قصہ سفرالعشق کے فارسی حواشی

عرصہ قدیم سے' ایران اور برصغیر کے درمیان' سیاسی' معاشی' سماجی' تہذیبی' نظریاتی اورخونی رشتے استوار چلے آتے ہیں۔ طالع آزما جنگ جو' تاجر' صوفیا' علما اور فضلا مختلف ادوار میں' مختلف حوالوں سے' برصغیر میں آتے جاتے رہے ہیں۔ برصغیر کی معاشرت پر' اپنے اپنے حوالوں سے' اثرانداز ہوتے رہے ہیں۔ بالواسطہ اور بلاواسط ' مقامی بولیاں اور زبانیں; فارسی ادبیات سے اثر لیتی رہی ہیں۔ برصغیر کی شاید ہی کوئی زبان ہو گی' جسے فارسی نے' فکری اور اسلوبی اعتبار سے' متاثر نہیں کیا ہو گا۔ فارسی کے بےشمار الفاظ' ان زبانوں میں داخل ہو گیے ہیں۔ مختلف حالات میں' ان کی مختلف صورتیں رہی ہیں۔

اصل صوت' ہئیت اور مفاہیم کے ساتھ فارسی زبان کے الفاظ' برصغیر کی زبانوں میں داخل ہوئے ہیں یا ان زبانوں نے ان الفاظ کی ہیتی صوتی اور تفہیمی وسعت پذیری کی وجہ سے' دانستہ طور اپنا لیا ہے۔

مطابقت بھی لفظوں کو اپنانے کا سبب بنی ہے۔ غربت خصم اور گربت کھسم قریب کے لفظ ہیں۔ آج قفلی کوئی لفظ نہیں رہا' اسی طرح گربت اور کھسم استعمال میں نہیں رہے۔

الفاظ کی ہئیت اور صوت برقرار نہیں رہی ہے لیکن ان کے مفاہیم میں تبدیلیاں نہیں آئیں۔

الفاظ کی اصل ہئیت اور صوت تو برقرار رہی ہے لیکن ان کے مفاہیم میں تبدیلیاں آئی ہیں یا مفاہیم یکسر بدل گیے ہیں۔

مقامیت کے زیر اثر یا بدلتے حالات کے تحت' فارسی الفاظ کی مختلف اشکال نے جنم لے لیا ہے۔ یہ بھی کہ ان نئی اشکال کے نئے مرکبات پڑھنے سننے کو ملتے ہیں۔ انگریزی کی قہرمانی اور فتنہ سامانی کے بوجود' از خود اور نادانستہ طور پر' یہ تبدیلیوں کا عمل ہر سطع پر جاری و ساری ہے۔

مقامی زبانوں کے الفاظ کے ساتھ' فارسی سابقوں لاحقوں کی پیوندکاری کا عمل مضبوط سے مضبوط تر ہوا ہے۔

ایرانی اشیا اور مختلف حلقوں سے متعلق اشخاص کے اسما اور شہروں وغیرہ کے ناموں کا استعمال' ادبی اور سماجی حلقوں میں باکثرت ملتا ہے۔

ایرانی اہل ہنر اور ہیروز کے کارناموں کا تذکرہ یا حوالہ مقامی زبانوں کی تصانیف میں ملتا ہے۔

فارسی محاورے' روزمرے اور اقوال و امثال بلاتکلف' مقامی زبانوں میں استعمال ہوئی ہیں۔

فارسی اصطلاحات کا استعمال' ان زبانوں میں کسی قسم کے اوپرے پن کا احساس تک ہونے نہیں دیتا۔

فارسی شعرونثر سے متعلق تخلیقات کے تراجم مقامی زبانوں میں ہوتے آئے ہیں۔ مقامی زبانوں کے تبادلات میں' اصل الفاظ کی روح کسی ناکسی سطع پر' متحرک رہی ہے۔

