تعلیم کو نوٹ دو(ایک بار ضرور پڑھیں)

ماں مجھے نئی یونیفارم سلوادو، نئے جوتے لے دو کیونکہ روزانہ سکول میں مجھے بے عزت کیا جاتا ہے اور کلاس میں کھڑا کر دیا جاتا ہے ۔ بابا میرا بیگ پھٹ چکا ہے نیا لادو نہ اورریاضی کی کتاب بھی نئی لانی ہے۔ ماں میری فیس ٹائم پر دے دیا کر و، روزانہ سکول میں میری بے عزتی ہوتی ہے اور بچے مذاق اڑاتے ہیں۔ ماں میرا یونیفارم دھو کر پہنا یا کرو کہ میلا ہونے کی وجہ سے ٹیچرسے ڈانٹ پڑتی ہے۔ ماں مجھے روزانہ بیس روپے سکول خرچ کے لیے دیا کرو کیو نکہ سب بچے بیس اور پچاس روپے لیکر آتے ہیں۔ ماں دو ماہ کی فیس ہو گئی ہے آج تو دے دو تاکہ میں بے عزتی سے بچ جاؤں۔ ماں میرے سکول شوز ٹوٹ چکے ہیں، مرمت کا قابل بھی نہیں رہے نئے منگوادو نا۔ ماں مجھے بھی رکشہ یا ویگن لگوا دو سکول آنے جانے کے لیے کہ اتنی دور پیدل جا کر میں تھک جاتا ہوں۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ جی ہاں ! اسطرح کی باتیں پاکستان بھر میں غریب گھرانوں میں روز کا معمول ہیں کہ جہاں پر والدین، نئے جوتے اور یونیفارم افورڈ نہیں کر سکتے، نئی کتابیں اور بیگ خواب سا ہو تا ہے ، سوائے ایک بار کے ، فیس ٹائم پرغربت کی وجہ سے دی نہیں جاتی، یونیفارم ہفتہ دس روز میں ایک بار دھلتا ہے کہ صابن، سرف افورڈ نہیں ہوتا، پانچ روپے سے زیادہ جیب خرچ دینے کی گنجائش نہیں ہوتی ، ٹرانسپورٹ افورڈ نہیں کر سکتے ۔۔ اچھا لائف سٹائل جسٹ ایک دیوانے کا خواب۔اس شدید سردی میں ایک بچہ دیکھا فقط ایک قمیض میں اور اسکے بھی بٹن ٹوٹے ہوئے تھے۔ ایک بچے سے پوچھا کہ آپ کئی روز سکول کیوں نہ آئے تو بولا کہ ابو کے پاس فیس کے پیسے نہ تھے۔ ایک اور بچے نے بتایا کہ اسکے ابو کتابیں ادھار لائے ہیں۔ ایک اور بچہ بولاکہ ا س کے ابو کی آج دیہاڑی نہیں لگی، لہذا فیس بعد میں۔ ایک بچہ بولا کہ ابو طبیعت کی خرابی کی وجہ سے کام پر نہیں جا رہا، دوا کے پیسے نہیں لہذا نو فیس۔ ایک اور بچے نے بتایا کہ فیس کا پو چھنے پر اسکی ماں چپ سی ہو گئی تھی۔ ایک اور بچہ بولاکی میرے ابو نہیں ہیں اور امی گھر وں میں کام کرکے پیسے لاتی ہیں۔ وغیرہ، وغیرہ۔فیس کے لیے زیادہ سختی کی تو اگلے روز سکول کے آدھے بچے غائب تھے!۔

تو جناب عالی ! ہم بازار جاتے ہیں کچھ خریدتے ہیں اور پیسے دیتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ اپنی خدمات دیتے ہیں اور اسکے عوض پیسے لیتے ہیں۔ لیکن کچھ کام ایسے ہیں کہ جہاں کسی کو کچھ دینا نہیں صرف لینا ہوتا ہے۔ یعنی کسی کی جیب سے بغیر کچھ دیے رقم نکالنا جو کہ انتہائی جان جوکھم کا کام ہے۔ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہو رہا ہے کہ میں نے معمولی فیس پر ایک چیریٹی سکول کھولا۔ والدین سو دوسو روپ کی فیس بھی نہیں دیتے ۔ بچوں کی اوپر بتائی گئی حالت دیکھ کر سوچا کہ انہیں بالکل ہی مفت پڑھایا جائے پر اساتذہ کی تنخواہ، اور دیگر اخراجات کہاں سے پورے کیے جائیں؟ اس کے لیے دست دراز کیا تو کچھ دوستوں نے بہت اچھا جواب دیا اور تعاون کیا اور مستقل کر رہے ہیں۔ تا ہم کچھ نے اچھا نہ جانا۔ کسی سے بار بار رقم کا تقاضا اچھی بات نہیں کہ ہر بار بے عزتی کرائی جا ئے پر شاید ہم بھی عادی ہوچکے بے عزتی کرانے کے، کہ جب تلک نہ ہو تو سکون نہیں ملتا۔ عزت دیکھیں تو چیریٹی سکول نہیں چلتا ۔ تاہم کیونکہ سکول چلانے کا پنگا لے چکے تو اب پیچھے ہٹنا محال کہ بچوں کہ نہ بھی نہیں کر سکتے ! پر مسئلہ یہ کہ اسکے اخراجات کیسے افورڈ کیے جائیں۔ سوچتے ہیں کہ یار دنیاوی کاموں کے لیے روزانہ ہم اپنے بڑوں سے کتنی ہی بار ڈانٹ ڈپٹ سنتے ہیں، تو ایک ڈانٹ ڈپٹ نیک کام کے لیے بھی سہی!۔

لہذا ایک گذارش ہماری ویب والوں سے اور ایک پڑھنے والوں سے مجھ پر اعتماد کرتے ہوئے جس قدر ممکن ہو سکے میرے چیریٹی سکول کے لیے کتابیں، یونیفارم، جوتے، سٹیشنری یا نقد رقم دیکر صدقہء جاریہ میں حصہ ڈالیں ، انشاء اﷲ العزیز اﷲ پاک آپکی اس مدد کو قبول فرمائیں گے۔ مزید تفصیلات اور سکول وزٹ کے لیے ناچیز سے رابطہ کیجئے۔
والسلام:محمد شفیق احمد خان
0343-6017660, 0316-6017660
0300-2534320, 0333-6017660
email:[email protected]
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 234853 views self motivated, self made persons.. View More