کعبہ بہارِ رحمت روضہ قرار وراحت...قسط۱۸

نزول گاہِ وحی کی مہمانی میں!

کعبہ شریف پر پہلی نظرکلیدی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔ کہتے ہیں اس وقت جو دعا ئے نیک بھی مانگی جائے وہ قبول، جس شئے کی بھی آرزو کی جائے وہ منظور۔ میں نے یہی کچھ حج کے بارے میں کتابچوں میں پڑھاتھا۔ ہاں، جو اللہ والے ہوتے ہیں ان کے لئے اللہ ہی چونکہ ہر زماں وہر مکاں مطلوب ، مقصود، محبوب ہوتا ہے، وہی ان کے ہرارمان ، آروز اور تمنا میں بساہوتا ہے، اس لئے ان کے لئے کعبہ پر پڑنے والی ہر نظر پہلی ہوتی ہے اور ہمیشہ پہلی ہی رہتی ہے، تازہ ہو اکا جھونکا، ایمان افروز، تقوی وحب الہیہ کی پیامی ، وہ حساب دانی کے گورکھ دھندوں میں نہیں پڑتے بلکہ جمع تفریق سے بالاتر رہ کر مقلب القلوب الابصار کی یاد میں مستغرق ر ہتے ہیں ۔ البتہ مجھ جیسے عامی کے لئے بات الگ ہے ۔ اس لئے میں نے قبل ازوقت اپنے محترم ومکرم بھائی محمد مظفر خادم مرحوم سے پوچھا تھا کہ پہلی نظر میں کیا دعا مانگی جانے چاہیے ؟ انہوں نے سادہ لفظوں میں صلاح دی کعبہ شریف پر پہلی نظر پڑے تو کسی ایک مخصوص دعا ، التجا ، مناجات پر بس نہ کیجئے کیونکہ ہر انسان کے ساتھ معاملہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے والا ہے ۔ دانائی یہی ہے کہ آہستہ آہستہ صبر وسکون کے ساتھ کعبہ مبارک پر نگاہیں مر کوز کریں اور کعبہ دیکھتے ہی ربِ کعبہ سے پہلی دعا آہ وزاری سے، سائلانہ اندازفقیرانہ اسلوب میں، آنسووں کی حدت اور یقین وایمان کی تمازت کے ساتھ مانگنا: اے اللہ جوبھی دعائیں یہاں تیرے گھر کے سامنے مانگنے کی توفیق تجھ ہی سے پاؤں، ان سب کو شرفِ قبولیت بخشنا، ہر دلی مراد پورا کر نا ، میری آرزوں کی لاج رکھنا۔یہ دعا کرکے آپ نے گویا اللہ تعالی کے سامنے اجابتِ دعا کی وسیع وعریض جھولی پھیلادی اور پروانہ قبولیت حاصل کیا، البتہ اجابتِ دعا کی شرائط اپنی جگہ قائم رہیں گی ۔ اللہ کا بے حد شکر و ثناکہ زیارتِ کعبہ کی گہماگہمی میں رواں رواں کھوجانے کے باوجود خادم صاحب کی یہ نصیحت یاداشت کی پوٹلی سے بروقت نکل باہر آئی اور گناہ گار کو دعا مانگنے کا سلیقہ سکھلادیا ۔ مگر میں جانتا تھا میری نگاہ محدود ہے، بصارت لفظوں کے پیکر میں محصور ہے ، معانی کی تہوں میں اتر نے کا حوصلہ نہیں رکھتا، چھلکوں میں مقید ہوں، مغز سے ناآشنا ہوں لیکن پتہ نہیں کیا کرامت ہوگئی کعبہ شریف پر پہلی نظر پڑی تو ایک لامحدود کائنات آنکھوں کے کٹورے میںسماں گئی ، ایک ہی جھلک پاکر روح کا کیف وسرور بڑھ گیا اور میں نے طائرانِ لاہوتی کے اس جمِ غفیر میں خود کو محو تماشہ نہ پایا بلکہ اب تو نور کے آسمان میں اڑان بھرنے کے لئے میرے کمزوروناتواں پروں میں بھی تھوڑی سی جان آگئی۔ تاہم دیوانگی کا عالم یہ تھا کہ یہ سمجھ ہی نہ پایا کہ کعبہ مجھے دیکھ رہاتھا یا میں کعبے کی بہ چشم نم زیارت سے فیض یاب ہورہا تھا۔ یہ بھی کہاں طے کر پارہاتھا کہ آیا اب خانہ خدا سے ہم کلام ہو جاؤں یا کعبہ مجھے اپنے کلیجے سے لگا کر خیریت وعافیت پوچھ لے گا ۔ شوق کے پنچھی نے اس مخمصے سے نکا لا ، بولا خوشیاں منائیں خانہ کعبہ اور آپ کا خالق ومالک ایک اللہ وحدہ لاشریک ہے ، اس نے کعبہ کوبیتی (البقرہ۔۔۔۱۲۴) میرا گھر کہہ کر پکارا اور تمہیں یعبادی ( الزمر۔۔۔۵۳ ) اے میرے بندے کے خطاب سے یاد کیا، مطلب دلاسہ دیا، اپنائیت کاتاج سر پر رکھا، شاباشی دی،شانے پر رحمت وشفقت بھری تھپکی دی کہ دوئی ختم اور اجنبیت کافور ۔ کیوں نہ ہو آخر یہ پاک ومطہر گھر بھی اسی کا اورآپ گناہوں میں لتھڑے بندے بھی اسی کے ہو ۔ یہ آیات میرے لئے راہ کشا بنیں اور مجھے لگا اللہ تعالی اپنے فضل وکرم کے ڈونگرے مجھ عاصی پر برسا رہا تھا۔ یہاں یاد آیاحج کے موقع پر پیر ذوالفقار نقشبندی دامت برکاتہم کے خلیفہ ہند صلاح الدین یوسفی بھی عزیزیہ میں ہمارے ہی ہوٹل میں تھے ،ان کے ہمراہ مفتی محمد یعقوب شوپیانی بھی تھے ۔ا س عظیم داعی ومبلغ کے ایک شاندار درس میں بیٹھنے کا زریں موقع مجھے نصیب ہوا ۔ آپ نے اپنے زوردار بیان میں ہمارے گروپ کو ایسی ایسی انمول نصیحتیں کیں کہ آج بھی انہیں یاد کرکے بہت ہی ر وحانی فیض پاتاہوں ۔ ایک نصیحت یہ تھی کہ کہتے ہیں کہ جب حاجی کی پہلی نظر کعبہ شریف پر پڑے تو جو دعا مانگی جائے وہ بارگاہِ ایزدی میں قبول ہوجاتی ہے، یہ صحیح ہے مگر آپ کے ذوق وشوق اور وارفتگی کی یہ حالت ہونی چاہیے کہ جس جس لمحہ بھی کعبہ کی زیارت سے آپ کی آنکھوں کی بینائی لوٹ آئے ،یہ پہلی نظر قرار پائے ، آپ کی دعا ہر بار قبول ہونے کی امید جگائے، آپ کعبہ کی دادوہش سے کبھی سیر نہ ہوں بلکہ تشنگی نہ صرف قائم رہے بلکہ پل پل بڑھ جائے، آپ اپنے لئے اور اپنوں کے لئے ہی دعا ئیں محدود نہ کریں بلکہ تمام انسانوں کی بھلائی کے لئے دست بدعا ہوجائیں۔ یہ سن کر میں نے یہ تمنا کی اے کاش کعبے پر میری نظر ہر بار پہلی نظر بنے ۔

