بندر پبلک سکول

اکثر شوہر وہ سارے الزامات ماننے سے انکارکرتےہیں جو’’ازدواجی عدالتیں‘‘لگاتی ہیں۔نجی عدالتوں میں روزانہ سو موٹو لیا جاتا ہے اورنتیجہ صفر نکلتا ہے ۔ گھر کادھیان نہیں رکھا۔سودا سلف نہیں لائے۔ دفاتر سے لیٹ کیوں ہوئے۔اب رات کوکہاں جا رہے ہو۔پرفیوم کیوں لگایا ہے۔لیڈی سیکرٹری کیوں رکھی ہے ۔کس سے بات کر رہے تھے۔ اتنی لمبی کال کیوں کی۔امی کی طرف کیوں نہیں جاتے۔میری کزن سے بڑی ٹر ٹرہو رہی تھی۔اب بولتے کیوں نہیں۔ ؟ ہر شوہر کے خلاف لمبی چارج شیٹ ہوتی ہے۔شوہر سزاکے بغیر ہی اسیر ی کاٹتے ہیں۔صدشکر کہ ایسی عدالتیں ایک برانڈٹ سوٹ کی مار ہوتی ہیں۔لیکن ازدواجی مقدمات ۔ این آر او نہیں ہوتے ۔ جج کا جب بھی نیا سوٹ لیناچاہےکیس ری اوپن ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔

بندر سکول میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے

’’ط‘‘ جب بھی بیڈ پر تنہا سونا چاہتا ۔ اپنی بیوی سے لڑائی کر لیتا اور بستر پریوںرات بھر لیٹنیاں لیتا جس طرح مال بردار جانور دن بھر کی تھکان کھلے میدان میں پشت رگڑ کراتارتے ہیں۔’’ط‘‘ کی بیوی دوسرے کمرے میں سو رہتی لیکن حیلے بہانےجب بھی حجلہ عروسی میں آتی ۔ کانی آنکھ شوہرپر ضرورڈالتی ۔جانے کیوں ’’ط‘‘ کی لیٹنیاں اسے بندر کی ٹپوسیاں لگتیں۔ ہر صلح کے بعدبھابھی ’’ط‘‘ کو ضروربتاتی کہ’’ تم سوتے ہوئےبندرکی طرح ٹپوس رہے تھےاورڈبل بیڈکو بندرگاہ سمجھ رکھا تھا‘‘۔ہمارے ہاں بندروں کی دو نسلیں ہیں۔ پہلی جنگلی یا ۔ چڑیا گھری ۔ اور دوسری گھریلوبندر۔گھریلو بندرقابوکرنا ہو تو ’’طویلے کی بلا بندر کے سر‘‘والا نسخہ ہوتا ہے اور جنگلی بندر کابہترین توڑ۔ لنگور ہے ۔ ہندوستان میں ہنومان سے مشابہت کی وجہ سے بندربہت سر چڑھے ہیں اسی لئے وہاں بندروں سے نمٹنے کے لئے لنگو رکرائے پردستیاب ہیں بلکہ بلدیہ نے لنگور بھرتی بھی کررکھےہیں۔

میاں بیوی سڑک پر واک کر رہے تھے۔۔ تو ایک لڑکے نے فقرا کسا ۔حور کے پہلو میں لنگور شوہر نےغصے میں۔۔چھچورے کی پھینٹی لگا دی اور ۔۔ بولا میری بیوی کو لنگور کہہ رہا ہے ۔

