برصغیر.........امن کی ضمانت کیاہے؟

انسانیت کے واسطے دہشت کی کمرتوڑیئے!
آپریشن ضربِ عضب کی دن بدن بڑھتی ہوئی کامیابی سے دہشت گرداوران کے سہولت کاربری طرح بوکھلاگئے ہیں اوراب انہوں نے پاکستان میں تعلیم وتعلم پربزدلانہ حملے شروع کر دیئے ہیں۔ نائن الیون کے بعدسے اب تک ٹی ٹی پی نے فوجی آپریشنزکے دوران تقریباً چارہزاراسکولوں کی عمارتیں کلی یاجزوی طورپر تباہ کردی ہیں۔اس کے بعدنائیجیریاہے جہاں بوکوحرام کے دہشت گردوں نے قریباً ایک ہزاراسکولوں کی عمارتوں کونشانہ بنایا۔

میری لینڈیونیورسٹی امریکاکے گلوبل ٹیررزم ڈیٹابیس رپورٹ کے مطابق گزشتہ پندرہ برس میں تعلیمی اداروں پرسب سے زیادہ مسلح حملے جنوبی ایشیامیں ہوئے جن کی تعداد۱۴۳۶ہے۔ان میں سے۶۰فیصدحملے(۷۳۴)پاکستان میں ہوئے ۔ان میں سے۹۶حملے۲۰۱۱ء سے۲۰۱۳ء کے درمیان ہوئے۔جنوبی ایشیاکے بعدتعلیمی اداروں پرمسلح حملوں کاسب سے بڑانشانہ مشرقِ وسطی کے ممالک بنے ،ان میں عراق اورشام سرفہرست ہیں جب کہ افریقہ میں تعلیمی اداروں پر حملوں کی سب سے زیادہ افتادنائیجیریاپرپڑی۔

پچھلے ۴۵برسوں میں اسکولوں میں ہونے والی سب سے زیادہ ہلاکتیں پاکستان میں(ساڑھے چارسوسے زائد) ہوئیں ،اس کے بعدروس کانمبرآتاہے۔تعلیمی اداروں کے خلاف دہشتگردی کی ۷۵٪عالمی وارداتوں میں خودکاراسلحہ،بم اوربارود استعمال ہوا۔پاکستان میں تعلیمی اداروں پرسب سے زیادہ حملے (٢٠٨)قبائلی علاقوں میں (مہمند،باجوڑ،آدم خیل اورکزئی،جنوبی وزیرستان، خیبرایجنسی) اور(١٣٠)حملے خیبرپختونخواہ کے شہری علاقوں (پشاور،بنوں، چارسدہ،کبل) میں ہوئے۔اگرکسی بڑے شہرکودیکھاجائے توسب سے زیادہ نشانہ پشاوراور مضافات کے تعلیمی ادارے بنے،اس کے بعدکراچی کانمبرآتاہے جہاں (۴۲) تعلیمی اداروں پرمسلح حملے ہوئے ہیں جبکہ کوئٹہ میں (٢٦)تعلیمی ادارے مسلح حملوں کی زدمیں آئے مگروہ طلباء جوبعداز اسکول دورانِ سفر یامصروف مقامات پر دہشتگردی کانشانہ بنے ،ان کی ہلاکتوں کا تناسب تعلیمی اداروں میں ہونے والی ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ہے تاہم یہ کہاجاسکتاہے کہ پچھلے ١٠برس میں تعلیمی اداروں سے باہردہشتگردی کانشانہ بننے والوں میں کوئٹہ کے طلباء اورطالبات سرفہرست ہیں۔

