔

تھیلاسیمیا کبیر (تھیلاسیمیا میجر)
یہ مرض کی شدید ترین قسم ہے ۔یہ مرض ایسے بچوں کو لاحق ہوتا ہے جن کے والدین (یعنی دونوں)میں تھیلا سیمیا کے مرض کا جین موجود ہوتا ہے ۔ایسے مریضوں میں خون اتنا کم بنتا ہے کہ ان کی زندگی عطیہ خون پر منحصر ہوتی ہے اور انہیں ہر دو سے چار ہفتے بعد خون کی بوتل لگانے کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ کمزور اور بیمار چہرے والے یہ بچےکھیل کود اور تعلیم دونوں میدانوں میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور معاشرے میں صحیح مقام نہ پانے کی وجہ سے خود اعتمادی سے بھی محروم ہوتےجاتے ہیں۔ بار بار خون لگانے کے اخراجات اور ہسپتالوں کے چکر والدین کو معاشی طور پر انتہائی خستہ حال کر دیتےہیں جسکےبعدنامناسب علاج کی وجہ سےان بچوں کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
تھیلاسیمیا کبیر دو طرح کا ہوتا ہے ۔
الفا تھیلاسیمیاکبیر
بیٹا تھیلا سیمیا کبیر۔

بلوغی ہیموگلوبن A جو خون میں سب سے زیادہ(96 فیصد) ہوتی ہے اس میں الفا اور بیٹا دو زنجیریں پائی جاتی ہیں ۔جین کی خرابی کی وجہ سے ، ان الفا یا بیٹا زنجیروں میں نقص پیدا ہوتا ہے جس کے باعث سوئچنگ کے عمل میں خلل واقع ہوتا ہے ۔اگر خرابی الفا زنجیر میں ہوتو اسے الفا تھیلا سیمیاکبیر کہتے ہیں اور اگریہ خرابی بیٹا زنجیرمیں ہوتو اسے بیٹا تھیلاسیمیاکبیر کہا جاتا ہے۔الفا تھیلاسیمیا کبیر میں مبتلا بچے کم عمری میں ہی مر جاتے ہیں۔بی ٹا تھیلاسیمیاکبیر میں مبتلا افراد کو ہر دو سے چار ہفتوں کے بعد خون لگوانے کی ضرورت پڑتی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں بہترین علاج کے باوجود یہ مریض 30 سال سے 40 سال تک ہی زندہ رہ پاتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے مریضوں کی عمر لگ بھگ دس سال ہوتی ہے۔ یہ مرض چونکہ موورثی ہے اس لئے یہ مرض زیادہ تران گھرانوں میں ہوتا ہے جہاں خاندان کے اندر ہی شادی کی روایت ہوتی ہے۔پاکستان میں یہ مرض خیبرپختونخواہ میں زیادہ پایا جاتاہے۔

تشخیص
اس بیماری کی علامات پیدائش کے کچھ ماہ بعد ہی ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔عام طور پر اس کے اثرات چوتھے یا پانچویں مہینے میں اپنا اثر دکھانا شروع کردیتے ہیں ۔متاثرہ بچوں کی جلد پیلی ہوتی ہے۔کمی خون کی وجہ سے اس میں مبتلا بچوں کو چکر آنے اور سر درد کی شکایت رہتی اور سانس لینے میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔ تھکاوٹ کے علاوہ عدم توجہ ،دل کا تیزی سے دھڑکنا ، جسم میں آکسیجن کی کمی ، دوران خون میں سست روی ، ہڈیوں کے گودے میں کمی کی وجہ سے ہڈیاں کمزور ہو نا، اس بیماری کی علامات ہیں۔اس مرض میں بچے کا جگراورطحال (تلی) بڑھ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا پیٹ پھول ہوا ہوتا ہے۔بعض اوقات تلی اس قدر بڑھ جاتی ہے اورمتورم ہو جاتی ہے کہ اسے سرجری سے نکالنا پڑتا ہے۔

