مولانا محمد صدیق جالندھریؒ۔وہ دکان اپنی بڑھا گئے

’’پاکستان مسجد کی طرح مقدس ہے،اس میں کسی قسم کا انتشار اور تفرقہ پھیلانا خود اپنے وجود کو عذاب میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔‘‘۔

یہ الفاظ جامعہ خیرالمدارس ملتان کے قدیم ترین فاضل اور نصف صدی تک شیخ الحدیث کی مسند پر فائز رہنے والے عالم باعمل مولانا محمد صدیق جالندھریؒ کے ہیں۔ان کی زندگی اور کارناموں کو تعبیر کرنے کے لیے درجنوں عنوانات قائم کیے جا سکتے ہیں۔لیکن میرے نزدیک ان کی زندگی کے جس گوشے کو سب سے زیادہ اور اولین ترجیح کے طور پر سامنے لایا جانا چاہیے وہ ہے ان کی وطن عزیز پاکستان سے والہانہ محبت۔یہ محبت بھی ان کو اپنے بزرگوں سے وراثت میں ملی تھی۔وہ خود بھی تحریک پاکستان کے جانباز سپاہی رہ چکے تھے۔مولانا محمد صدیق جالندھریؒ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے رفیق خاص اور تحریک پاکستان کے عظیم قائد مولانا خیر محمد جالندھری کے خاص شاگرد تھے۔انھوں نے پاکستان کو بنتے دیکھا تھا۔ان کی نگاہوں کے سامنے قیام پاکستان کے دوران مسلمانوں نے جس اتحاد ویگانگت اور یک جہتی کا مظاہرہ کیا،اس کے مناظر تھے،انھوں نے اس وطن کے حصول کے لیے لوگوں کو کٹتے،مرتے،سسکتے،تڑپتے،بے گور وکفن لاشوں،لٹی پٹی عصمتوں اور قربانیوں کو دیکھا تھا،سو وہ موجودہ حالات میں اہل وطن کے اس رویے سے کافی شاکی و نالاں تھے کہ یہ لوگ خود ہی اس شجر سایہ دار کو کاٹنے میں کیوں لگے ہیں۔ان کی اسی سوچ اور فکر کے تناظر میں ان کے مذکورہ بالا کلمات کا مطلب اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔وہ اپنے دروس ومواعظ میں بھی حب الوطنی پر زور دیا کرتے تھے اور اسی مقصدکے تحت انھوں نے پاکستان کے حوالے سے ایک کتابچہ بھی مرتب فرمایا تھا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل وطن ان کی اس سوچ کے مطابق وطن عزیز سے سچی محبت کریں،یہی انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین انداز ہے اور وقت کی ضرورت بھی۔

مولانا محمد صدیق ؒ جامعہ خیرالمدارس ملتان ہی کے فاضل تھے۔انھیں اس ادارے سے والہانہ محبت تھی۔جامعہ خیرالمدارس کوتعلیم سے تدریس تک اپنا وطن بنایا،مولانا محمد صدیق عالم باعمل، تقوی اور اتباعِ سنت کی عظیم الشان مثال تھے۔ وہ استاذ العلما حضرت مولانا خیر محمد جالندھری ؒکے مایہ ناز شاگرد اور ان کے علوم و معارف کے امین تھے۔مولانا محمد صدیق نے کم و بیش ساٹھ سال تفسیر و حدیث کا در س دیا۔مولانا کی پوری زندگی درس و تدریس میں گزری ،وہ اخلاص و للٰھیت سے بھر پور اسلاف کی چلتی پھرتی نشانی ،علم وفضل کی بہار، ہزاروں علما کے استاد اور محدث عصر تھے۔ آپ اہل علم کے لئے ایک سایہ دار درخت کی مانند تھے۔انھوں نے الخیر الساری کے نام سے بخاری شریف کی شرح بھی تصنیف فرمائی ،جس کی دس جلدیں منظر عام پر آ چکی تھیں،گیارہویں جلد زیر طبع ہے،جب کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ کل پچیس جلدوں پر مشتمل ہوگی۔اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ بخاری شریف کی ایک مفصل اوربے مثال شرح ہوگی۔ان کی رحلت سے یقیناًاس عظیم کام کی رفتار میں کمی آئے گی،لیکن ان کے متعلقین کو چاہیے کہ وہ اس شرح کی تالیف ،تبویب واشاعت کا کام جاری رکھیں اور اسے حالات کی نذر ہونے سے بچائیں،اگر یہ عظیم ذخیرہ طاق نسیاں میں ڈال دیا گیا،تو یہ بہت بڑا المیہ ہوگا۔