پشاورآرمی پبلک اسکول کے سانحے کے بعدچاروں صوبوں میں تعلیمی اداروں کی دیواریں بھی سے تین فٹ تک اونچی ہوئیں،جہاں گیٹ پرپہلے ایک محافظ اونگھتاتھااب دوباجماعت اونگھ رہے ہوتے ہیں اوراب ان حفاظتی اقدامات کازیادہ تربوجھ(بالعموم پاکستان اوربالخصوص خیبرپختونخواہ)میں زیرتعلیم بچوں کے والدین کے سروں پرلاد دیاگیا ہے لیکن پھروہی ہواجوہوتاآیاہے۔پھرتیاں اور آنیاں جانیاں دم توڑتی چلی گئیں اوریہ فرض کرلیاگیااب تب دیکھیں گے جب نیا سانحہ ہوگااورپھرباچاخاں یونیورسٹی میں وہ اضافی تحفظ کیلئے سینکڑوں حکم نامے، سرکلرزضرورنکلے،خاردارتاروں کی فروخت میں بھی کچھ عرصے کیلئے خاصا اضافہ ہوا،بہت سےسانحہ بالآخرہوگیا۔

چارسدہ یونیورسٹی پرحملہ کئی اعتبارسے پشاورکے آرمی اسکول میں ہونے والی سفاکانہ دہشت گردی سے مماثلت رکھتاہے ۔دونوں حملے ایک ہی گروپ نے کئے ۔معصوم بچوں کونشانہ بنایاگیا،ان کے خون سے ہولی کھیلنے کی مکروہ کوشش کی گئی،مقصددہشت گردی پھیلانااورعوام کے ساتھ سول ملٹری انتظامیہ کے حوصلے پست کرناتھا۔طریقہ کاربھی پہلے والاہی تھاکہ اپنی مرضی کاکوئی سافٹ ٹارگٹ منتخب کیاجائے،اپنی پسندکادن اوروقت طے کرتے ہوئے ہلہ بول دیاجائے اورزیادہ سے زیادہ طلباء کونشانہ بنایاجائے۔پشاوراسکول حملے سے پہلے قاتلوں کوعلم تھاکہ اس دن اسکول میں ایک فوجی افسرنے طبی امدادپر ورکشاپ کرنی ہے،اس کیلئے طلباآڈیٹوریم میں جمع ہوں گے،وہیں انہیں نشانہ بنایاجائے۔چارسدہ میں بھی یہی منصوبہ نظرآتاہے جہاں باچاخان کی برسی پرامن مشاعرہ ہوناتھا جس کیلئے پانچ چھ سو سے زائدمہمان مدعوتھے۔اس طرح کے مشاعروں میں طلباکی بڑی تعدادشریک ہوتی ہے اور دستوریہ ہے کہ یونیورسٹی تقریبات کوکامیاب بنانے کیلئے مختلف کلاسزکے طلباکوشریک کیاجاتاہے۔ تصور کریں کہ خدانخواستہ حملے کے وقت اگرمشاعرہ جاری ہوتا ،اسٹیج پرمہمانانِ گرامی موجودہوتے اورآڈیٹوریم سیکڑوں طلبااورطالبات کے ساتھ کھچاکھچ بھرا ہوتاتودہشت گردوں کی اندھادھندگولیاں برسانے سے کیسی قیامت برپاہوتی؟

