معصوم فرشتے اور انسانیت

بچپن میں کئی بار سنا کہ ایک دفعہ کسی افریقی جنگل میں ایک بچے کا لاشہ پڑا تھا اور گدھ اس لاشے کو نو چ نوچ کر کھا رہا تھا خدانخوستہ یہی حال اب تھر کے بچوں کا ہونے والا ہے کم و بیش پانچ ہزار سال کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں ہر روز ایک نہ ایک شامی ایلیان موت کے منہ میں جاتا ہے۔ آصف زرداری، سائیں اور دوسرے وڈیروں کی ناک کے عین نیچے 19 ہزار کلو میٹر پر مشتمل رقبہ، 16 لاکھ سے زائد نفوس اور تقریباََ 3000 سے زائد دیہاتوں کا وہ بد نصیب صحر ا ہے جہاں کے بادشاہ امارت میں دنیا کے کرپٹ امیروں میں راج ،پروٹوکول پرکھربون خرچ اور سندھ فیسٹول کا انعقاد کر کے رقص و سرور کی محفلیں سجانے پر گرو محسوس کرتے ہیں اور دوسری طرف تھر کے ترستے ،سسکتے ، ہلکتے اور تڑپتے بچوں پر بلاناغہ موت کے سائے رقص کرتے ہیں۔ڈسٹرکٹ تھررپار کی چھ تحصیلیں مٹھی ،ڈپلو، اسلام کوٹ ، چھاچھرو، ڈاھلی اور نگرپارکر ہیں جن میں راجھستانی ، ہندی اور اردو بولی جاتی ہے ۔یہاں لوگوں کو صحت اور حفظان صحت جیسی بنیادی مسائل کا سامنا ہے، بنیادی اسٹرکچر نہیں ہے ، بیماریاں اور وبائیں صبح وشام مو ت کا پروانہ لاتیں ہیں۔ یہاں ہر سال سینکڑوں بچے چڑیا کے کمزور بچے کی طرح تڑپ تڑپ کر نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں پر مقامی انتظامیہ اور ایم ایز یا ایم پی ایز تو سائیں کی سیوا میں ہوتے ہیں او ر میڈیا کے ہنگامے کے باجود ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ پینے کے صاف پانی کی بات کرنا توکجا ، ہسپتال اور ڈسپنسریاں اور میڈیکل کی سہولیات ہی ناکافی ہیں۔تعلیمی ادارے ایسے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ تھرپارکر کے تقریباََ تین ہزار دیہاتوں کے لیے 4150 سکولز ہیں جسمیں سے اکثر بوگس اور گھوسٹ سکول ہیں ، انتظامیہ کے مطابق 60 فیصد آبادی سکولوں کو جاتی ہے ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ 20 سے 25 فیصدآبادی سکول جاتی ہے۔ فنڈ ز آتے ہیں لیکن خورد برد ہو جاتے ہیں۔

سائیں جی خدا را! چوہدری شجاعت حسین والا ضرب المثل " مٹی پاؤ"یہاں استعمال نہ کریں اپنے کیے گئے وعدے کے مطابق ترقیاتی کام شروع کرادیں اوروفاقی حکومت سے ہی سبق لے لیں کہ اب وفاقی حکومت ترقیاتی کاموں پر کافی زور دے رہی ہے ۔ نہیں تو پھر وفاقی حکومت کو چاہیے کہ تھرپارکر میں ہنگامی صورتحال کا نفاذ کرے وہاں کے لوگوں کے مسائل کو حل کرکے وڈیرہ شاہی سے تھر کے پرندوں کو آزاد کرائے ۔امید کی جاسکتی ہے کہ اگر میاں نواز شریف اگر شہبار شیریف کویہ اضافی ذمہ داری سونپ دیں تو پھر حالات بہتر ہو سکتے ہیں کیونکہ شہباز شریف ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر ہیں اور مسائل حل کرانا جانتے ہیں۔اس قیمتی ترین علاقے میں موجود معدنی ذخائر سے استفادہ بھی ممکن ہے تھر کی زمین میں بے شمار کوئلہ،اور تھر کی ریت کے نیچے گریفائٹ،سنگِ مرمر ، چائنہ کلے اور دیگر قیمتی معدنیات موجو دہیں۔سیانے کہتے ہیں کہ تھر کے کوئلے سے سالانہ 50 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔برقی ترفتار ترقی کے اس عہد میں آج تھر کی ہلاکتوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ا س سال بھی صرف 42 دنوں میں167 بچے علاج اور غذائی قلت کے باعث بچے بلک بلک کر ماؤں کی سہاگ اجاڑ چکے ہیں۔

