تم سب پاگل ہو

وہ فقط دو دن پہلے بیس پچیس سال یورپ میں گزار کر ایک ہفتے کے لئے پاکستان آیا تھا۔ ائیر پورٹ سے گھر آنے کے بعد وہ بے حد خوش تھا۔ رات گئے تک وہ مجھ سے باتیں کرتا رہا۔ صبح کہاں کہاں جانا ہے کس کس سے ملنا ہے باقاعدہ کاغذ پر لکھتا رہا اور پھر صبح پرانے دوستوں سے ملنے اور بدلے ہوئے شہر کو دیکھنے میرے ساتھ گاڑی میں چل پڑا۔اتنا عرصہ یورپ میں گزارنے کا نتیجہ یہ تھا کہ سڑک پر پہنچتے ہی اس نے سوال جواب شروع کر دیئے۔یہ موٹر سائیکل اور رکشاؤں والے کیا کر رہے ہیں اپنی لین میں کیوں نہیں چلتے؟

یہاں ابھی لین کا تصور پوری طرح متعارف نہیں ہوا۔ اس نے حیران ہو کر مجھے دیکھا۔

تھوڑی دور چلنے کے بعد اس نے دوسرا سوال کیا۔ یہ ٹریفک پولیس والے چوک میں ٹریفک کنٹرول کرنے کی بجائے چوک سے تھوڑا ہٹ کر ہاتھ میں کاپیاں لئے چالان کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں تو چوک میں کھڑے ہو کر ٹریفک کنٹرول کرنا چائیے۔عام سی غلطی پر گاڑی والے کو سمجھانا چاہیے۔ چھوٹی غلطی پروارننگ اور کسی بڑی غلطی چالان کرنا چاہیے۔

یہاں سمجھانے اور وارننگ کرنے کا فیشن نہیں۔ ان کے پاس سرکاری سطح پر بھتہ خوری کا لائیسنس ہے۔یہ صرف چوک سے پرے لوگوں کو گھیرتے ہیں۔ چالان کرتے ہیں۔حکومت کے خزانے کے لئے پیسے یا تھوڑا بہت اپنا جیب خرچ بناتے ہیں۔شام کو واپسی پر تمھیں دکھاؤں گا کہ جب مال روڈ سے نہر پر آنے لگتے ہیں تو دو متوازی سڑکیں ہیں۔ ایک سیدھاجانے کے لئے اور دوسری نہر کے ساتھ مڑنے کے لئے۔ ایک چھوٹا سا بورڈلوگوں کی رہنمائی کے لئے لگایا ہوا ہے جو عام طور پر لوگ نہیں دیکھتے اور انجانے میں سیدھا چلے جاتے ہیں۔ چوک سے ذرہ آگے شکاریوں کی طرح چار پانچ ٹریفک اہلکار کھڑے ہوتے ہیں۔ فوراً چالان کر لیتے ہیں۔ یہ بھتہ خوری ہے اور سرکاری سطح پر ہو رہی ہے۔ کوئی نہیں پوچھتا۔ پنجاب کا چیف منسٹر، چیف جسٹس، چیف سیکرٹر ی اور آئی جی سمیت سب گزرتے ہیں مگر آنکھیں بند کرکے،ذہن بند کرکے۔ کوئی نہیں سو چتا کہ اگر یہ سڑک بند ہے تو سامنے کوئی ایسا بندوبست کرو کہ بند نظر آئے اور اگر کھلی ہے تو چالان کیسا مگر چونکہ یہ ڈاکہ سرکاری سطح پر جاری و ساری ہے اس لئے کو ئی نہیں پوچھتا۔

