استحصال ،استحقاق اور کرپشن ۔۔۔۔۔۔۔مساوات کی ضرورت

وی آئی پی کلچر کو ختم کر کے معاشرے میں برابری کا معیار قائم کرنا اور کرپشن کا خاتمہ کر کے استحصال کو روکنا۔۔
بڑی بی جی نے مرغی کے اٹھنے کے بعد انڈہ اٹھایا اور کچن کی طرف ہو لی اتنے میں مرغی نے بھی بڑی بی جی کو سامنے سے آ کر روک لیا اور مخاطب ہوئی ،،بس بی جی اب میں اور برداشت نہیں کر سکتی ! میں نے انڈہ دیا ہے اپنی نسل کی افزائش اور بڑھوتری کیلئے لیکن آپ بغیر کچھ کئے چپ کر کے اٹھتی ہو اور میرا انڈہ توڑ کر کھا جاتی ہو !ٹھیک ہے تم مجھے دانہ ڈالتی ہو مجھے رہنے کیلئے جگہ دے رکھی ہے لیکن اسکا یہ مطلب تو ہر گز نہیں کہ اب تم میری نسل ہی نہ بڑھنے دو ؟آخر ہماری نسل کا یہ کھلے عام استحصال کب تک ہوتا رہے گا؟لیکن بی جی نے ایک نہیں سنی اورکچن میں پہنچتے ہی بغیر کسی تاخیر کے انڈہ پکایا اور کھا گئی۔اگر ہم اپنے آس پاس کے ماحول پر تھوڑی سی بھی توجہ دیں اور حکومتی پالیسیوں پر غور کریں تو وہ بھی بڑی بی جی سے کم نہیں بلکہ حکومت تو بڑی بات ہے یہاں تو ہر شخص ایک دوسرے کا استحصال کرتا ہے ۔مشہور کہاوت ہے،،جسکی لاٹھی اسکی بھینس ،،اسی طرح جسکا جہاں ہاتھ پڑتا ہے وہ وہیں اپنا الو سیدھا رکھتا ہے ۔یہاں بات استحصال سے بڑھ کر استحقاق میں بدل چکی ہے کیونکہ ہر شخص کودوسرے کا استحصال کرنے میں اپنا استحقاق نظرآتا ہے اور اسی طرح بس!! زندگی گزار رہا ہے۔حکومت عوام کا استحصال کرتی ہے ،فیکٹری مالکان اپنے مزدوروں کا اور عوام میں جسکا جہاں بس چلے ! صرف ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی یہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اس پر قابو پانا اب ناممکن سا ہو گیا ہے کہ جسکی بگڑی ہوئی شکل کرپشن کی صورت میں سامنے آئی ہے ۔کرپشن اسلئے بن گئی ہے کیونکہ کوئی بھی کسی کے ساتھ مخلص نہیں رہا ،جس مساوات کا سبق ہم نے اپنے نبی آخرالزمان ﷺ کی زندگی سے سیکھا وہ نظر نہیں آتی ۔محترم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ جب گورنر جنرل تھے قومی خزانے سے کچھ سامان منگوایا گیا جس میں کچھ فاطمہ جناح کے استعمال کا تھا اور کچھ محمد علی جناح کے استعمال کا تھا جب اسکا بل آپکے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے حکم دیا کہ جو سامان فاطمہ جناح کا ہے اسکے پیسے ان کے اکاؤنٹ سے اور جو میرے استعمال کا ہے وہ میرے اکاؤنٹ سے کاٹ لئے جائیں ۔لیکن 68 سال بعد آج کے پاکستان کی بات الگ ہے اب ہم بہت زیادہ امیر ہو چکے ہیں کہ اب اسکی ضرورت نہیں رہی۔اس وقت پاکستان میں صرف ایک طبقہ بس رہا تھا اور وہ سب مسلمان تھے لیکن اب دو طرح کے طبقات آباد ہیں ایک غریب طبقہ اور دوسرا امراء جن کیلئے رہن سہن ، زندگی گزارنے کیلئے سہولیات بھی الگ میسر ہیں ۔پاکستان میں ایک اور ثقافت نے جنم لے لیا ہے جسکا نام ہے وی آئی پی کلچر ۔وزراء جب گھر سے نکلتے ہیں تو انکے ساتھ ایک لمبی قطار میں گاڑیاں ہوتیں ہیں جن کی حفاظت کیلئے سیکورٹی ادارے الگ سے کام کر رہے ہوتے ہیں اوراس پروٹوکول پر جو خرچ آتا ہے وہ غریب عوام کی جیب سے ٹیکسوں کی مد میں چرایا جاتا ہے ۔مطلب یہاں لوگ ایک تو غلامی کرتے ہیں دوسرا اس غلامی کی قیمت بھی ادا کرتے ہیں ۔اس بے ہودہ ثقافت نے قانون کی بھی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں ہیں جیسے قانون نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں اگر کوئی غریب چھوٹا سا بھی گناہ کرے تو اس کیلئے قانون اپنی پوری آب و تا ب کے ساتھ چمک رہا ہے اور اسکی آنکھوں پر لگی کالی پٹی میں سے بھی سب دکھائی دیتا ہے ۔