" پاکستان کی آپ بیتی "

" پاکستان کی آپ بیتی "

میں پاکستان ہوں ۔ میری حالت کچھ بہتر نہیں ہے ۔ میرے بچے میرے مقروض ہیں ۔ میرے سینے میں بہت سے زخم لگے ہوئے ہیں ۔ کچھ زخم تو قسمت کی دین ہیں ۔ میرا ایک بازو ( بنگلا دیش ہی کاٹ دیا گیا لیکن کچھ زخم تو میرے اپنے بچوں کی دیے ہیں ۔ چوری ، ڈاکے ، فرقہ وارانہ فسادات ، سیاسی بدعنوانیاں ، نسلی تعصبات ، ڈاکے اور خود کش حملے یہ وہ زخم ہیں جو میرے بچوں نے مجھ کو دیے ۔ کون جانتا ہے کہ میری داستان کس قدر دل گداز ہے ۔ کون سا دل ہے جو زبان بے زبانی کو سمجھ سکتا ہے ۔۔۔۔میرے لب بند ہیں مگر میرے دل میں ایک آلاو ہے کہ اسکی تپیش کوئی اہل درد ہی محسوس کر سکتا ہے ۔ اس وقت میری حالت درگوں ہے ۔

میری ناگفتہ بے حال ، ایک شاندار ماضی کا حامل ہے ۔ عرصہ بعید کی بات ہے اس دنیا میں پیدا ہونے سے قبل کے حالات و واقعات جب بھی میرے ذہن میں آتے ہیں تو مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے میرا اس دنیا میں پیدا ہونے کا خواب خالق پاکستان کے یقین محکم ، عمل پیہم ، عظمت کردار ، بلندی نظر ، پختگی ارادہ ، جذبہ حریت و قومیت اور خلوص و ایثار کی وجہ سے شرمندہ تعبیر ہوا ورنہ ہندو و انگریز جیسی دو دھاری تلوار کے درمیان سے بچ نکلنا میرے لیے ناممکن تھا لیکن میں خالق پاکستان اور اللہ کی منشا سے ان کے درمیان میں سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا ۔

برطانوی حکومت دنیا کی بیشتر حصے پر چھائی ہوئی تھی ۔ طاقت کے اعتبار سے مضبوط ، حکومت کے رموز کے پوری طرح واقف ، انگریز کی نظر محتاط ، ذہن چالاک اور اس پر مستزا داندرون ملک کی اکثریتی ہندو قوم اس کی حاشیہ برادر لومڑی کی طرح عیار اور منافق مسلمانوں کے لیے مار آستین بنی ہوئی تھی ۔۔۔

میں وہ نہیں تھا جو وراثت میں بسنے والوں کو ملا بلکہ میری بنیادیں استوار کرنے کے لیے ہڈیاں اینٹوں کی جگہ ، گوشت گارے کی جگہ اور خون پانی کی جگہ استعمال ہوا ہے ۔ اتنی گراں قدر تخلیق کا اندازہ صرف وہ ہی لگا سکتا ہے جس نے میری تعمیر میں حصہ لیا اور اپنا تن من دھن ، بیوی بچے ، بہن بھائی اور ماں باپ کو قربان کیئے ۔ میں یوں ہی حاصل نہیں ہوا تھا بلکہ میرے حصول کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا ۔ کتنی ماوں کے سامنے ان کے بچوں کو قتل کر دیا ۔ کتنے بے بسوں کے سامنے ان کے خاندان والوں کو گھروں میں بند کر کے ان کو نذرآتش کر دیا ۔ پاک دامنوں نے کنووں اور ندیوں میں ڈوب کر میری جان کی قیمت ادا کی ۔

1947ء کو وہ مبارک دن تھا جب میں دنیا کے نقشے پر ابھرا ۔ ہندوں نے اور انگریزوں نے طرح طرح کی رکاوٹ پیدا کی اور میری مخالفت کی مگر یہ اللہ کا احسان تھا کہ میں بن کر رہا ۔ اس وقت مسلمانوں کی زباں پر ایک ہی نعرہ تھا :

لے کر رہیں گے پاکستان
بن کر رہے گا پاکستان

دشمنوں نے قائد اعظم کی اس تجویز کی تضحیک کی اور میری مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر میرا مطالبہ حق و صداقت پر مبنی تھا اور حق کو منوا کر رہتا ہے اور دشمنوں کے اعزائم خاک میں مل جاتے ہیں ۔ آج میں اپنی عظمت کو دنیا میں تسلیم کروچکا ہوں ۔ بعض میرے بچے مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں ، بانی عقیدت سے محبت کرتے ہیں اور ان مجاہدین کے لیے مغفرت کرتے ہیں جنھوں نے میرے حصول کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور تاج برطانیہ کے خلاف اپنے گھر بار کو قربان کیا ۔ سلاسل اور زندان کی سختیوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا ۔ ایسی عظمت والوں کو میں سلام پیش کرتا ہوں ۔ جب آزادی کے جذبے سے سرشار ہوگئے تو زندان کی دیواریں لرز اٹھیں ۔