میری بات سن کر وہ ہنسااور پھر سامنے سڑک پر دیکھ کر یکدم بولا بہت خوب ، یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ میں نے پوچھا کونسی بات۔ بولا لکھا ہے ـ،کیمرے کے آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے، جو یقیناً اچھی بات ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے تو بہت سی مشکلیں آسان کر دی ہیں۔ پوری دنیا ٹریفک کو کیمرے ہی سے کنٹرول کرتی ہے۔ کوئی سفارش، کوئی حوالہ کام نہیں آتا۔ غلطی کو کیمرے کی آنکھ محفوظ کر لیتی ہے اور چالان اگلے دن آپ کے گھر آپ کے حوالے۔آپ کتنے بڑے اور بااثر آدمی ہیں کیمرے کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ آپ فقط مجرم ہیں۔ میرے سٹور پر ڈاکہ پڑا۔ ڈاکو باہر نکلے ۔ ہم نے پولیس کو اطلاع دی ۔ میرے سٹور کے اندر اور باہر لگے کیمروں نے ڈاکوؤں کی شناخت کی اورشہر بھر میں لگے دوسرے کیمروں نے پندرہ منٹ میں انہیں ڈھونڈھ نکالا۔پولیس نے میرا لوٹا ہوا سارا مال بر آمد کر کے فوراً مجھے پہنچا دیا۔

چپ کرکے دیکھتے رہو، ہمارے کیمرے اندھے ہیں۔

چوک بالکل قریب تھا کہ ٹریفک رک گئی۔ سامنے چوک میں کچھ گڑ بڑ تھی۔گاڑی رینگتے رینگتے وہاں پہنچ گئی ایک نوجوان سڑک کے بیچ میں کھڑا تھا۔ساتھ ہی سڑک پر اس کی موٹر سائیکل لیٹی ہوئی تھی۔ میرے دوست نے گاڑی سے باہر جھانکااور پوچھا، بیٹاکیا ہوا۔ جواب ملا۔ پٹرول ختم ہو گیا ہے۔

مگر موٹر سائیکل زمین پر کیوں پڑی ہے،

جواب ملا۔ خود لٹائی ہے تھوڑا سا پٹرول انجن تک پہنچ جائے چل پڑے گی۔پٹرول پمپ تک پہنچا دے گی۔

مگر بیٹا تم اسے سڑک کنارے بھی لٹا سکتے ہو۔نوجوان نے انتہائی غضیلی نظروں سے ہماری طرف دیکھا اور کہا پٹرول یہاں ختم ہوا تھا وہاں نہیں۔

اس سے پہلے کہ کوئی بد مزگی پیدا ہو میں نے گاڑی آگے بڑھا لی۔ میرا دوست پوچھنے لگا ۔یہاں کیمرے میں پولیس دیکھ نہیں رہی۔ چوک میں ٹریفک اہلکار بھی نظر نہیں آ رہا۔ کوئی پوچھنے والا کیوں نہیں؟

میری بات پھر غور سے سنو۔ یہاں کے کیمرے اندھے ہوتے ہیں۔ یہاں کی پولیس بھی اندھی ہے۔ تم کہتے ہوتمہاری پولیس نے پندرہ منٹ میں برآمدگی کر لی۔ ہماری پولیس پندرہ گھنٹے بعد موقع واردات پر پہنچتی ہے۔ تم وہاں کو بھول کر فقط اپنے کام سے کام رکھو۔