میڈیا کی رپورٹس سے برعکس تھرپارکر کے اصل حالات کو جاننے کے لے میں نے وہاں کی انتظامیہ سے رابطے کی کوشش کی کہ جان سکوں حکومت اور دوسرے ادارے وہاں پر کیا سہولیا ت دے رہے ہیں، لیکن جواب ندارد ۔ پھر وہاں کے مقامی فلاحی تنظیموں سے رابطے کی کوشش کی جسمیں کچھ حد تک کامیابی ہوئی جو کہ قارئین کی نظرہے۔الخدمت کے کوارڈینٹر برائے تھر ڈیویلپمنٹ پروگرام اسد اﷲ سے رابطہ ہوا انہوں نے بتا یا کہ گورنمنٹ کے اہلکار، عوامی نمائندے اور کبھی کبھی چیف منسٹر بھی تھر کے عوام کی حالتِ زار دیکھنے آتے ہیں لیکن بس اسی پراکتفاء کرتے ہوئے یہاں سے جانے میں عافیت سمجھتے ہیں ۔حکومت کی طر ف سے کیے گئے تعلیم ، صحت، پینے کا صاف پانی اور روز مرہ اشیاء کی فراہمی کے دعوے سفید جھوٹ ہیں۔ تھر پارکر کی چھ تحصیلوں میں بمشکل پانچ بڑے ہسپتال ہیں جن میں ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل سٹاف ، ادویات، نرسنگ سٹاف ، آپریشنز اور دوسری سہولیات ناپید ہیں۔ یہی حال تعلیم اور صاف پانی کا ہے۔انہوں نے بتایا کہ سا بق صدر الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان ڈاکٹر حفیظ الرحمان نے الخدمت تھر ڈویلپمنٹ پروگرام کا اعلان کیا تھا اور ایک کمیٹی تشکیل دی جسمیں چیئرمین نعمت اﷲ خان ایڈووکیٹ ، وائس چیئر مین ڈاکٹر تبسم جعفری، اعجاز اﷲ خان، عبد الرشید بیگ ، انجینئر عبد العزیزاور راشد قریشن وغیرہ شامل تھے۔جس کے تحت مٹھی میں ایک بڑاہسپتال MCHC تکمیل کے مراحل میں ہے جسمیں او پی دی، ایمرجنسی، آپریشن تھیٹراور لیبر روم سمیت دیگر شعبہ جات موجود ہوں گے جو کہ اپنے آخری مراحل میں ہے۔اسکے علاوہ الخدمت اپنے ماڈل طرز پر تعمیر کردہ آغوش ہومز کے طرح تھر کے بچوں کے لیے ایک ماڈل آغوش ہوم پراجیکٹ بنا رہی ہے۔

الخدمت فاؤنڈیشن سندھ کے تحت خواتین کو خوارک اور تربیت کے دینے کے حوالے سے بھی ایک نئے پراجیکٹ کا آغاز کر دیا گیا جس کے ذریعے تھرپارکر میں حالیہ اموات کو روکنے کے لیے 20 لاکھ سے زائد رقم کی ہائی جین کیٹس اور نیو ٹریشن کٹس تقسیم کی چکی ہیں ۔اس جیکٹ کے تحت تھرپارکر کے تمام متعلقہ ہسپتالوں میں داخل حاملہ خواتین اور دوسال سے کم عمر بچوں کی ماؤں کی رجسٹریشن کیساتھ ساتھ تمام رجسٹرد خواتین کو ہائی جین کٹس اور صفائی ستھرائی اور خوارک کی اشیا ء مہیا کی جارہی ہیں۔الخدمت سندھ کے صدر سید تبسم جعفری کے مطابق پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے الخدمت کے پہلے سولر انرجی واٹر پراجیکٹ نے نے تھرپارکر کے علاقے مٹھی میں کام شروع کردیا ہے اور کروڑوں روپے مالیت کے170 کمیونٹی ہیڈ پمپ،178 کنوؤیں، 15 سول سمر سبل پمپس، 2 واٹر فلٹریشن پلانٹس، 6 الیکٹرک سمرسبل پمپس ہیں جن سے روزانہ 10 ہزار سے زائد لوگ استفادہ کر رہے ہیں۔جس سے نہ صر ف بجلی کی بچت ہو گی بلکہ ہزاروں لوگ اس سے مستفید ہو نگے ۔

الخدمت فاؤنڈیشن کا تعلیم کے میدان میں بھی خدمات کا سلسلہ جاری ہے جسمیں 16 ماڈل چونرا سکول قائم کر کے پرائمری تک کی تعلیم جاری ہے اور پرائمری کے بعد کے بچوں کے لیے الگ ہاسٹل بھی ہے۔ اسی طرح صحت کے شعبے میں لیب ، کلیشن پوائنٹس اور ڈاکٹروں کی ٹیم موجود ہے جو نہ صرف علا ج معالچے کے سہولیات فراہم کرتیں ہیں بلکہ فری ادویا ت ، ہنگامی میڈکل کیمپس اور پیما کے ڈاکٹروں کی ٹیم کے ذریعے مختلف ہسپتالوں میں رضاکارانہ طور پر طبی سہولیات فراہم کرتیں ہیں اور سول ہسپتا ل مٹھی میں نرسری وارڈ کے لیے ٹریننگ اور رضاروں کا بندو بست بھی کرتی ہے۔ اسی طرح الخدمت کمیونٹی سروسز کے شعبے میں مساجد بنانا اور موسم سرما ، ہولی ، دیوالی اور ہندؤ کمیونٹی کے مختلف تہواروں پر راشن، کپڑ ے، لحاف، بسترے، تحفے وغیر ہ بھی تقسیم کرتی ہے۔ الخدمت کے تحت 3 میدیکل کیمپ لگائے گئے جسمیں مٹھی ، اسلام کوٹ اور ننگر پارکرشامل ہیں جہاں یومیہ نو سو سے زائد مریضوں کا علاج کیا جاتا رہا اور مفت دوائیں بھی دی گئیں ۔

الخدمت فاؤنڈیشن کے صدر محمد عبدالشکور نے " الخدمت تھر ڈیویلپمنٹ پروگرام" کے تحت پاکستان کے غیور عوام سے تھر کے باسیوں ،معصوم فرشتوں اور انسانیت کی بھلائی کے لیے مالی معاونت، میڈیکل ایڈ، اور راشن کی اپیل کی ہے۔ کسی بھی معاونت کے لیے 0304-1114222 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
Shahzad Saleem Abbasi
About the Author: Shahzad Saleem Abbasi Read More Articles by Shahzad Saleem Abbasi: 156 Articles with 100570 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.