ایک سبق آموز حکایت۔درس عبرت

کہتے ہیں ۔ایک بڑھیا تھی ۔جس کا ایک ہی بیٹا تھا۔جسے وہ ہر دوسری ماں کی طرح اپنے بیٹے سے بہت زیادہ پیار کرتی تھی۔ اتفاق سے بچہ بیمار ہوا اور کچھ عرصہ کی علالت کے بعد ماں کو داغ ہجرت دے کر ابدی نیند سو گیا۔اس دلخراش حادثہ نے ماں کو ہلا کر رکھ دیا۔اس کی دنیا لُٹ گئی۔وہ حواس باختہ ہو کر اپنے مرحوم بیٹے کو حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہو گئی۔در بدر جاتی۔ہر کسی کے پاس مدد کی درخواست کرتی کہ کسی طرح اس کا کھویا ہوا بیٹاا سے واپس مل جائے۔

کسی نے اسے بتایا کہ فلاں مقام پر ایک بزرگ اور خدارسیدہ بزرگ رہتے ہیں۔ممکن ہے وہ تمہاری مدد کرسکیں۔بڑھیا اس بزرگ کے دردولت پر پہنچی۔ آہ و فغان کے ساتھ درد بھری بِپتا سنائی اور داد رسی کی عاجزانہ درخواست کی۔

بزرگ نے بڑی ہمدردی کے ساتھ اس دل شکستہ بڑھیا کی داستان سنی ،اس سے اظہار ہمدردی کیا اور دلجوئی کی خاطر اس کی مدد کرنے کا وعدہ کیا اور بڑھیا سے کہا ۔اگرتم کسی ایسے گھر سے چند گھونٹ پانی کےلے آؤ جن کے گھر میں کوئی فوت نہ ہوا ہو ،پھرمیں اس پانی کے ذریعہ سے تمہارے بیٹے کو زندہ کرسکتا ہوں ۔اس پر وہ بڑھیا خوشی خوشی ایک قریبی گھر میں گئی اور پوچھا کیا آپ کے گھر میں کوئی فوت ہوا ہے۔انہوں نے بڑے دکھ سے اپنے کئی پیاروں کی جدائی کا قصہ سنا ڈالا۔اس کے بعد بڑھیا اگلے گھر پہنچی اس نے اپنا سوال دوہرایا اسے وہاں سے بھی وہی جواب ملا اس طرح بڑھیا بہت سے گھروں میں پہنچی ہر جگہ سے اسے سوائے مایوسی اور ناامید ی کے کچھ نہ ملا۔اس پر اسے احساس ہوا اور سمجھ گئی کہ موت وحیات کا سلسلہ اٹل ہے اس سے کسی کو مفر نہیں ہے۔اس کاواحد علاج صبر ہے۔

ہر انسان اپنی زندگی کے سفر میں بسا اوقات بہت سےمشکل اور تکلیف دہ لمحات میں سے گزرتا ہے۔وہاں پر اپنی بے بسی اور لاچاری دیکھ کر سوائے آنسو بہانے اور بالآخر صبر کے کچھ نہیں کرسکتا ۔ انسان بے بس ہوجاتا ہے۔یہی وہ گھڑی ہوتی ہے جب انسان کی نگاہ آسمان کی طرف بے اختیار اٹھتی ہے۔

ایک دن میں چند دوستوں کے ہمراہ میانوالی میں ایک بہت بڑے سرکاری آفیسر کے گھر کسی کام کی غرض سے گیا۔ مذکورہ افسر کا عالیشان بنگلہ،نوکر چاکر اور دنیاوی جاہ وجلال واقعی متأثر کن تھا۔ گھر کا سارا ماحول ان کی خوش وخرم زندگی کی غمازی کر رہا تھا۔ملاقات کے بعد جب ہم لوگ گھر سے باہر نکل رہے تھے۔ ہمیں ایک جانب سے عجیب وغریب چیخ و پکار کی آوازیں آنی شروع ہوئیں۔ہم نے ایک ملازم سے پوچھا یہ کیسی آوازیں ہیں۔اس پر اس نے بتایا ۔صاحب خانہ کا ایک نوجوان بیٹا مخبوط الحواس ہے۔جسے ایک پنجرہ نما کمرے میں بند کررکھا ہے۔کیونکہ وہ مارپیٹ بھی کرتا ہے۔ہمیں یہ نظارہ دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی ۔بظاہر دیکھنے میں موصوف کی زندگی بڑی ٹھاٹھ باٹھ کی تھی۔دیکھنے والے اسے بڑا ہی خوش وخرم زندگی بسر کرنے والوں میں گردانتے ہونگے لیکن حقیقت میں اس کی بے بسی ، بے کسی اور قلبی دکھ کا کون ادراک کرسکتا ہے۔
اس لئے ہمیشہ ہی انسان کو اللہ کا عبد بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔
munawar ahmed khurshid
About the Author: munawar ahmed khurshid Read More Articles by munawar ahmed khurshid: 47 Articles with 53047 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.