دور کیا جانا ہے' مغلیہ عہد جو مئی 1857 تک قائم رہا۔ فارسی کا دربار' بازار مکتب اور بعض آزاد ریاستوں میں سکہ چلتا رہا ہے۔ اس حوالہ سے' بڑی جان دار اور مستند کتب' فارسی کے ورثہ میں داخل ہوئی ہیں۔ ان تصانیف میں' مقامی زبانوں کے الفاظ اشیا و اشخاص کے نام رسوم وغیرہ کے نام فارسی' زبان کے مخصوص لب و لہجہ کے ساتھ داخل ہوئے ہیں۔ ان حوالوں کی واپسی' فارسی اطوار کے ساتھ ہوئی ہے۔ اب ان پر دیسی ہونے کا گمان تک نہیں گزرتا۔ اہل لغت نے ان پر فارسی ہونے کی مہر تک ثبت کر دی ہے۔

شاہی محلات میں' روز زوال تک' بعد ازاں مغل شاہی گھروندوں میں بھی فارسی کا سکہ چلتا رہا۔ بہت سے شعرا فارسی میں کہتے رہے۔ گلستان بوستان کی اہمیت باقی رہی۔ محلاتی مکینوں یا ان سے متعلق حضرات کا کلچر عمومی اور عوامی کلچر سے ہٹ کر رہا۔ شاہ سے متعلق اہل قلم نے عوامی دائروں میں رہ کر سوچا لیکن اپنے سوچ کو زبان اور طور شاہی دیا۔

شاہی جبریت کے بعد' برٹش استحصالیت کے زمانے میں' سوچی سمجھی سازش کے تحت فارسی کا پتا کاٹنے کے لیے' مقامی زبانوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ فارسی کے متعلق۔۔۔۔۔۔ پڑھو فارسی بیچو تیل۔۔۔۔۔۔ ایسی خرافات' عرف عام میں آ گئیں۔ اس ناقدری اور حوصلہ شکنی کے باوجود:
1- فارسی کی کسی ناکسی سطع پر مداخلت باقی رہی۔
2- رومی' سعدی' حافظ' خیام' جامی وغیرہ کے فکری و لسانی حسن کا سکہ' نادانستہ طور پر سہی' آج بھی باقی ہے۔

برٹش عہد میں' اردو کو برصغیر زبان ہونے کے ناتے' عزت دی گئی جب کہ پنجابی نے بھی انگریز کی ماتحتی کی' لیکن اس کا فارسی سے رشتہ ختم نہ ہوا۔ معروف مثنویوں کے عنوانات اور حواشی فارسی میں ملتے ہیں۔
...........

پنجابی قصہ۔۔۔۔۔ سفرالعشق ۔۔۔۔۔۔۔ المعروف بہ سیف الملوک کا پنجابی کلاسیکی ادب میں بڑا بلند پایہ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی قدر و قیمت میں ہرچند اضافہ ہی ہوا ہے۔ دیہاتوں اور شہروں میں' اس قصے کو بڑے شوق سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ برصغیر کے معرف فن کاروں نے'اسے صوفیانہ کلام قرار دے کر' عقیدت اور احترام سے گایا ہے۔ میاں محمد بخش صاحب کی بہت سی تصانیف ہیں۔ جن میں: قصہ سوہنی' شیرین فرہاد' نیرنگ عشق' مرزا صاحباں' شاہ منصور' سی حرفی سسی پنوں' سی حرفی ہیر رانجھا' تذکرہ مقیمی' گلزار فقیر' ہدایت المسلمین' تحفہ میراں کرامات غوث اعظم' تحفہ رسولیہ' معجزات سرور کائنات' سخی خواص خاں خاص طور معروف ہوئیں تاہم قصہ سفر العشق میاں محمد بخش صاحب کی شہرت کا سبب بنا۔ یہ قصہ 1859 میں رقم ہوا۔ اس وقت میاں محمد بخش صاحب کی عمر تنتیس برس تھی۔ ان کی جوانی' اس قصے کی زبان اور فکر میں بھرپور انداز میں رقصاں ہے۔

