کابینہ کی انرجی کمیٹی کااجلاس، بریفنگ اورلوڈشیڈنگ کاخاتمہ

وزیراعظم کی زیرصدارت کابینہ کی انرجی کمیٹی کااجلاس وزیراعظم ہاؤس میں ہوا۔سیکرٹری پانی وبجلی نے اجلاس کودی گئی بریفنگ میں بتایا کہ دوہزارپندرہ کاسال تکنیکی نقصان اورریکوری کے اعتبارسے گذشتہ دس سالوں کے دوران بجلی کی پیداوارکے اعتبارسے مستحکم سال رہااوربہترین عرصہ ہے۔انہوں نے کہا کہ بہترمانیٹرنگ اورکرپشن کے خاتمہ کی موثرحکمت عملی کی وجہ سے دوہزارپندرہ کے دوران لائن لاسزکی شرح میں پانچ اشاریہ آٹھ فیصدکمی ہوئی۔ وزیراعظم کوبتایا گیا کہ ریکوری میں ۱۵ بلین اضافہ ہواجبکہ لائن لاسزمیں کمی کی وجہ سے دس بلین روپے کی بچت ہوئی۔پیداواری لاگت میں کمی سے ۷۵ ارب روپے کی بچت ہوئی۔ اجلاس کوبتایا گیا کہ ایندھن کے ذخائرتسلی بخش مقدارمیں ہیں۔بہترکرکردگی اورمنیجمنٹ سے گذشتہ برس زیادہ سے زیادہ پیداوار۷۱ ہزارمیگاواٹ رہی۔دوہزار پندرہ کے دوران نئے آئی پی پیزکوسہولت دی گئی جوبارہ ہزارمیگاواٹ بجلی پیداکریں گے۔وزیراعظم کوان پاورپراجیکٹس کی ڈیڈلائن سے آگاہ کیاگیا جوسرما دو ہزارسولہ، موسم گرمادوہزارسترہ، موسم سرما دوہزارسترہ میں مکمل ہوں گے۔اجلاس کویقین دلایا گیا کہ سرمادوہزارسترہ تک قومی گرڈمیں ۰۹۰۹ میگاواٹ اضافی بجلی شامل کی جائے گی۔وزیراعظم نے ہدایت کی کہ جاری پاورپراجیکٹس مقررہ ڈیڈ لائن تک مکمل کیاجائے۔انہوں نے کہاکہ وہ خودباقاعدگی سے ان پراجیکٹس کی نگرانی کریں گے۔وزیراعظم نوازشریف نے کہا نیشنل گرڈمیں بجلی کی پیداوارمیں نمایاں اضافہ سے نہ صرف لوڈشیڈنگ میں کمی ہوگی بلکہ ملک کی انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اورمعاشی ترقی میں مددگارثابت ہوگی۔

توانائی کوملکی ترقی کی جان کہا جائے توغلط نہ ہوگا۔ کیونکہ آج کے جدید دورمیں معاشی ترقی اورانفراسٹرکچر کی بہتری کادارومدارتوانائی کی دستیابی پرہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدارسنبھالاتوملک بہت سے بحرانوں میں گھراہواتھا۔نوازشریف کی نئی حکومت کوبہت سے چیلنجز کاسامناتھا۔ان میں سے دوچیلنجزسب سے زیادہ توجہ کے متقاضی تھے۔ان میں سے ایک چیلنج ملک سے دہشت گردی کاخاتمہ تھا جبکہ دوسراچیلنج توانائی کے بحران کوختم کرناتھا۔ دونوں چیلنجز ایک دوسرے سے بڑھ کرسنگین تھے۔دونوں چیلنجزسے نبردآزماہوئے بغیرملک میں ترقی کے سفرکومطلوبہ رفتارمیں بڑھایانہیں جاسکتاتھا۔بعض تجزیہ نگاراپناتجزیہ کررہے تھے ان چیلنجزمیں سے کس چیلنج سے حکومت کوپہلے نمٹناچاہیے اورکیوں۔نوازشریف کی حکومت نے دونوں چیلنجزسے نمٹنے کافیصلہ کرکے اقدامات شروع کردیے۔