لیکن اگر امیر شخص جتنا بھی قانون کی توہین کر لے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں اسکے لئے سزا جزا کچھ نہیں ۔اس متعصبانہ رویے نے ایک نئی فضا چلا دی ہے کہ جس میں بیٹا باپ کے ساتھ ،بھائی ،بھائی کے ساتھ ،مالک ،ملازم کے ساتھ اور ملازم ،مالک کے ساتھ مخلص نہیں ہے ۔ہم مسلمان ہیں او ر ہمارا مذہب اسلام ہے اس بات پر کوئی بھی ایک ہونے کو تیار نہیں لیکن اس بات پر سبھی ایک ہیں کہ یہ ٹیچر یونین ہے ،یہ فنانس یونین ہے ،یہ بار ایسوسی ایشن ہے ،یہ سٹوڈنٹ یونین ہے ،یہ رکشہ یونین ہے فلاں یونین اور فلاں یونین اور اسطرح یونین بنا کر اپنے جائز تو ٹھیک لیکن ناجائز مطالبات منوانے کیلئے قانون کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں کوئی بھی یہ آواز کیوں نہیں اٹھاتا کہ ہماری یونین کے بندے نے غلطی کی ہے اسے سزا ملنی چاہئے؟ اس کے بر عکس اسکو سزا سے بچانے کیلئے جی توڑ کوشش کر تے ہیں ۔کرپشن کی وجہ سے بڑے بڑے ادارے دیوالیہ ہو رہے ہیں اور بلکل بھی نہیں سوچا جا رہا کہ ایک دفعہ نظر ثانی کر لی جائے کہ شاید اس کی بہتری کیلئے کوئی راستہ موجود ہو ۔اس پر سوال پیدا ہو تا ہے کہ اس طرح بے لوث اور بنا سوچے سمجھے فیصلے لینے کا کیا اختیار ہے ؟ کیا اس میں انکا کوئی ذاتی مفاد ہے جیسے کسی اپنے کو فائدہ دیا جا رہا ہو ؟ اگر اس کا جواب یہ ہے کہ دیوالیہ کئے جانیوالے ادارے نقصان میں جا رہے تھے تو میٹرو بھی تو پہلے روز سے گھاٹے میں جا رہی ہے اسے کیوں نہیں بیچا گیا ہے؟ عوام اپنے نمائندوں کو ووٹ کے ذریعے اپنا مینڈیٹ امانت کے طور پر دیتی ہے تاکہ وہ انکی آواز حکومت تک جیسی کی تیسی پہنچائیں لیکن یہ لوگ حکومتی نمائندہ بن کر اسی عوام کے ساتھ فرعونیت جیسا رویہ رکھتے ہیں اور انکا استحصال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔ہمارے ملک کا نظام اسی وقت بدلا جا سکتا ہے جب مساوات کو اولین ترجیح دی جائے ،وی آئی پی کلچر کوترجیحی بنیادوں پر ختم کر کے قانون سب کیلئے ایک ہے کا دائرہ کار یقینی بنایا جائے اور لوگوں کا استحصال بند کیا جا ئے ۔ہمیشہ ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے جب آ پ کسی کا حق غصب کر کے شروعات کرتے ہیں تو یہ عمل وہیں نہیں رک جاتا ۔جب ہم کچھ بھی خرد برد کرکے اداروں یا دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں تو یہ اسکا حق غصب کرنا ہی ہوتا ہے ۔ایمان ،اتحاد ،تنظیم ،یقین محکم پر عمل کرنے سے ہی ایک امت بنتی ہے اور ہم ایمان والے تو ہیں ہی لیکن اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔اگر ہم اس بات کو مان لیں کہ انسان اللہ کی بنائی ہوئی اشرف المخلوق ہے اور اس لحاظ سے سبھی ایک جیسی اہمیت کے حامل ہیں تو یقینی طور پر مساوات پیدا ہو جائے گی اور استحصال ،استحقاق ا ور کرپشن جیسی لعنت سے نجا ت مل جائے گی ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ملک کی طرف اٹھنے والی ہر نظر بد سے بچائے اور کرپشن جیسی اس لعنت سے اپنی پناہ دے ۔آمین۔۔۔۔

نوٹ:۔ یہ لکھت میری ملکیت ہے۔اگر کوئی بھی اسکو چرانے یا اس میں کوئی ہیرا پھیری کرنے کی کوشش کرے تو میں اسکے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتا ہوں ۔۔
احقر :۔ شفقت اللہ
Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 168146 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More