میں نے محسوس کیا کہ ہماری بے ہنگم ٹریفک کو دیکھ دیکھ کر وہ بہت بے چین ہو رہا تھا۔ ہم اگلے چوک کے بہت قریب تھے۔ ٹریفک پھر رینگنا شروع ہو گئی۔ وہ سر اونچا کئے آگے دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہنے لگا، لگتا ہے یہاں بھی کسی موٹر سائیکل کا پٹرول ختم ہو گیا ہے۔دھیرے دھیرے ہم چوک میں پہنچ گئے۔لوگوں کی مشکلات سے بے نیازچوک کے عین وسط میں ایک رہڑی والا پھل بیچ رہا تھااور ایک خاتون گاڑی میں بیٹھی پھل خرید رہی تھی۔ میرا دوست کہنے لگا ۔ ذرہ ایک طرف گاڑی روکو۔ میں خاتون اور پھل والے دونوں کو کچھ شرم دلاؤں۔میں نے منع کیا کہ بھائی ، خاتون کی گاڑی پر سبز نمبر پلیٹ نصب ہے یقیناً کسی بااثرشخص کی بیوی ہو گی۔ کیوں میرے اور اپنے لئے کوئی مشکل کھڑی کرنا چاہتے ہو۔ روکو گاڑی روکو۔ سرکار کی گاڑی
سرکار کے کاموں کے لئے ہوتی ہے۔ پتہ نہیں تم لوگ ایسی لوٹ مار کی اجازت کیسے دے دیتے ہو۔ میرے منع کرنے کے باوجو د وہ خاتون کو اخلاقیات کی تعلیم دینے پہنچ گیا۔ میں تیزی سے اس کے پیچھے گیا ۔ اس نے خاتون کو کیا کہا میں نہیں جان سکا ۔ مگر خاتون غصہ سے گاڑی سے باہر آ چکی تھی اور غلیظ گالیاں نکالتے ہوئے کہہ رہی تھی ا س بد تمیز کو خواتین سے بات کرنے کی تمیز نہیں اور مجھے گاڑی غلط کھڑی کرنے پر یوں نصیحتیں کر رہا ہے جیسے یہ اس کے باپ کی سڑک ہو۔ لوگ بغیر سوچے سمجھے خاتون کی حمایت کرنے لگے۔ اس نے کچھ کہنا چاہا مگر خاتون کی حمایتی عوام الٹا اسے مارنے کے موڈ میں تھی۔ میں اسے کھینچ کر گاڑی میں لایا۔

گاڑی میں بیٹھ کر اس نے انتہائی غصے میں مجھے گھر واپس چلنے کو کہا۔ مگر کیوں ،میں نے سوال کیا۔ وہ چلایا، میں کہتا ہوں واپس چلو۔ مجھے کسی سے نہیں ملنا ۔ میں صبح واپس جا رہا ہوں۔ میں چند گھنٹے اور ان سڑکوں پر رہا تو پاگل ہو جاؤں گا۔تم کہتے ہو کہ یہاں کیمرے اندھے ہیں۔ پولیس اندھی ہے۔ قانون اندھا ہے ۔ انصاف اندھا ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ تمھارا احساس اندھا ہے۔ تمھارا اخلاق اندھا ہے۔ تمھارا کردار ااندھا ہے۔ تم سب اندھے ہو۔ میں اندھوں کے دیس میں اپنا وقت ضائع نہیں کر سکتا۔ میں سمجھتا تھا کہ میں یورپ میں تیسرے درجے کا شہری ہوں مگر مجھے وہاں جو عزت حاصل ہے تم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔یہاں ہر چوک میں ہر روز تم لوگوں کو جس ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے یورپ میں کوئی اس کا سوچ بھی نہیں سکتا۔میں پورے یقین کے ساتھ واپس جا رہا ہوں کہ یہاں سب اندھے ہیں اور اندھوں کے ساتھ وقت گزارنا وقت ضائع کرناہے اور میرے پاس اتنا فالتو وقت نہیں۔

اگلی صبح میں اسے ائیر پورٹ چھوڑ آیا۔ تمام راستے ہم نے نہ تو آپس میں نظریں ملائیں اور نہ ہی بات کی۔ وہ گاڑی میں سے تیزی سے یوں اترا جیسے کوئی اپنا سب کچھ ہار کر واپس جا رہا ہو۔ اسے چھوڑ کر میں گھر واپس آتے سوچ رہا تھا کہ ہم سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود بولتے نہیں، احتجاج نہیں کرتے۔ ظلم برداشت کرتے اور اف نہیں کرتے۔وہ سچ کہتا ہے واقعی ہم سب اندھے ہیں۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 443895 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More