توانائی بحران کاخاتمہ حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔نوازشریف کی حکومت نے ملک سے بجلی کے بحران کوختم کرنے کے لیے بجلی کی پیداوارمیں اضافہ پرتوجہ دی۔چین سمیت متعدد ممالک سے بجلی کے پیداواری منصوبوں کے حوالے معاہدے کیے۔ان منصوبوں میں پانی، ہوااورشمسی توانائی سے بجلی پیداکرنے کے منصوبے شامل ہیں۔ان میں سے کئی منصوبوں پرکام جاری ہے۔کچھ منصوبوں سے پیداوارکاآغازبھی ہوگیا ہے۔جس سے ملک میں بجلی کی پیداوارمیں اضافہ ہواہے۔لوڈشیڈنگ میں کمی آئی ہے۔نوازشریف حکومت کی توجہ توانائی بحران کے خاتمے کے ساتھ ساتھ کم سے کم اخراجات پربھی توجہ ہے۔اس لیے بجلی کے پیداواری منصوبوں میں اس بات کاخاص خیال رکھا گیا کہ پیداواری لاگت کم سے کم آئے۔اس سے نہ صرف قومی خزانے پربوجھ کم پڑے گابلکہ صارفین کوسستی بجلی فراہم کی جاسکے گی۔وزیراعظم کی زیرصدارت کابینہ کی انرجی کمیٹی کے اجلاس میں اس حوالے سے کئے گئے اقدامات پرپیشرفت کاجائزہ لیاگیا۔وزیراعظم کودی گئی بریفنگ سے ظاہرہوتا ہے کہ اس حوالے سے بہتری توآئی ہے تاہم ابھی بھی بہت ساکام کرناباقی ہے۔اس بریفنگ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ حکومت کی توجہ بجلی کی پیداوارمیں اضافے کے ساتھ ساتھ تکنیکی نقصانات میں کمی اورریکوری میں اضافے پربھی ہے۔اس حوالے سے سال دوہزارپندرہ کوگذشتہ دس سالوں میں سے بہترین سال قراردیاگیا۔اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حکومت بجلی کے بحران کے خاتمہ کے حوالے سے تمام پہلوؤں پرکام کررہی ہے۔ایک توملک میں بجلی کی کم پیداوارکی وجہ سے شدیدلوڈشیڈنگ کاسامناتھا لائن لاسزکی وجہ سے یہ بحران اوربھی شدیدہوگیاتھا۔اس بریفنگ میں بتایاگیا ہے کہ لائن لاسزکی شرح میں پانچ اشاریہ آٹھ فیصدکمی ہوئی۔یہ نہیں بتایا گیا کہ کتنی بجلی لائن لاسزکی نذرہوجاتی تھی اوریہ بھی نہیں بتایاگیا کہ لائن لاسزمیں کمی کی وجہ سے قابل استعمال بجلی میں کتنااضافہ ہواہے۔تاہم گذشتہ سال میں اس حوالے سے جوکمی آئی ہے۔حکومت کے اس حوالے سے اقدامات جاری رہے تورواں سال اس نقصان میں مزیدکمی آئے گی۔امیدکرنی چاہیے کہ ایک سال وہ بھی آئے گا کہ لائن لاسزماضی کاحصہ بن جائیں گے۔وزیراعظم نوازشریف کودی گئی بریفنگ کے مطابق ریکوری میں اضافے، لائن لاسزاورپیداواری لاگت میں کمی کی وجہ سے قومی خزانے کوایک سواٹھارہ بلین روپے کافائدہ ہوا۔بریفنگ میں بتایاگیا کہ سال دوہزارپندرہ میں بجلی کی زیادہ سے زیادہ پیداوارسترہ ہزارمیگاواٹ رہی۔ جویہ ظاہرکررہی ہے کہ گذشتہ سال بجلی کی پیداوارمیں اضافہ ہوا ہے۔وزیراعظم نوازشریف کوبجلی کے پیداواری منصوبوں کی مدت تکمیل سے بھی آگاہ کیاگیا۔سال ددہزارپندرہ کے دوران نئے آئی پی پیزکوسہولت دی گئی جوبارہ ہزارمیگاواٹ بجلی پیداکریں گے۔اس سے راقم الحروف یہ نتیجہ اخذکرسکا ہے کہ نئے آئی پی پیزکی وجہ سے بجلی کی پیداوارمیں بارہ ہزارمیگاواٹ کا اضافہ ہوگا۔اس بریفنگ میں یہ خوشخبری بھی سامنے آئی ہے کہ ایندھن کے ذخائرتسلی بخش مقدارمیں ہیں۔ایندھن کے ذخائرمیں کمی بجلی کی پیداوارمیں اضافے میں رکاوٹ ہوتی ہے۔اب یہ رکارٹ بھی ختم ہوگئی ہے۔اب کم سے کم ایندھن کی وجہ سے بجلی کی پیداوارمتاثرنہیں ہونی چاہیے۔ایک طرف بریفنگ میں خوشخبریاں سنائی جارہی ہیں کہ ایندھن کے ذخائرتسلی بخش مقدارمیں ہیں۔ لائن لاسزاورپیداواری لاگت میں کمی آئی ہے۔دوسری طرف اخبارات کچھ اورکہانی پڑھارہے ہیں۔ایک قومی اخبارمیں سخی سرورسے خبر ہے کہ سولہ سے اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے کاروبارزندگی مفلوج ہوکررہ گیا ہے بجلی نہ ہونے سے مکین پینے کے پانی سے محروم ہوگئے ہیں۔ایک اورقومی اخبارمیں کوٹ ادو، کوٹ سلطان،دنیاپوراورہیڈپنجند سے خبر ہے کہ لائن لاسزپورے کرنے کیلئے بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کاسلسلہ تاحال جاری ہے۔ ہمارے شہرلیہ میں بھی سردی میں کمی اورموسم میں تبدیلی آتے ہی لوڈشیڈنگ میں ا ضافہ ہوچکا ہے۔ وزیراعظم کی زیر صدارت کابینہ کی انرجی کمیٹی کے اجلاس میں ریکوری میں اضافے، لائن لاسزاورپیداواری لاگت کے بارے میں توبتایا گیا کہ اس حوالے سے سال دوہزارپندرہ میں وزارت پانی وبجلی کی کیاکارکردگی رہی۔اس بریفنگ میں یہ بتایاگیا کہ سال دوہزارپندرہ میں بجلی کی زیادہ سے زیادہ پیداوارکتنی رہی۔تاہم اس بریفنگ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ گذشتہ سال بجلی کی پیداوارمیں کتنا اضافہ ہوا ہے۔نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ جب سے موجودہ حکومت نے اقتدارسنبھالا ہے اب تک قومی گرڈمیں کتنی اضافی بجلی شامل کی گئی ہے۔بریفنگ میں بجلی کے پیداواری منصوبوں کی آخری مدت تکمیل جوبتائی گئی ہے وہ سال دوہزارسترہ کاموسم سرمابتایا گیا ہے۔اب اس مدت تکمیل میں ابہام پایا جاتا ہے۔اب بریفنگ میں بتائی گئی ڈیڈ لائن کے مطابق بجلی کے جومنصوبے سال دوہزارسترہ کے موسم سرمامیں مکمل ہوں گے۔ایک ڈیڈ لائن موسم گرما سال دوہزارسولہ بتائی گئی ہے وہ توسمجھ میں آتی ہے کہ یہ منصوبے اپریل دوہزارسولہ سے اگست یاستمبردوہزارسولہ کے دوران ہی مکمل ہوں گے۔