حملے کی ذمہ داری عمرمنصورگروپ نے قبول کی،یہ دراصل خلیفہ عمر منصوررائے کاگروپ ہے جسے درہ آدم خیل گروپ،گیدڑی یا گیدڑگروپ بھی کہاجاتارہا۔ٹی ٹی پی کااہم کمانڈراور حکیم اللہ محسودکاقریبی ساتھی طارق گیدڑ اس کاسربراہ تھا،اب عمرمنصوررائے کے پاس قیادت ہے۔پشاورآرمی اسکول پرحملہ بھی اسی نے کرایااوراس کانہ صرف اعتراف کیابلکہ ویڈیو بھی جاری کی جس میں عمرمنصورنے دھمکی دی کہ اس قسم کے واقعات اوربھی ہوں گے۔اطلاعات ہیں کہ عمرمنصورافغانستان میں مقیم ہے اورمبینہ طورپرافغان انٹیلی جنس کے پروانڈین عہدیداروں کی مکمل سرپرستی میں دہشت گردحملے ترتیب دیتاہے،ملافضل اللہ کابھی معتمدساتھی ہے اوران تمام حملوں میں اس کی مکمل آشیرآبادحاصل ہے۔اس بار ایک کام مختلف ہواکہ ٹی ٹی پی کے مرکزی ترجمان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکارکیاجب کہ اس کے اہم گروپ نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔دراصل یہ بھی ٹی ٹی پی اوران جیسے دوسرے دہشت گردگروپوں کاپراناحربہ ہے کہ کسی کاروائی سے عوامی ردعمل کاخطرہ ہوتواس کی براہِ راست ذمہ داری قبول نہ کی جائے اورایک الگ گروپ بنادیاجائے، جوذمہ داری قبول کرلے،مقصدیہ ہوتاہے کہ کنفیوژن قائم رہے، عوامی مخالفت نہ بڑھے،عوام میں ان کے حامی مطمئن رہیں اوراپنے آس پاس کے لوگوں کوذمہ داری قبول نہ کرنے والا بیان اورثبوت دکھاتے رہیں۔منصور کے حوالے سے ایک اوربات بھی قابل ذکرہے ،پشاوراسکول حملے میں اس نے دلیل دی تھی کہ بنوقریظہ والے تاریخی واقعے کی طرح انہوں نے صرف بالغ لڑکوں کونشانہ بنایا ہے،چھوٹے بچے کراس فائرنگ میں ہلاک ہوئے۔یہ بات اگرچہ بالکل غلط تھی مگررائے گروپ شدیدعوامی ردعمل کے باعث یہ آڑلینے پرمجبورہواتھا۔اس باراس گروپ نے دانستہ یونیورسٹی کاانتخاب کیاحالانکہ یونیورسٹی کے نہتے طلباوطالبات کی مثال بھی بچوں کی سی ہے۔اٹھارہ انیس سال کے لڑکے اورلڑکیاں کسی کے دشمن کیونکرہوسکتے ہیںیاوہ ان وحشی مسلح درندوں کامقابلہ کس طرح کرسکتے ہیں؟سوال یہ ہے کہ باچاخان یونیورسٹی کو کیوں منتخب کیاگیا؟ملک کی دوسری بڑی سرکاری یونیورسٹیوں کی طرح یہ بھی وسیع و عریض رقبے پرپھیلی ہوئی ہے،آس پاس کھیت ہیں اورآبادی بہت کم ہے۔ تعلیمی اداروں کی سیکورٹی توویسے بھی فول پروف نہیں ہوتی(فول پروف اور زیروٹالرنس کی اصلاحات عام استعمال کی جارہی ہیں مگریہ حقیقت پرمبنی نہیں کیونکہ دونوں ناممکنات میں سے ہیں)کہیں نہ کہیں کمزورجگہ مل جاتی ہے۔

دوسرابڑا فیکٹر یونیورسٹی کا نام ہے۔باچاخان یونیورسٹی کانام ہی ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کیلئے سرخ کپڑے کا کام کرتا ہے اورپھراس دن باچاخان کی برسی کی تقریب تھی۔اے این پی خیبرپختونخواہ میں حکمران رہی ہے اوراس کی پانچ سالہ مدت کوشدیدترین کرپٹ اوربیڈگورننس کے طور پریادکیاجاتا ہے ۔ پٹھانکوٹ ائیربیس کے خونین ڈرامے کے بعدمسلسل دہشت گردی میں تشویش ناک حدتک اضافہ ہواہے۔پہلے کوئٹہ میں بڑے حملے ہوئے ،پھردوروزبعدپشاورچیک پوسٹ پرخاصہ داروں کونشانہ بنایاگیااوراس کے بعدباچاخان یونیورسٹی پرنہتے طالب علموں پرحملہ کیاگیا۔ادھراسلام آبادمیں افغان مذاکرات کیلئے چارملکوں کے نمائندے سرجوڑکربیٹھے ہوئے تھے کہ کوئٹہ میں ضلع کچہری کے قریب ایک خودکش حملہ آورسیکورٹی فورسزکی گاڑی سے جاٹکرایاجس سے تین سیکورٹی اہلکارسمیت دس افرادجاں بحق اورایک خاتون سمیت پندرہ کے قریب زخمی ہو گئے۔