اکثر شوہر وہ سارے الزامات ماننے سے انکاری ہوتے ہیں جو’’ازدواجی عدالتیں‘‘لگاتی ہیں۔ازدواجی عدالتوں میں روزانہ سو موٹو لیا جاتا ہے اورنتیجہ صفر نکلتا ہے ۔ گھر کادھیان نہیں رکھا۔سودا سلف نہیں لائے۔ دفاتر سے لیٹ کیوں ہوئے۔اب رات کوکہاں جا رہے ہو۔پرفیوم کیوں لگایا ہے۔لیڈی سیکرٹری کیوں رکھی ہے۔کس سے بات کر رہے تھے۔ اتنی لمبی کال کیوں کی۔امی کے گھر کیوں نہیں جاتے۔میری کزن سے بڑی ٹر ٹرہو رہی تھی۔اب بولتے کیوں نہیں۔ ؟ ہر شوہر کے خلاف لمبی چارج شیٹ ہوتی ہے۔شوہر سزاکے بغیر ہی اسیر ی کاٹتے ہیں۔ پھر پھدکنے کے طعنے بھی۔ صدشکر کہ ایسی عدالتیں ایک برانڈٹ سوٹ کی مار ہوتی ہیں۔لیکن ازدواجی مقدمات ۔ این آر او نہیں ہوتے ۔ جج کا جب بھی نیا سوٹ لیناچاہےکیس ری اوپن ہو جاتا ہے ۔ جیسے ’’ط‘‘جب سونا چاہتا ہےلڑپڑتا ہے۔ایسی عدالتوں میں دم مارنے کی مجال بھی نہیں ہوتی ۔ سر تسلیم خم، نگاہ نگوں رہتی ہے اورسخن دل نوازی کی اجازت نہیں ہوتی۔بلکہ معاملا ت۔نشستن ،گفتن ، برخاستن۔جیسے ہوتے ہیں۔
آفیسر:ایک جہاز پر 500 اینٹیں ہیں۔ ایک باہرگر گئی باقی کتنی بچیں۔؟
امیدوار:499 اینٹیں
آفیسر:ایک ہرن کو فریج میں رکھنے کے3مراحل بتاو۔
امیدوار:فریج کھولیں،ہرن اندر رکھیں اور بند کر دیں
آفیسر:ایک بندر کو فریج میں رکھنے کے چار مراحل بتاؤ
امیدوار:فریج کھولیں۔ہرن باہر نکالیں اور بندر ۔ اندر رکھ کر فریج بند کر دیں
آفیسر:شیر کی سالگرہ تھی،تمام جانور آئےہیں۔ ایک نہیں آیا۔کیوں؟
امیدوار:کیونکہ بندر فریج میں ہے
آفیسر:ایک بوڑھیامگرمچھوں سے بھری جھیل کیسے عبور کرے گی
امیدوار:سکون سے۔کیونکہ تمام مگرمچھ سالگرہ میں ہیں
آفیسر: بوڑھیا پھر بھی مر گئی ۔کیوں۔؟
امیدوار:شائد۔ ڈوب گئی ۔؟
آفیسر:نہیں!جہاز سے گرنے والی اینٹ لگنے سے ۔تم جا سکتے ہو

بندر کبھی بیڈ پر ہوتا ہےاورکبھی فریج میں۔لیکن وہ جہاں بھی ہو’’ لنگوری‘‘اشاروں پر ناچتا ہے۔ نچانے والوں کا فرقہ’’مداریہ‘‘ ہوتا ہے ۔بندر بانٹ بھی وہی کرتے ہیں۔سر پہ پٹکا ، ہاتھ میں ڈگڈگی، منہ میں پان، آگے بندر، پیچھے بکری اور پہلو میں بچہ جمورا۔فطری جبلت کی وجہ سےبچپن میں درجنوں بار یہ کردار دیکھے ۔مداری اور بچہ جمورا کا’’تھوڑا سا گھوم جا۔ تھوڑا سا جھوم جا‘‘۔والا مقالمہ آج بھی ذہن نشین ہے لیکن بندر’’سوہرے جانے اور واپس آنے‘‘کی جو ایکٹنگ کرتا تھا وہ ناقابل ڈلیٹ ہے ۔شائد یہی ’’ط‘‘ ہےجو ڈارون کے ارتقائی نظرئیے کے بعد بیڈ پر چڑھ گیا ہے۔

بال کی کھال اتارنا مجھےقطعا پسند نہیں کیونکہ طبعیت قصابی نہیں۔مجھے تو الفاظ کے ظاہری مطلب سے ہی مطلب ہے ۔ پوشیدہ معنی تلاش کرنا انہیں ’’برہنہ‘‘ کرنا ہےاور مجھے برہنہ پا سے لے کر’’ برہنہ تا‘‘ تک کچھ بھی بھلا لگتا تو شائد قصاب ہی ہوتا۔البتہ بندر گاہ ایسا لفظ ہے جس کا ظاہراور باطن بلکل سیاسی سا ہے ۔ الگ الگ ۔بندرگاہ کا بظاہرمعنی تو بندروں کا ٹھکانہ ہے لیکن وہاں بحری جہازپارک ہوتے ہیں اورٹیکس کلیکٹر کو شاہ بندر کہا جاتا ہے۔ بندر روڈکراچی اسی سے منسوب ہے۔بندرگاہ دراصل دو فارسی الفاظ۔ بند۔اور ۔در کا مجموعہ ہے۔یعنی کوئی احاطہ یا محفوظ ایریا۔اردو والے ۔ بندرکو۔ فارسی میں ’’بوزینہ ‘‘اور انگلش میں monkey کہتے ہیں۔Monkey کامطلب ہے ۔بیوقوف حرکتیں کرنا ۔افسوس ۔! کہ بندر عجیب برہنہ سا ہو کر سامنے کھڑا ہو گیا ہے ۔