یہ قصہ کل ترسٹھ عنوانات پر مشتمل ہے۔ ان میں سے سترہ عنوان حمد نعت مدح جات اوصاف قصہ منازل ہائے تصوف وغیرہ پر مشتمل ہے جب کہ قصہ کے اختامیہ سے متعلق ہیں۔ گویا اصل قصہ سے متعلق کل بیالیس عنوانات ہیں۔ تفصیل کچھ یوں ہے:
آغاز قصہ
تولد1شدن شاہ زادہ سیف الملوک
دیدن شاہ زادہ تصاویر شاہ مہرہ و عاشق شدنش
جواب سیف الملوک عاشق با پدر
مہلت خواستن پدر و بیان کردن کیفیت مورت
پند دادن پدر پسر را
جواب شہزادہ
التماس بادشاہ پیش فرزند
رحم آوردن پسر بر پدر
بیان دیوانہ شدن شہزادہ
در بیان خواب دیدن سیف الملوک
رخصت طلبیدن شہزادہ از مادر
زاری نمودن شہزادہ از درد مادر
داستان رواں شدن سیف الملوک از مصر
نامہ نوشتن شاہ فغفور جانب شاہزادہءمصر
در جواب شہزادہ بہ فغفور چین
دربیان غرق شدن کشتی ہائے در طوفان و جدا شدن صاعد
گرفتار شدن سیف الملوک بدست بوزنگاں
در بیان جنگ با سنگساراں
گرفتار شدن سیف الملوک بدست زنگیاں
رفتن شاہزادہ در شہر زناں
در بیان مشقت دیدن شاہزادہ از گرسنگی و تشنگی و سوال و جواب عقل و نفس
رسیدن شاہزادہ در قلعہ دیوان و خلاص کنائیدن ملکہ خاتون را
در وصف جمال ملکہ خاتون
رواں شدن شہزادہ مع ملکہ خاتون
ملاقات صاعد با شاہزادہ
در وصف جمال بدرہ خاتون و عاشق شدن صاعد بروے
آمدن بدیع الجمال بہ ساندیپ
در وصف بدیع الجمال
حاصل کلام
در غزلیات و دوہڑا سرائیدن شاہزادہ
در وصف شہزادہ سیف الملوک
نامہ بدالجمال بطرف مہر افروز
داستان خبر شدن دیوان قلزم را و کشتن بہرام شہزادہ
نامہ نوشتن شاہپال بطرف ہاشم شاہ
جواب نامہ از طرف ہاشم شاہ
بر جنگ تیار شدن شاہپال و ہاشم شاہ
جنگ کردن شاہپال شاہ با ہاشم شاہ دیواں
نامہ نوشتن سیف الملوک بطرف پدر دردمند
آمدن ساعد در سفر و تیار شدن عاصم شاہ بر شارستان
وفات یافتن عاصم شاہ
وفات یافتن سیف الملوک و نالیدن بدیع الجمال از درد

بات پنجابی قصے کے عنوانات تک محدود نہیں بل کہ قصے کے حواشی بھی فارسی میں درج کیے گیے ہیں۔ یہ حوشی پانچ سو کے قریب ہیں۔ فارسی حواشی درج کرتے احتیاط سے کام نہیں لیا گیا۔ ڈھنگ سے پروف ریڈنگ تک نہیں کی گئی۔ میرے پیش نظر حمیدیہ بک ڈپو' اردو بازار' لاہور 1993 کا نسخہ ہے۔ متنی ابلاغ کے حوالہ سے حواشی کی صحت کی ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس سے اچھی خاصی لغت سامنے آ سکتی ہے۔
: ان حواشی میں مختلف نوعیت معومات فراہم کی گئی ہیں
لفظوں کے مفاہیم
بعض لفظوں کی زبان کا تعین
اشخاص کا تعارف اور ان سے متعلق معلومات
مختلف قسم کی اصطلاحات اور محاورات سے متعلق معلومات

اس تحریر کے تیسرے حصہ میں پنجابی الفاظ کے ساتھ فارسی حواشی درج کر دیے گیے ہیں تا کہ قاری اس لغت کی مدد سے قصے کی بہتر تفہیم کر سکے۔
مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 194948 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.