ادھرباچاخان یونیورسٹی پراندوہناک دہشت گردی کے بارے میںڈی جی آئی ایس پی آرلیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے بتایاکہ کم وقت میں بہت سے اہم معلومات وشواہدسے بہت بڑابریک تھروہو چکا ہے کہ حملہ آوردہشت گردکل کتنے، کون ،کہاں سے آئے اورکس نے بھیجے اوریہاں ان کے سہولت کارکون تھے؟اورمزید کاروائی شروع کردی گئی ہے۔اس حملے میں۲۰لوگ جاں بحق ہوئے ،جن میں١٨ طلباء اوردواسٹاف ممبرزتھے۔پہلے یونیورسٹی انتظامیہ کی متعین کردہ گارڈ فورسزمقابلہ کرتی رہی،انہیں پولیس نے جوائن کیااورکچھ دیربعدفوج بھی پہنچ گئی۔یونیورسٹی پردہشت گردوں نے حملہ کیا تھا،فوج پہنچی توچاروں دہشتگرد زندہ تھے۔دہشت گردوں کوسیڑھیوں میں اورچھت پرجہنم رسیدکیاگیا۔ ان دہشتگرد وں کے قبضے سے دوموبائل فون بھی ملے جن کانادراسمیت تجزیہ کرکے مکمل ڈیٹااکٹھاکیاجاچکاہے۔ دہشتگردوں کے پاس افغانستان کی سمیں تھیں اورایک دہشت گردکے مرنے کے بعدبھی اس کے فون پرافغانستان سے کالیں آرہی تھیں۔ ڈی جی ایس پی آرنے دہشت گردوں کے سہولت کاروں (جن کے بارے میں ان کا یہ کہنا بجاتھاکہ وہ بھی دہشت گردہیں)کومیڈیاکے سامنے پیش کیااورتین فرارسہولت کاروں کوجلدگرفتارکرنے کایقین دلاکریہ بتایاکہ ان میں ایک سہولت کارکی بیوی اوردوسری بھانجی ہے جوان دہشت گردوں کیلئے درہ آدم خیل سے پردہ کی آڑ میں اسلحہ چھپاکرلائیں تھیں ۔

فوجی ذرائع سے اس بات تصدیق ہوئی تھی کہ حملہ آوروں کے ڈانڈے افغانستان سے ملتے ہیں اوروہاں چھپے ہوئے عناصرکی شہہ پرانہوں نے اس گھناؤنی واردات کاارتکاب کیا۔آرمی چیف نے افغان صدر،چیف ایگزیکٹواوروہاں پر موجودامریکی فوج کے کمانڈرکوفون کرکے اعتمادمیں لیا تھالیکن بعدمیں افغان حکومت نے اپنی سرزمین کے استعمال سے متعلق تاثر کی تردیدکردی۔ افغانستان میں جب دہشتگردی کی کوئی کاروائی ہوتی ہے تواس کافوری پاکستان کی طرف اشارہ کردیاجاتاہے۔ایک عرصے تک پوری شدت سے پاکستانی اداروں کواس کا ذمہ دارٹھہرایاجاتارہا ہے،اب لہجہ قدرے بدلاہے لیکن بداعتمادی اپنی جگہ ہے۔ بھارت میں جب بھی کوئی واردات ہوتی ہے توالزام پوری شدت اورسرعت کے ساتھ پاکستان پرلگادیاجاتاہے۔پٹھانکوٹ حملے کے بعدصرف چنددن قدرے ذمہ داری کامظاہرہ کیاگیالیکن بعد میں حسبِ معمول نہ صرف ساراملبہ پاکستان پرڈال دیاگیابلکہ وزیر دفاع نے تیکھی زبان بھی استعمال کی جس کے بعدبڑی سرعت کے ساتھ پاکستان میں پشاور،کوئٹہ اوردیگرعلاقوں میں دہشتگردکاروائیاں ہوئیں ۔ اس صورت حال میں اب وقت آگیاہے کہ ہرملک مصم ارادہ کر کے یہ طے کرلے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کاایک جز دہشت گردوں کی بالواسطہ یابلاواسطہ حمائت نہیں بنائے گااوراختلافات ہوں یامسائل،ان کومذاکرات ہی کے ذریعے حل کیا جائے گا۔اس حوالے سے ایک اورحقیقت ذہن نشین کرنابہت ضروری ہے کہ پاکستان اوربھارت کے معاملات کوافغانستان سے الگ رکھناہوگا کیونکہ دونوں کوایک ترازومیں نہیں تولاجاسکتا۔۔