کعبہ شریف نشیب میں واقع ہے، اس کے لئے مسجد حرام سے کہیں سیڑھیاں نیچے اترنا پڑتی ہیں ۔ یہاں اسکلیٹروں کا بھی بھر پورا نتظام ہے۔ مطاف کے اوپر دومنزلہ کنٹی لیور تعمیر کئے گئے ہیں اورا س پر ابھی کام چل رہاتھا ۔ یہ وسیع پیمانے پرمسجد حرام کے توسیعی منصوبے کا حصہ ہیں اورا ن کی تکمیل کے لئے پر ابھی بہت ماہ وسال درکار ہوں گے۔ یہ بھی ایک قابلِ دادامر ہے کہ کعبہ شریف میں پبلک ایڈریس سسٹم سے لے کرلائٹنگ وغیرہ تک تمام انتظامات دیکھ کر ہرکوئی عش عش کئے بنا نہیں رہ سکتا۔ یہاں کی صفائی ستھرائی کا عمدہ اور منظم ترین نظم دیکھ کر ماننا پڑتا ہے کہ خدامانِ کعبہ جس خلوص ،تن دہی ، احسا سِ ذمہ داری اور نظم وضبط کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہمہ وقت اور ہمہ تن مصروفِ عمل رہتے ہیں ، وہ ان کے سعی وکمال سے زیادہ اللہ کی توفیق ہے۔ اب ہم خانہ کعبہ کے روبرو اپنی آنکھوں کو زیارتِ کعبہ سے ٹھنڈک پہنچا رہے تھے، نوافل سے فارغ ہوئے تو نماز فجر سے قبل یکایک مطاف کی صفائی پر مامور قابلِ رشک ہند وپاک اوربنگلہ دیشی عملہ آٹو نما چلتے پھرتے وایکیوم کلینروں کے علاوہ جھاڑو،پونچھیاں اوردوسراساز وسامان لے کر کعبے کی طہارت کا کام پوری مہارت کے ساتھ کر نے میں مشغول ہوا ۔ ان لوگوں کی آمد کے ساتھ ہی پولیس نے کعبہ کی دیواروں،حطیم،حجراسود، رکن یمانی اوردرِکعبہ وملتزم سے لوگوں کو پیشہ ورانہ عمدگی کے ساتھ دور کرناشروع کیا۔ یہ اہتمام نمازفجرکی ادائیگی کی تیاریاں تھیں اوراشارہ تھا کہ اب نماز میں قلیل وقفہ ہے۔ ادھر مطاف میں نماز کے لئے بہت پہلے صفیں ہی بن چکی تھیں۔ہرایک کوشاں تھا کہ وہ کعبہ کی پہلی صفوں میں جگہ پالے مگر حال یہ تھا
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تانہ بخشند خدائے بخشندہ

میں نے دیکھا کہ امام صاحب کے لئے جاذبِ نظرسبز قالین بطور مصلی لاکر اگلی صف میں بچھایاگیا۔ دریں اثناکعبہ شریف کے دروازے پر ایک عرب عطر بیزی کررہاتھا جب کہ سنگِ اسود کی طہارت،اس پرعطرملنے،تمام دیواروں کے زیریں حصوں اور غلافِ کعبہ کی طہارت کاکام بیک وقت ہورہاتھا۔ حطیم پورے کا پورا زائرین وم صلین سے صاف کیا گیا۔ اسی کے ساتھ سنہرے رنگ کے دیدہ زیب مائیک صفا مروہ کی جانب سے خدامانِ حرم نے اپنے کندھوں پر لائے اوربڑی پھرتی کے ساتھ امام صاحب کے مصلّے کے ساتھ انہیں فِٹ کیا۔پہلی صف میں امام صاحب کے عین پیچھے چنیدہ شخصیات کے علاوہ سیکورٹی آفسیروں کیلئے مختص تھی جواب کندھے سے کندھا ملاکر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہواچاہتے تھے ۔ جب یہ دیکھا کہ پولیس اہل کارحجرِاسود کوبآسانی بوسہ دے رہے ہیں،درِکعبہ کوچوم رہے ہیں، ملتزم کے ساتھ بغل گیر ہورہے ہیں،تو ان پر کسے رشک نہ آتا؟ خانہ کعبہ کے امام صاحب بھی کچھ ہی ثانیوں میں مختصر سے حفاظتی دستے کے ہمراہ تشریف لائے۔ان کے لباس اورچال ڈھال سے لگ رہاتھا کہ کوئی عظیم نورانی شخصیت ہے جسے ربِ کعبہ نے اس اونچے منصب کے لئے چن لیاہے۔اس دوران طواف لگ بھگ تھم توگیامگراِکّا دُکّا مروزن طواف کرتے رہے ۔مطاف میں چاروں طرف پھیلی ہوئی مذہبی پولیس خواتین کو صفوں کے بیچ چلنے پھرنے سے ممانعت کر نے کے علاوہ انہیں پیچھے اپنی مخصوص جگہوں پرنمازادا کرنے کی ہدایات دے رہے تھے۔ ان میں عربوں کے علاوہ برصغیر کے اردوبولنے والے بھی یہ خدمت انجام دے رہے تھے ۔ خواتین کے لئے مردوں سے ہٹ کر پیچھے نمازوں کے لئے کافی گنجائش رکھی گئی تھی۔ مطاف کے کنٹی لیوروں پر بھی مر دوزن کی جداجدا صفیں باندھی گئی تھیں ۔ میری زندگی میں یہ پہلی نمازِ فجر تھی جو امامِ کعبہ جناب عبدالرحمن السد یس کی کیف آوراقتدامیں ادا ہونی تھی۔ نماز میں کیف و سرورکاکیاعالم تھا، شاید میرے پاس وہ الفاظ ہی نہیں جن سے میں اس کی تصویرکشی کرسکوں۔ لب تھرتھرارہے تھے،بدن پرکپکہاہٹ طاری تھی،کانوں میں آیاتِ قرآنی کی قرات رس گھول رہی تھی، دل میں ایک عجیب طرح کی شادمانی تھی، بالخصوص امام صاحب نے رک رک کران آیات کی تکرارکر کے ایک عجیب روحانی سماں باندھا جن میں اللہ کی عظمت وکبریائی، اس کی محبت وہیبت اوراہل ایمان کو نصیحت وتنبیہ کاتذکرہ تھا۔نمازکی ادائیگی کے فوراًبعد بغیر کسی توقف کے طائفین طوافِ کعبہ کے چکر لگانے میں والہانہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہم نے بھی اپنے امیر سفر کے حکم پر طواف کعبہ کی شروعات کے لئے حجرِ اسودکی سیدھ میں سبزرنگ کے دوٹیوب لائٹوں کی جانب قدم بڑھائے۔ حجرِ اسود کے سامنے اتنی بھیڑبھاڑاوردھکم پیل تھی کہ اسے بیان ہی نہیں کیا جاسکتا۔ ہجوم میں ہرشخص کی ایک ہی بے قرارآرزوتھی کہ اس کابوسہ لے اور اسے چوم کر روح کی پیاس بجھائے۔ مجھے یہ دیکھ کر تھوڑادکھ بھی ہواکہ خواتین بھی اس دھکم پیل میں اپنی آرزوکی تکمیل میں اپنوں اورغیروں کے شانہ بشانہ جدوجہد کررہی تھیں مگرشاید ان کا یہ عمل اسلامی آداب کے شایانِ شان نہ تھا۔اب ہم حجرِاسودکی سیدھ میں پہنچ کررک گئے،بآوازبلندبسم اللہ اللہ اکبر بآواز بلندپڑھااورحسبِ ہدایت اپنے دونوں ہاتھ اوپرکرکے سنگِ اسود کی طرف اشارتاً اس کا استلام کیا اور پھر اپنے ہاتھوں کو محبت و رقت کی آمیزش سے چوما۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 354340 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.