کیونکہ اپریل سے ستمبرتک گرمی رہتی ہے۔اب یہ جوڈیڈلائن بتائی گئی ہے کہ بجلی کے کچھ پیداواری منصوبے سال دوہزارسترہ کے موسم سرمامیں مکمل ہوں گے۔یہ ڈیڈ لائن ہماری سمجھ میں نہیں آرہی۔قارئین سمجھنے کی کوشش کریں شایدانہیں سمجھ آجائے جب ہم وضاحت کریں گے تویہ ڈیڈ کسی کوبھی سمجھ نہیں آئے گی۔وزیراعظم نوازشریف کواس ڈیڈ لائن کی سمجھ آئی ہے تووہ اس سلسلہ میں قوم کی راہنمائی کردیں۔ہوسکتا ہے کہ بہت سوں کے نزدیک اس ڈیڈلائن کوسمجھناکوئی مسئلہ ہی نہ ہوکہ سال دوہزار سترہ کے موسم سرمامیں یہ منصوبے مکمل ہوجائیں گے۔ان کے نزدیک اس میں نہ سمجھنے والی کوئی بات نہیں ہوسکتی۔اب آپ کوبتادیتے ہیں کہ ہمیں اس ڈیڈ لائن کی کیوں سمجھ نہیں آرہی۔جویہ سوچ رہے ہیں کہ اس ڈیڈلائن کوسمجھناکوئی مسئلہ نہیں ہماری وضاحت کے بعدوہ بھی ہماری طرح الجھن کاشکارہوجائیں گے۔سال دوہزارسولہ ہویاسترہ یہ شمسی سال ہیں قمری نہیں۔شمسی سال یکم جنوری سے شروع ہوتا ہے اوراکتیس دسمبرکوختم ہوجاتا ہے۔پاکستان میں چارموسم پائے جاتے ہیں اورہرموسم تین ماہ پرمحیط ہوجاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ گرمی کی شدت کی وجہ سے موسم گرماطویل ہوجاتا ہے۔اب پاکستان میں سردیاں نومبرسے فروری تک پڑتی ہیں۔جس طرح اصل موسم گرماجون سے اگست تک ہے اسی طرح اصل موسم سرمادسمبرسے فروری تک ہے۔اس کواس طرح سمجھ لیں موسم سرماایک سال کے د سمبرسے شروع ہوتا ہے اوردوسرے سال کے ماہ فروری میں ختم ہوجاتا ہے۔یوں پاکستان میں جب شمسی سال شروع ہوتا ہے اس وقت بھی موسم سرماہوتا ہے اورجب یہ شمسی سال ختم ہوتا ہے اس وقت بھی موسم سرماہوتا ہے۔اب قارئین کوہماری الجھن کی وجہ سمجھ آگئی ہوگی۔کہ موسم سرمامیں مکمل ہونے والے منصوبے کب مکمل ہوں گے۔اب ہمیں وہ بھی نہ سمجھ لینا کہ جس نے اسٹیشن بابوسے پوچھا کہ تین بجے والی ٹرین کب آئے گی تواسٹیشن بابونے کہا کہ دوبج کرساٹھ منٹ پرآئے گی۔اس شخص نے کہا کہ مجھے پہلے ہی شک تھا کہ ٹرین وقت پرنہیں آئے گی۔اب یہ منصوبے جنوری دوہزارسترہ میں مکمل ہوں گے یادسمبردوہزارسترہ میں ۔ بجلی کے منصوبوں کی مدت تکمیل دوہزارکاموسم سرمابتایاگیا ہے ۔ جس کامطلب ہے کہ اس سال بھی گرمیوں میں لوڈشیڈنگ کاسامناکرناپڑے گا۔جب سے موجودہ حکومت نے اقتدارسنبھالا ہے عوام اس انتظارمیں ہیں کہ وہ دن کب آئے گا جب حکومت لوڈشیڈنگ ختم کرنے کاوعدہ پوراکرنے میں کامیاب ہوجائے گی ۔ موجودہ دورحکومت میں چوتھا موسم گرما آرہا ہے ۔یہ موسم گرمابھی صاف نظرآرہا ہے کہ لوڈشیڈنگ میں ہی گزرے گا۔