افغانستان اورپاکستان کے درمیان کوئی مسئلہ کشمیرموجودہے اورنہ ہی کوئی تاریخی تضادیاتصادم،افغانستان پرسوویت کے قبضے نے خطے میں جومسائل پیداکئے تھے ،وہ ابھی تک ان سے نبردآزماہے۔پاکستان بھی ان سے پوری طرح پیچھانہیں چھڑاسکا۔پاکستان نے روسی حملہ آوروں اور قابضین کے خلاف افغان تحریک مزاحمت کاکھل کرساتھ دیااورافغان مہاجرین کیلئے اپنے دروازے کھول کرایک قابل فخرکرداراداکیاتھاجس طرح ویت نام کی جنگ میں چین اورسوویت یونین نے وہاں کے عوام کی مزاحمت کا ساتھ ے کر پوری دنیا سے دادوصول کی تھی۔پاکستان کے اس کردارپرناک بھوچڑھانے والے پاکستانی دانشوراورسیاست دان کورچشم ہیں یاحقائق سے دانستہ آنکھیں بندرکھنے کواپناکمال سمجھتے ہیں، اس حوالے سے ہرسچے ہم وطن کاسرفخرسے بلندہے۔خرابی کی جڑسوویت فوجوں کی افغانستان میں مداخلت تھی،پاکستان کی طرف سے ان کے خلاف مزاحمت کی حمایت نہیں۔سوویت فوجوں کے انخلااورسوویت یونین کے خاتمے کے بعدافغان مجاہدین کاکردارمثالی نہ رہا۔وہ داخلی تنازعات میں الجھ کرایک دوسرے کے درپے ہوگئے تویہ بعدکی بات ہے ۔

افغانستان میں آج جوحکومت قائم ہے، اسے طالبان کی طرف سے زبردست چیلنج درپیش ہے،جن کی حکومت امریکا اوراس کے اتحادیوں نے نائن الیون کے بہانے ختم کردی تھی۔اربوں ڈالرکا اسلحہ جھونکنے،ڈیزی کٹراورنیپام بم برسانے اور ہزاروں فوجیو ںکے تابوت وصول کرنے کے باوجودافغان طالبان کوشکست نہیں دے سکے،آج بھی افغان سرزمین کے بڑے حصے پر افغان طالبان کی رٹ قائم ہے اوران سے مصالحت کیلئے افغان حکومت ہی نہیں،امریکابھی سرتوڑکوششیں کررہاہے۔پاکستان،چین اور امریکاکے ساتھ مل کراس کام میں ہاتھ بھی بٹارہاہے۔ پاکستان میں جوگروپ طالبان کے نام سے برسرپیکارہیں،ان کامعاملہ بالکل مختلف ہے کہ امریکااوراس کے اتحادیوں بشمول بھارت واسرائیل نے ایک سازش کے تحت ان کوطالبان کانام دے کرتیارکیااورافغان طالبان کے ساتھ ان کا کوئی تعلق یارشتہ نہیں اورپاکستانی فوج نے ضربِ عضب آپریشن میں ان کاخاصا صفایابھی کردیاہے لیکن اب بھی کچھ مفروراپنے آقاؤں کی پناہ میں ہیں جہاں ان کو دہشت گرد انہ کاروائیوں کیلئے استعمال کیاجاتاہے۔