ڈارون نےحیاتی ارتقا اور تغیر کا جونظریہ گھڑا ہے ۔ ہنومان ۔اس کا تصویری ثبوت ہے۔ میں اکثر سوچتا تھا کہ صابن دانی میں صابن ہوتا ہے۔ نمک دانی میں نمک ۔سرمے دانی میں سرمہ اور مچھر دانی میں شوہر کیوں ہوتا ہے۔؟ اچانک اس سوچ کو ’’ط‘‘ والی بھابھی نے بدل ڈالا تھا۔ انہیں مچھر دانی میں بندر دکھتا ہے۔سنا ہے انسان کا بچہ چپ ہو ۔ اور بندر کا بچہ شرارتیں کرتا ہو تو سمجھو دونوں بیمار ہیں۔پتہ نہیں یہ تاثردرست ہے یا شرارت۔ لیکن بھابھی ’’ط ‘‘ کی ہرشرار ت کی عینی شاہد تھی اور میں رازداں۔سالوں بعد آج یہ راز منکشف کرنا پڑگیا ہے۔

خبر یہ ہے کہ بیجنگ چین میں۔بندروں کا پہلا اسکول کھل گیا ہے۔نقلیں اتارنے میں مشہور بندر اب انسانوں کی تقلید میں شرافت سے اسکول میں پڑھائی کیا کریں گے۔کچھ جاپانی بندروں نے سمندر پار سے داخلہ لے لیا ہے۔منکی سکول میں بندروں کوریاضی بھی سکھائی جائے گی۔بندر دو جمع دو چار کرتے کرتے لنچ میں کیلے کھائیں گے ا نہیں سرکس کی تربیت بھی دی جائے گی۔فارغ التحصیل بندر چین کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں بھیجے جائیں گے۔

بندر بیڈ، فریج اور مندر کے بعد اسکولوں میں بھی پہنچ چکے ہیں۔چین نےتو منکی پبلک سکول بنا کر اپنے بندر سدھارنے شروع کر دئیے ہیں حالانکہ ضروری تھا کہ انڈیا ہنومان پبلک اسکول بنا تا ۔پاکستان تو اس ترقی میں چین سے بہت پیچھے ہے۔بندر پبلک سکول یقینا بھابھی مکتب فکر سےمنسلک لوگوں نے کھولا ہو گا۔وہ ٹپوستے شوہرکی اصلاح کے خواہشمند ہوں گے۔شائد سکولوں کی دیواروں پرمار نہیں پیار کے بجائے ڈگ ڈگ ڈگڈ گی لکھا ہوا ہو۔کلاس رومز میں کیلے اور ملوک کی تصاویر بنی ہوں۔
پولیس انسپکٹر نے ایک کار روکی تو ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بندر بیٹھا تھا
انسپکٹر:جناب اسے چڑیا گھر لے جائیں۔اگلے دن انسپکٹر نےپھر بندر اور آدمی ساتھ ساتھ دیکھے تو پوچھا
انسپکٹر: میں نےآپ سے کہا بھی تھا چڑیا گھر نہیں لے کر گئے ؟
آدمی:کل ہم چڑیا گھر گئے تھے۔بہت مزہ آیا۔آج: سینما جا رہے ہیں۔

اسی دوران خبر نظر سے گذری ہے کہ سعودی عرب کے معروف سفارتکار بندر بن سلطان کو قومی سلامتی کا سیکرٹری بنادیا گیا ہے۔عربی میں سلطان تو بادشاہ کو کہتے ہیں لیکن بندر کسے کہتے ہیں۔ اس جھنجٹ میں پڑنا ۔پھر قصائی بننے جیسا ہے۔ لیکن اطمینان یہ ہے کہ اس بار بندر بن سلطان۔ایک بیوی نے نہیں ماں نے رکھا ہے۔ شائد دنیا کا یہ واحد بندر ہوگا ۔ جو ڈگ ڈگی کے بغیر ہی سوہرے جاتا ہو۔
Ajmal Malik
About the Author: Ajmal Malik Read More Articles by Ajmal Malik: 76 Articles with 95968 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.