مولانا محمد صدیقؒ نے ہمیشہ اعلا ئے کلمۃاﷲ کی جدوجہد کی وہ تحفظ ختم نبوت کے بے باک مجاہد تھے۔تحفظ ختم نبوت کے عنوان پر جتنی تحریکیں چلتی رہی ہیں ان سب میں انھیں شریک رہنے کا شرف حاصل رہا ۔ ان کویہ شرف بھی حاصل رہاکہ حضرت مولانا محمد علی جالندھری ؒ عالمی مجلس تحفط ختم نبوت کے سابق ناظم اعلیٰ کے داماد اور موجودہ ناظم حضرت مولانا عزیزالرحمن جالندھری مدظلہ کے بہنوئی تھے اور خطیب بے مثال امیر شریعت علامہ سیدعطا اﷲ شاہ بخاری ؒکے رفقائے خاص میں شمار ہوتے تھے ،شاہ جی ؒ کے صاحب زادے مولانا سید ابوذر بخاری ؒ مولاناکے ہم سبق و ہم درس تھے،دونوں حضرات خیر المدارس جالندھر او رپھر ملتان میں ایک ساتھ پڑھتے رہے۔

مولانا محمد صدیق جالندھری ؒ کی زندگی میں اتباع سنت کا انتہا درجہ اہتمام تھا۔اپنے دن کو اﷲ کے لاڈلے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے مبارک،منور،معطر و مشک بار الفاظ کی تعلیم و تدریس میں صرف کرنے کے ساتھ ساتھ وہ عملی طور پر بھی اتباع سنت کا ایک چلتا پھرتا نمونہ تھے۔لوگ انھیں دیکھ کر کسی بھی عمل میں سنت طریقے کو پہچانا کرتے تھے۔معروف و ہردل عزیزادیب مرحوم و مغفور اشتیاق احمدؒ نے ایک بار ہفت روزہ ضرب مومن میں شایع ہونے والے اپنے ایک کالم میں اپنا یہ واقعہ ذکر کیا تھا :
’’ 1982تک میں نے ڈاڑھی نہیں رکھی تھی ... روزانہ شیو کرتاتھا ،1982 میں حج کے لیے گیا تو بھی ڈاڑھی نہ رکھی ... حج کے دنوں میں وہاں شیو تو نہیں کی، لیکن حج سے واپسی آتے ہی پھر شیو شروع کر دی ...لیکن پھر کیا ہوا ... ایک دن صبح سویرے شیو کرنے کی تیاری شروع کی ... گالوں پر صابن لگایا، پھر ریزر اٹھایا، لیکن ہاتھ گال تک نہ گیا ... اٹھا کا اٹھا رہ گیا ... خود وہیں آئینے کے سامنے کھڑا کا کھڑا رہ گیا... اس روز ریزر گال تک نہ آسکا ... نہ جانے کیا ہو گیا تھا ... کبھی کسی نے کہا تک نہیں تھا کہ ڈاڑھی رکھ لو... پھر دوسرے دن بھی شیونہ کی ... تیسرے دن بھی شیو نہ کی ... بیو ی کہنے لگی : کیا بات ہے، آپ آج کل شیو نہیں کر رہے۔ جواب دیا : جی نہیں چاہ رہا ... کرلوں گا جب جی چاہے گا۔ کئی دن گزرگئے ... شیوکرنے کو جی نہ چاہا اور اس طرح ڈاڑھی رکھ لی ... لیکن ایک بہت عجیب سوال ذہن میں ابھرا۔