بنیادی بات یہ ہے کہ افغان طالبان اپنی سرزمین سے ہرقسم کی غیرملکی افواج کا مکمل انخلاکیلئے مسلح جدوجہدمیں مصروف ہیں جوان کاقانونی حق ہے،البتہ پاکستان کیلئے اس بات کاجائزہ لینااز حد ضروری ہے کہ کیاپاک افغان سرحدکوسیل کیاجاسکتاہے یامحدودآمدورفت کومحفوظ اورمخصوص شرائط کے ساتھ پابندکیاجا سکتاہے؟جہاں تک نئی دہلی کاتعلق ہے وہ پاکستان کودباؤمیں رکھنے کیلئے افغانستان کے ساتھ ساتھ ایران کی شکل میں بھی مؤثرکارڈکھیل رہا ہے۔بھارت نے ایران میں چاہ بہار اوراس سے افغانستان کوملانے والی رابطہ سڑکوں پریونہی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری نہیں کی،خصوصااس صورت میں کہ بھارت کے اندرکروڑسے زائدآبادی کودووقت کی روٹی نصیب نہیں،علاج معالجے کی سہولتیں تک میسرنہیں،تعلیم کاتوسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ یہ نہ سمجھاجائے کہ بھارت کوافغانستان اورایران سے کوئی لگاؤہے بلکہ ان نوازشات کے عوض اسے کم ازکم افغانستان میں امریکاکے تعاون سے کابل میں فری ہینڈحاصل ہوتا ہے چنانچہ وہ بڑے اطمینان کے ساتھ پاکستان میں تخریبی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

بھارت کوسمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کے ملکی حدود میں دودرجن سے زائدباغیانہ تحریکیں چل رہی ہیں ،اس لئے امن شانتی اس کی بھی ناقابل التوا ضرورت ہے اور اس کی ہمسائیگی میں بھڑک رہی آگ پورے خطے کے لئے بہت سنگین خطرہ ہے ۔حال ہی میں آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرمیں منعقدہ ایک طویل اجلاس میں وزیراعظم نوازشریف اورآرمی چیف جنرل راحیل کوپاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے تازہ اورٹھوس شواہد سے بھی آگاہ کیاگیاجس کے بعد سول اورعسکری قیادت نے اس کیس کوایک چیلنج کے طورپرلیتے ہوئے واضح کیاہے کہ اس میں ملوث عناصرکوہرحال میں انجام تک پہنچایاجائے گا ۔ ذرائع کا کہناہے کہ سانحہ چارسدہ کے منصوبہ سازوں کے خلاف ٹھوس کاروائی کیلئے مختلف آپشنزکوحتمی شکل دے دی گئی ہے کیونکہ سیکورٹی اداروں نے ٹی ٹی پی کے عمرمنصور،رحمت اللہ نبیل اور''را'' تینوں کے باہم رابطوں کے گٹھ جوڑ کے اہم اور مکمل شواہدحاصل کرلئے ہیں ۔یہ آپشن بھی زیرغورہے کہ افغانستان کوکہاجائے گاکہ وہ سانحے میں ملوث دہشتگردوں کے خلاف خودکاروائی کرے یاپاکستان کے ساتھ مل کرمشترکہ آپریشن کیاجائے۔

اشرف غنی اوران کے بعض ساتھی حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی اختیارکرنے کی خواہ کتنی کوشش کریں ، سابق حامدکرزئی کی ورثے میں چھوڑی ہوئی انتظامیہ اورشمالی اتحاد کے سربراہ عبداللہ عبداللہ انہیں متعین راستوں سے ادھرادھرہونے نہیں دے رہے۔جنرل راحیل نے اشرف غنی کوچارسدہ حملے کے بارے میں ٹھوس شواہدمہیاکردیئے ہیں۔اگر اب بھی افغان حکومت کوئی کاروائی نہیں کرتی توپاکستان کومزیدکسی بھی خوش فہمی اورخطے کی دوسری ملوث طاقتوں کو کسی بھی خوش گمانی میں رہنے کی قطعاًضرورت باقی نہیں ۔ماضی میں جوہونا تھا،وہ ہوچکا،اگراب بھی کابل انتظامیہ اورامریکی ڈرون حرکت میں نہ آئے تو پاکستان میں ملوث دہشت گردی کے تمام کرداروں کے بارے میں خود پاکستان کو اپنی نئی پالیسی اختیار کرنے میں مکمل آزاد رہناہوگاتاکہ عالمی برادری کوکھلم کھلایہ پیغام ملے کہ پاکستان ایک ذمہ دارجوہری ملک ہونے کی حیثیت سے دنیا کوپرامن بنانے میں جوخوفناک اورمشکل ترین جنگ لڑرہاہے،اس میں امریکا، افغانستان ا وردوسرے کرم فرماؤں کاکردارکیاہے؟
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 353273 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.