مادری زبان؟

ماں سے محبت ضرب المثل ہے، نہ اس پر کسی کو انکار ہے اور نہ ہی یہ کسی حوالے سے متنازع ہے۔ ماں کی محبت کا ایک تقاضا اس کی زبان ہے، بچے فطری طور پر ماں کی زبان بولتے ہیں،ماں اپنے بچے کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے اسی عمر کی بچی بن جاتی ہے، توتلی زبان میں باتیں کرتی ہے، اور اس لہجے سے خوب لطف اٹھاتی ہے۔ اب یہ روایت چل نکلی ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو اپنی زبان کی بجائے اردو یا انگریزی سکھانے کی کوشش کرتی ہیں، ماؤں کو نہ جانے کس نے بتا دیا ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ دوسری زبانیں بولیں گی تو وہ زبانیں سیکھ سکیں گے، اور یہ بھی کہ یہ زبانیں بولنے سے انسان زیادہ مہذب اور ترقی یافتہ دکھائی دیتا ہے۔ مادری زبان بولتے ہوئے احساسِ شرمندگی ہوتا ہے، کسی پڑھے لکھوں کی محفل میں اپنی مادری زبان بولتے ہوئے انسان پریشان ، احساسِ کمتری کا شکار اور شرمندہ ہوتا ہے۔ مائیں انہی احساسات کے پیشِ نظر دوسری زبانوں پر زور دیتی اور وہی سکھانے کے چکر میں رہتی ہیں۔

اردو ہماری قومی زبان ہے، قومی زبان ہونے اور اس کے پیچھے عدالتِ عظمیٰ کے واضح احکامات کے باوجود یہ سرکاری زبان کا مرتبہ نہیں حاصل کرسکی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے موجودہ حکمران انگریزی کے بہت دلدادہ بھی نہیں، بلکہ اگر وہ اردو کو سرکاری زبان قرار دے دیتے تو خود ان کے لئے بہت سی آسانیاں پیدا ہوجاتیں۔ اردو کی ناقدری اور پذیرائی نہ ہونے کے باوجود پاکستان کے عوام کی بہت بڑی اکثریت اپنے بچوں کو ان کی مادری زبان کی بجائے اردو سکھاتی ہے۔ یہ معاملہ بہت تحقیق طلب ہے اور کا ایک سروے لازمی ہونا چاہیے کہ سال بہ سال کتنے لوگ ہیں جو اپنی مادری زبان کو خیر باد کہہ رہے ہیں، اور ہر عشرے میں مادری زبان کتنے فیصد پیچھے چلی جاتی ہے؟ اگر مادری زبان کاخود ماؤں نے ہی قتلِ عام جاری رکھا تو کوئی بعید نہیں کہ کچھ ہی عرصہ میں یہ زبانیں اپنا وجود کھو بیٹھیں۔ ایک طرف اردو خود اپنے مخالفین کے پے در پے حملوں کی زد میں ہے، اس کو سرکاری زبان بنانا تو دور کی بات ہے، اس کی اصلی شکل بحال رکھنا بھی ایک مسئلہ ہے، وہاں ہمارے ہر گھر میں اردو کا راج ہے، جو والدین کوئی مقامی زبان بولتے تھے، اب وہ اپنے بچوں کے ساتھ اردو ہی بولا کرتے ہیں، مادری زبان سے تو ان کے بچے مکمل طور پر اجنبی ہوہی گئے، اردو سے بھی درست طریقے سے آشنا نہ ہوسکیں گے، کئی دادیاں بیچاری تو اپنے پوتوں اور نواسوں وغیرہ کے ساتھ اردو بولنے میں بہت دقت محسوس کرتی ہیں اور گلابی قسم کی اردو بولتی ہیں، مگر کیا کریں کہ ان کی بہو یا بیٹا انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اُدھر ایلیٹ کلاس کی خواتین اپنے بچوں سے مادری زبان تو رہی ایک طرف انگریزی کے علاوہ کوئی زبان نہیں بولتیں۔

زبانوں کی تبدیلی کا عمل برق رفتاری سے جاری ہے، برِصغیر میں تو مادری زبانوں کو ایک بہت بڑا جھٹکا اس وقت لگا، جب دسیوں زبانیں بولنے والے اور بہت سے لہجوں والے اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کر گئے، اور جہاں جا اور آ کر وہ آباد ہوئے، وہاں انہیں ہر طرف دوسری زبانیں اور لہجے ملے۔ کسی کی زبان بھی خالص نہ رہی۔ جہاں مسلمانوں یا ہندوؤں کی اکثریت تھی، وہاں سے بہت کم لوگوں نے ہجرت کی۔ وہاں کسی حد تک زبان خالص رہ گئی، مگر ایسے علاقے نہایت ہی کم تھے۔ زبانوں میں ملاوٹ کی ایک وجہ تو اپنا علاقہ چھوڑنا تھا،
دوسری وجہ یہ ہوئی کہ ہمسایوں کے اثرات مرتب ہونا فطری بات ہے، اگر دس گھر پنجابی بولنے والوں کے تھے تو وہاں ایک یا دو اردو بولنے والے بھی آگئے۔ تقسیم سے قبل تو بھارت میں ہر ریاست یا ہر ضلع کی اپنی بولی کا خاص لہجہ تھا، مگر یہاں آتے ہی تمام لوگ گلدستے کی مانند ایک ہی جگہ اکٹھے ہوگئے۔ پھر جن کی اکثریت تھی، اسی کا اثر دوسرے لوگوں پر بھی چڑھ گیا۔ اس ہجرت کے سب سے زیادہ اثرات پنجاب پر مرتب ہوئے، سندھ دوسرے نمبر پر رہا ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں اس سے بھی کم لوگوں نے ہجرت کی، اسی لئے ان علاقوں میں ابھی تک مقامی زبانیں پوری آب وتاب سے موجود ہیں۔ مادری زبان نہ بولنے کا ایک بہت بڑا نقصان تو یہ بھی ہے کہ مقامی زبانیں اپنا وجود کھو رہی ہیں، جب والدین اپنی اولاد کے ساتھ اپنی زبان نہیں بولیں گے تو آنے والے چند سالوں میں معاملہ ہاتھ سے نکل جائے گا، دوسری طرف جب کسی بچے کو مادری یا مقامی زبان آتی ہوتی ہے تو اردو وغیرہ سیکھنے میں چند روز ہی لگتے ہیں ، وہ کسی خاص استاد سے نہیں معاشرے سے سیکھتا ہے، مگر اکثر مادری زبان سے محروم رہ جاتا ہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 434584 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.