تھیلاسیما کے مرض کی عام نشانیاں:
• جبڑے کی ہڈی بڑھنے سےچہرے کی ہڈیوں کا ٹیڑا پن اور بدنمائی
• تھکاوٹ اور کمزوری
• سست نمو(بڑھوتری‬میں‮‬کمی)‬‬‬‬‬‬‬‬‬
• دیر سے بالغ ہونا
• سانس لینے میں دشواری(سانس پھولنا)
• جلد کا یرقان (جلد کا زرد ہونا)
• جگر اور تلی کا بڑھ جانا (عظم جگر وطحال) اس وجہ سے پیٹ‮‬کا‮‬غیر‮‬معمولی‮ پھولا ہوا ہونا ‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬
• بھوک کا کم لگنا
• ہاتھ پاؤں سرد ہونا
• ہڈیوں کا بھربھرا ہونا جس کی وجہ سے لمبی ہڈیا ں ٹوٹ سکتی ہیں
• کھوپڑی کی ہڈیوں کا موٹا ہونا
• سرکی جلد پر وریدی جال(خون کی رگیں) کا نمایاں ہونا
• خون میں بلی روبن کی سطح کا بلند ہونا
• گہرے‮‬رنگ‮‬کا‬پیشاب‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬ (خون میں بلی روبن کی سطح کا بلند ہونا)‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬
• پتہ میں پتھری بننا
• پانی کی کمی بوجہ اسہال
• آئرن لوڈ (Iron load) کی وجہ سے دل کے عضلات کا تباہ ہونا اور اس کی وجہ سے سقوط قلب
خون کا ایک ٹیسٹ جسے ہیموگلوبن الیکٹروفوریسز (Hemoglobin electrophoresis) کہتے ہیں ،اس بیماری کی تشخیص کر سکتا ہے۔ تھیلاسیمیا کی تشخیص کے لئے یہ ٹیسٹ زندگی میں ایک ہی دفعہ کیا جاتا ہے اور چھ ماہ کی عمر کے بعد کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ مزید ٹیسٹ بھی کئے جاتے ہیں مثلا
• خون کے خلیات کا مکمل شمار(Complete Blood count)
• آئرن کی اتصالی گنجائش (Fe Binding Capacity)
• فیریٹن (Ferritin)
• خونابی ٹرانسفیرین (Serum Transferrin)
• خونابی بلی روبن (Serum Bilirubin)
• بولی بلی روبن (Urine Bilirubin)
• یوروبیلوجن (Urobilogen)
• Peripheral blood smear
احتیاطی تدابیر
• تھیلاسیمیا صغیر یا کبیرمیں مبتلا افراد کی آپس میں شادی نہیں ہونی چاہیے۔ جن خاندانوں میں یہ مرض موجود ہے انکے افراد کو اپنے خاندان میں شادی نہیں کرنی چاہیے۔
• اگر ایسے افراد شادی کر چکے ہوں تو وہ بچے پیدا کرنے سے پہلے ماہرین سے ضرور مشورہ کریں۔
• اگر ایسے افراد شادی کر چکے ہوں اور حمل ٹھہر چکا ہو تو حمل کے دسویں ہفتے میں بچے کا تھیلاسیمیا کا ٹیسٹ کروایں اگربچہ میں یہ مرض پایا جائے تو حمل کا اسقاط کرادینا چاہئے یہ مذہب کے خلاف نہیں ہے۔

علاج :
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ تھیلا سیمیا صغیر کے افراد عموما نارمل زندگی گزارتے ہیں انہیں عام طوپر کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا لیکن اس میں کمی خون کا خدشہ بہرحال موجود رہتا ہے ۔اس کے تدارک کے لئے تھیلاسیمیاصغیر کے حامل افراد کو روزانہ ایک ملی گرام فولک ایسڈ (Folic acid) کی گولیاں استعمال کرتے رہنا چاہیے تاکہ ان میں خون کی زیادہ کمی نہ ہونے پائے۔اس کے ساتھ وٹامن بی 12 بھی استعمال کرنا چاہیے ۔تھیلاسیمیا صغیرکی حامل خواتین میں دوران حمل خون کی کمی کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اس لئے ان حاملہ خواتیں میں فولک ایسڈ کے استعمال کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔

تھیلاسیمیا کبیر کا علاج مریض کی ہڈیوں کے گودے کو کسی صحتمند فرد کی ہڈیوں کے گودے سے تبدیل (بون میرو ٹرانسپلانٹ)کرنا ہے۔یہ نہایت تکلیف دہ اور مہنگا علاج ہے،جس پرلاکھوں روپے خرچ آتا ہے لیکن یہ علاج خطرے (رسک) سے بھرپور ہوتا ہے،اس علاج سے ہڈیوں کے گودے کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور مدافعتی نظام مفلوج ہونے کا شدید خطرہ رہتا ہے۔اس کےعلاوہ یہ علاج 100 فیصد کامیاب نہیں ہوا ہے جن مریضوں میں یہ طریقہ کامیاب ہوتا ہے ان کو عمر بھر دوائیں بھی لینا پڑتی ہیں۔

عارضی علاج یہ کہ ان کی زندگی بچانے کے لئے انہیں باہر سے خون مہیا کیا جاتا ہے یعنی ان کی زندگی عطیہ خون پر منحصر ہوتی ہے اور انہیں ہر دو سے چار ہفتے بعد خون کی بوتل لگانے کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔تھیلا سیمیا کبیر کے مریضوں میں ان کی ہیموگلوبن کی مقدار پر خصوصی توجہ رکھی جائے کیونکہ اگر یہ مقدار کم (6 تا 7 گرام فی ڈیسی لیٹر تک)ہوجائے تو خون کی کمی سے بچے کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے اور اس کی تلی کی جسامت بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس لئے ان کا ہیموگلوبن کسی صورت 10 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر سے کم نہیں ہونا چاہیے ۔جیسے ہی اس کی مقدار کم ہونے لگے فوری طور پر انتقال خون کا بندوبست کرنا چاہیے ۔ اس طرح بچوں کی نشوونما جاری رہتی ہے اور ان کی تلی (طحال) کے بڑھنے کے امکانات بھی کم ہوجاتے ہیں-
بار بار خون لگانے سے معاشی خستہ حالی کے ساتھ ان بچوں یا افراد میں کئی سنجیدہ قسم کے مسائل جنم لیتے ہیں۔عام طور پر 10 تا 12 کلوگرام کے بچے کو 250 ملی لیٹر کا پورا بیگ لگایا جاتاہے۔لیکن جب بچہ بڑا ہو جاتا ہے تو اسے ہیموگلوبن کی مقدار بڑھانے کے لئے زیادہ خون کی ضرورت ہوتی ہے چنانچہ 10 سے 15 سال کی عمر کے بچوں کو خون کے دو ، دو بیگ مہینے میں دو بارلگائے جاتے ہیں ۔ خون کی ایک بوتل میں تقریبا 200 ملی گرام فولاد (آئرن) ہوتا ہے ۔ ہرانتقال خون پر یہ فولاد ان مریضوں میں جمع ہوتا رہتا ہے ۔ اس زائد فولاد کو اصطلاح میں فیریٹن (Ferritin) کہا جاتاہے ۔تھیلا سیمیا کے مریضوں میں نارمل افراد کی طرح اسے خارج کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ۔اسے عارضے کو آسان الفاظ میں آئرن لوڈ (Iron load) کہا جاتاہے۔ طبی اصطلاح میں اسے Haemo Chromatosis یا Haemo Ridrosis کہا جاتا ہے ۔یہ فاضل فولاد ان مریضوں کے جسم میں خصوصا جگر ، تلی ، گردے اور سرخ ارادی عضلات میں جمع ہونے لگتا ہے ۔ فیریٹن کی زیادتی سے تلی کا حجم بڑھ جاتا ہے اس آئرن لوڈ کے باعث یہ اہم احشائی اعضاء (Visceral organs) اپنے طبعی افعال انجام نہیں دے پاتے۔اس کے سب سے زیادہ خطرناک اثرات قلب پر مرتب ہوتے ہیں ۔ اولا خون کی کمی کے باعث دل کی درمیانی عضلاتی تہہ میں ضعف عضلات ہونے لگتا ہے ثانیا آئرن لوڈ کی وجہ سے دل کے عضلات میں بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں اور سقوط قلب (ہارٹ فلیور)کی وجہ سے مریض جانبر نہیں ہوپاتا ۔اگر آئرن لوڈ لبلبہ کے بیٹا خلیات کو متاثر کرے تو اس سے ذیابیطس کا عارضہ لاحق ہوسکتا ہے۔