داڑھی رکھی کیسی جائے ... جدھر نظر جاتی ہے ... نئی طرح کی ڈاڑھی نظر آتی ہے ... اگربیس ڈاڑھیوں والے ایک جگہ جمع کر دیے جائیں ... اور ان کی ڈاڑھیوں کو دیکھا جائے تو سب کی مختلف نظر آئیں گی ... اس سوال نے بہت چکرایا ... خیرا لمدارس ملتان کے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد صدیق جالندھری صاحب سے انھی دنوں نئی نئی علیک سلیک شروع ہوئی تھی ... وہ جھنگ میں جمعہ پڑھانے آتے تھے ... اور میں ان کا خطبہ سناکرتاتھا ... ایک دن جمعے کے بعد ان سے ذکر کیا ... کہنے لگے :’’ یہ دیکھو ... ایسی رکھو۔ ‘‘اسی طرح ڈاڑھی رکھ لی۔‘‘

آج یہ دونوں شخصیات ہمارے درمیان موجود نہیں،لیکن اس واقعے میں ایک اہم سبق پوشیدہ ہے کہ ہمیں اپنے چہروں کو سنت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے سجانا اورمسنون داڑھی رکھنی چاہیے۔داڑھی کے نام پر جو فیشن آئے ہیں،وہ داڑھی نہیں ،داڑھی کا مذاق ہیں۔اﷲ تعالیٰ ہمیں سنت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس عملی استہزأ سے محفوظ فرمائے۔

مولانامحمد صدیق جالندھری ؒ تو اپنی خدمات کا صلہ پانے رب قدیر کے حضور حاضر ہوگئے۔لیکن اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کی رحلت سے ملک بھر کے دینی حلقے ایک مشفق استاد، ایک مربی و شیخ اور پیکر علم و عمل ہستی سے محروم ہو گئے۔، آپ نے زندگی بھر قال اﷲ وقال الرسول کی صدابلند کیا۔ سیکڑوں علما نے ان سے حدیث پڑھی اور ہزاروں مسلمانوں نے ان کے مواعظ و بیانات سے استفادہ کیا۔وہ ایک عالم دین ہی نہیں ، ایک شفیق استاذ اور امت مسلمہ کے لئے ہمدردی اور محبت رکھنے والے عظیم انسان بھی تھے۔آپ کے انتقال سے پیدا ہونے والا خلا صدیوں پر نہیں کیا جاسکے گا۔ آپ کے انتقال سے دین اسلام ایک مدبر اور جید عالم دین جبکہ ہزاروں طلبہ ایک شفیق استاذ سے محروم ہوگئے۔آپ کی وفات سے ملک وبیرون ملک کے اربوں مسلمان یتیم ہوگئے ۔ مولانا کی دینی و علمی اور تدریسی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی اوران کا فیض صدیوں جاری و ساری رہے گا۔ان شاء اﷲ!

مرحوم کی نماز جنازہ اسٹیڈیم قلعہ کہنہ قاسم باغ میں ادا کی گئی۔وفات کی خبرسن کرملک بھر سے انکے تلامذہ ،علما و طلبا ،مذہبی و سیاسی قائدین ملتان پہنچ گئے تھے،ان کا جنازہ ملتان کی تاریخ کے بڑے جنازوں میں سے ایک تھا،جس میں شریک ہونے والوں میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک کثیر تعداد شامل تھی۔کسی عہدے ومنصب اور نام وری کے بغیر ان کے جنازے میں لاکھوں افراد کی شرکت اس امر کی غماز تھی کہ وہ لوگوں کے دلوں پر حکم رانی کرتے تھے۔

مرحوم نے اپنے پسماندگان میں تین بیٹے چھوڑے ہیں،جو سب کے سب حافظ قرآن ہیں اور ان میں سے تین عالم دین بھی ہیں ،جب کہ تین صاحب زادیاں ہیں ، آپ کی اہلیہ محترمہ بھی عالم با عمل اور حافظ قرآن تھیں۔ اﷲ تعالیٰ ان کے صاحب زادوں اور شاگردوں کو ان کے لیے ذخیرہ آخرت اور عالم بھر میں ان کے فیض کے پھیلنے کا ذریعہ بنائے۔آمین۔
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 283712 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More