فرنگی استعمار کو زوال آگیا اور غلامی کی زنجیریں موئے آتیش دیدہ بن گئیں ۔

قدرت نے مجھے ہر نعمت سے نوازا ہے ، دریاوں ، ندی اور نالوں کی افراط ہے ۔ جس سے زمین سیراب و آباد جاری ہے ۔ میرے نوجوان بچے تنو مند ، حوصلہ مند اور ہنر مند ہیں ۔ میرے دل میں ایک خوف تھا جو مجھے کو ہر وقت بے چین رکھتا تھا ۔ اور غم کے ملے جلے عالم میں میری زندگی گزر رہی تھی کہ ایک دن کچھ لوگ میرے بچوں کے ساتھ آکر رہنے لگے وہ لوگ کوئی عام لوگ نہیں تھے فسادات برپا کرنے والے لوگ تھے ۔ پھر کیا تھا روز میرے معصوم بچے مرنے لگے ، میرے اندر سے روز دھماکوں اور گولیوں کی آوازیں گونجنے لگیں ۔ میرا جسم گداز باب بن گیا ۔ اشک و آہ کا ایک جگر پاش سلسلہ ہے ۔ آزادی کے نام پر سیکنڑوں روشن و رعنا چہرے بارود و دھماکوں کے دھواں سے دھندلانے لگے ۔ میری نگاہ اپنے اوپر اٹھتی تو میں اپنے بچوں کی حالت دیکھ کر خون کے آنسو رونے لگتا ۔ وہاں مجھے خون سے لت پت لاشیں ، زخمی جنازوں کی لمبی قطاریں اور میزائلوں کے کھوکھلے حصے دکھائی دیتے جس نے مجھے جگہ جگہ سے زخمی کر دیا ۔ میرے ذہن میں بارود کی بو بس چکی تھی اور مجھے کچھ ایسے دہشت گرد دکھائی دے رہے ہیں جو میری جڑیں اندر ہی اندر کھوکھلی کرنے میں مصروف ہیں افسوس کہ یہ بھی میرے جسم کا حصہ ہیں پر نجانے مجھ سے کس بات پر خفا ہیں اور مجھ سے غداری کرنے پر مجبور ہیں ۔ لوگوں کی چیخنے اور چلانے کی آوازیں میرے اندر خوف کی لہر دوڑا دیتی ہیں

۔ مجھے میرے بچوں کی خون سے لت پت لاشیں دکھائی دیتی ہیں ، سفید کفن میں لیپٹے ابدی نیند معصوم چہرے دکھائی دیتے ہیں ۔ میری مضبوط شاخیں ٹوٹ کر پیوند خاک ہوچکی ہیں ۔ معصوم پھول خون میں لتھڑے ہوئے ہیں اور ٹوٹ کر منوں مٹی تلے دفن ہوچکے ہیں ۔ میں اب ایک ویرانہ سا ہو گیا ہوں ۔ میں نے اپنے زخمی جسم کو سہلایا تو میرے جسم کے جگہ جگہ سے خون رس رہا ہے ۔ میری نرم و نازک ٹانگیں صیاد کی بے رحم گرفت میں ہیں ۔ اس نے پھر مجھے غلام کی زنجیر میں جکڑ لیا ہے ۔ اپنے آپ کو دیکھتا ہوں تو آنسو روانی میں بہنے لگتے ہیں اور اب ایسا لگتا ہے کہ میرا ایک تکلیف دہ دور کا آغاز ہو گیا ہے ۔ جو بھی آیا اس نے میرے سینے کو زخموں سے بھر دیا اور اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا ۔ ان حالات کے باوجود میں اب بھی زندہ ہوں ۔ اور اپنی ماضی کی حسین یادوں کو سہلانے کی کوشیش کر رہا ہوں کہ :
زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا
میں پاکستان اب غلامی ( امریکہ کی زنجیروں قید میں ہوں ۔ مجھے صرف اپنی قسمت سے گلہ ہے اور کسی سے بھی نہیں ۔۔۔۔۔
یہ میری آپ بیتی ہے ازل سے لے کر ابد تک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں اب تنہا رہ گیا ہوں اور اکثر شب تنہائی میں ماضی کے حسین خواب دیکھتا رہتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ شاید زندگی نا تمام آرزوں کے ہجوم کو کہتے ہیں یا شاید خلوص و وفا کے صلے میں زمانے کی سرد مہری ہی اس کا صیحیح مفہوم ہے ۔ اس امید پر میں اب تک زندہ ہوں کہ شاید کوئی قائد اعظم کی طرح ابھر کر آئے اور مجھے غلامی کی زنجیروں اور سلگتے ہوئے زخموں سے آزاد کرائے ۔ میرا ماضی ایک نالہ گداز ہے اور حال ایک آہ اور نارسا ۔۔۔

حیات ایک مستقل غم کے سوا کچھ بھی نہیں شاید
خوشی بھی یاد آتی ہے تو آنسو بن کر آنسو بن کر آتی ہے
Mahvish Waqas
About the Author: Mahvish WaqasCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.