اس زائد مقدار کا پتہ چلانے کے لئے ایک مخصوص ٹسٹ کروایا جاتاہے جسے ہر چھ ماہ بعد دہرایا جاتا ہے ۔ سیرم (خوناب) میں فیریٹن کی نارمل مقدار 250 ملی گرام فی ملی لیٹر سے کم ہوتی ہے ۔لیکن تھیلا سیمیا کبیر کے مریضوں میں انتقال خون کے باعث یہ بڑھتی رہتی ہے ۔ جب یہ مقدار 1000 ملی گرام فی ملی لیٹر سے زائد ہونے لگے تو ایسی ادویات کی ضرورت ہوتی ہے جو زائد فولاد کا اخراج کریں ۔اس سلسلے کی معروف دوا ڈفروکسامین (ڈسفرال) (DESFERAL -- DEFEROXAMINE ہے ۔ جو انجیکشن کی صورت دستیاب ہیں ۔یہ گراں قیمت انجیکشن ضمنی اثرات کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ مریض کے لئے تکلیف دہ بھی ہوتا ہے ۔یہ ڈرپ میں ڈال کر لگایا جاتا ہے او ر 8 سے 10 گھنٹے میں ختم ہوتا ہے ۔اگر فیریٹن کی مقدار 1000 سے 2000 ملی گرام فی ملی لیٹر تک پہنچ جائے تو ڈسفرال کی روزانہ مقدار 25 ملی گرام فی کلوگرام جسمانی وزن کے حساب سے دی جاتی ہے ۔ اور اگر یہ مقدار 3000 تک چلی جائے تو ڈسفرال کی مقدار 35 ملی گرام فی کلوگرام اور اگر یہ مقدار 3000 سے زائد ہوتو ڈسفرال کی روزانہ مقدار 45 ملی گرام فی کلوگرام جسمانی وزن کے لحاظ سے دی جاتی ہے۔جسم سےفولادکم کرنے کے لئے کھانے کی گولیاں بھی deferasirox) Exjade) اور Deferiprone کے نام سے دستیاب ہیں مگر یہ بہت مہنگی پڑتی ہیں اوریہ بھی ضمنی اثرات کی حامل ہوتی ہیں۔
انتباہ :کمی خون (انیمیا) کے مریضوں کے علاج کے لئے عام طور پر فولاد کااستعمال کرایا جاتا ہے لیکن اس مرض میں فولاد اور ایسی اشیاء جن میں فولاد کا جزو پایا جائے کا استعمال سخت ممنوع ہے کیونکہ مریض پہلے ہی فولاد کی زیادتی کا شکار ہوتاہے اور اس کی وجہ سے بہت سے مسائل کا شکار ہوتاہے ۔اسے فولاد دینے کی نہیں بلکہ اس کے اخراج کی ضرورت ہوتی ہے۔

تھیلا سیمیا کے مریضوں کے پیٹ میں کیڑے نہ ہونے دئیے جائیں ورنہ قلت الدم شدید (انتہائی کمی خون) ہوجاتا ہے۔

نباتاتی علاج :
درج ذیل نسخہ جات اس مرض میں مفید ہیں-اس کے علاوہ بھی ضرورت کےمطابق دئیے جاسکتے ہیں ۔