اس موسم گرمامیں بھی لوڈشیڈنگ کادورانیہ گذشتہ سال کے موسم گرما کی طرح ہی رہا توعوام کے غصہ کوکنڑول نہیں کیاجاسکے گا۔ اب عوام سے صبرنہیں ہوسکے گا۔اب تووہ لوگ بھی کچھ نہیں کہہ سکیں گے جویہ کہہ کرعوام کوتسلیاں دیتے رہتے تھے کہ بجلی کے منصوبوں پرکام جاری ہے یہ لوڈشیڈنگ اب جلدہی ختم ہوجائے گی۔عوام کہیں گے کہ اب تک لوڈشیڈنگ کیوں باقی ہے۔تسلیاں دینے والوں کے پاس اب کوئی جواب نہیں ہوگا۔اس سے حکومت کی ساکھ اورمقبولیت پربھی منفی اثرپڑنے کاخدشہ ہے۔اس لیے حکومت کو چاہیے کہ جس طرح بھی ہوگرمیوں میں لوڈشیڈنگ چوبیس گھنٹوں میں چارگھنٹے سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی ایک وقت میں ایک گھنٹہ سے زیادہ غائب نہ رہے۔ایسا اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ سرکاری، نجی دفاتر، کاروباری اداروں ، مارکیٹوں، بازاروں میں ایئرکنڈیشنڈ کے استعمال پرپابندی لگادی جائے۔بلکہ اے سی کی خریدوفروخت پرہی پابندی لگادی جائے۔ہسپتالوں میں صرف ایسے مریضوں کے کمروں میں اس کی اجازت ہونی چاہیے جن مریضوں کیلئے اے سی چلاناضروری ہو۔دفاتر، مارکیٹوں، بازاروں میں ایئرکولراستعمال کیے جائیں ۔عوام بھی بجلی بچانے میں حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔کابینہ کی انرجی کمیٹی کے اجلاس اوراس میں دی گئی بریفنگ سے یہ بات توواضح ہوتی ہے کہ حکومت پاکستان ملک سے بجلی کابحران ختم کرنے کیلئے کتنی سنجیدہ ہے۔اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کوبجلی نہ ہونے کی وجہ سے عوام کی مشکلات کا احساس ہے کہ انہوں نے بجلی کے پیداواری منصوبوں کی خودنگرانی کرنے کااعلان کیا ہے اوران منصوبوں کومقررہ مدت میں مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔تاکہ غیرضروری تاخیراورغیرضروری اخراجات سے بچاجاسکے اورعوام کوجلدسے جلدلوڈشیڈنگ سے چھٹکارہ دلایا جاسکے۔کمشنر ڈیرہ غازیخان کا نام درست نہیں ہے شایدان کی توجہ اس جانب کسی نے دلائی۔جونام ان کا ہے مدینہ منورہ کاپہلانام بھی وہی تھا اسے سرکاردوجہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بدل دیا تھا۔ہمارے پاس جوڈکشنری ہے اس میں اس لفظ کے معنیٰ بیماریوں کاگھرلکھے ہوئے ہیں۔ کمشنرڈیرہ غازیخان کے نام کامکمل ترجمعہ کیاجائے توتوہین رسالت لاگوہوجائے گی۔اس لیے ان سے اس تحریر کے توسط سے گذارش ہے کہ وہ اپنانام تبدیل کرلیں۔مزیدراہنمائی کیلئے علماء کرام سے رابطہ کرلیں۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 308063 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.