نسخہ جات :
ہوالشافی
(1) پھٹکڑی بریاں – 80گرام ، کلونجی – 75 گرام ، تربد سفید– 40 گرام ، سنگ یہود ، الائچی کلاں ، قلمی شورہ ہر ایک 30 ، 30 گرام ، دارچینی – 25 گرام ، تخم بکائن ، تخم نیم، ریوند عصارہ – 20 ، 20 گرام ، نوشادر ، سہاگہ ، سجی ،سقمونیا ، گوگل بھنسیا ، غاریقون مغربل، مصبر ، نمک طعام، ست ملٹھی ہر کی 10 گرام ---- تمام اشیاء کا سفوف بنا کر ملا لیں اور 500 ملی گرام کا کیپسول صبح و شام استعمال کریں ۔
بچے کی عمر کے اعتبار سے خوراک میں کمی بیشی کرسکتے ہیں ۔اس کے استعمال سے فیریٹن بہت جلد خارج ہوجاتی ہے ۔ ڈسفرال کے انجیکشن کی ضرورت نہیں رہتی ۔
(2) اس کے علاوہ دھماسہ بوٹی جس کا نباتی نام (Fagonia Arabica)اور (Fagonia Cretica)ہے ۔اس مرض میں خاص طور پر مفیدہے ۔ اسے دھمیاں اور سچی بوٹی بھی کہتے ہیں۔یہ کانٹے دار خودرو پودا ہے جو عموما صحرائی علاقوں میں پایا جاتا ہے ۔ یہ اونٹ کی مرغوب غذا ہے۔
دوا بنانے کا طریقہ:دوا کے اثر اور نتائج کے اعتبار سے بوٹی حاصل کرنے کا سب سے اچھا وقت مارچ اور اپریل کا مہینہ ہے جب اس کے پھول نکل رہے ہوتے ہیں۔ دوا بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ پورا پودا خشک کرکے اس کو کوٹ اور پیس کر سفوف بنالیں۔

ترکیب استعمال:2 گرام فی کلو گرام مریض کے وزن کے حساب سے یہ دوا ، صبح شام استعمال کی جائے۔ 30 کلو وزن کے بعد دوا کی مقدار ایک ہی رہے گی جو کہ تقریباً ایک چھٹانک صبح اور ایک چھٹانک شام کے بقدر ہے۔ سفوف کو آدھ پاؤ پانی میں صبح سویرے بھگو کر رکھیں اور تقریباً 12گھنٹے بھگونے کے بعد شام کو اچھی طرح سے رگڑ کر حسب ذائقہ چینی یا شہد ملا کر یہ پانی مریض کو پلادیں اسی طرح شام کو بھگو کر صبح کی طرح پلادیں۔

نوٹ: ہیموگلوبن لیول کم از کم 10 ملی گرام برقرار رکھنا ضروری ہے ورنہ یہ دوا انتڑیوں سے پوری طرح جذب نہیں ہوپاتی اور معدہ کی معمولی تکلیف کا باعث ہوسکتی ہے۔ شروع شروع میں ہیموگلوبن 10 ملی گرام رکھنے کے لئے بار بار خون لگوانا پڑے گا لیکن ہیموگلوبن 10 ملی گرام رکھنے سے چند ہفتوں کے اندر ہی اس کے اثرات نظر آنا شروع ہوجائیں گے۔ مریض کی طبی حالت میں خاطر خواہ تبدیلی محسوس ہوگی اور خون کی ضرورت بتدریج کم ہونا شروع ہو جائے گی۔ اس دوا کے استعمال سے خون میں آئرن (Ferritin) کی سطح بھی اعتدال پر آنے لگتی ہے اور اس کے لئے اکثر کسی اور دوا کی ضرورت نہیں رہتی۔

استفادہ : طب صابر، ڈاکٹر عبدالقدیر کے کالم سحرہونے تک کے علاوہ متعدد ویب سائٹس خصوصا وکی پیڈیا
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

حکیم عبدالستار
About the Author: حکیم عبدالستار Read More Articles by حکیم عبدالستار: 10 Articles with 142943 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.