جب ، جیسے اور جہاں مرضی

تو جناب، بات کا مقصد یہ ہے کہ مختلف طبقاتی نظام کا ہونا ایک سسٹم ہے جو شروع سے چلتا آ رہا ہے...امیر و غریب کا فرق رہتا ہے اور ہمیشہ رہے گا کہ یہ رب کی آزمائش کا ایک حصہ ہے ...مگر جو چیز یہ فرق کم یا ختم کر سکتی، وہ ہے " سوچ و عملی کوشش"..اگر تو آپ اپنی موجودہ لائف سٹائل و سٹیٹس پر دل سے راضی ہیں ، رب سے کوئی شکوہ و شکایات نہیں، تب تو پھر قلبی سکوں کے ساتھ خوشی سے جئیں....
ہم کتنی خواہشیں رکھتے ہے...کتنے خواب ہوتے ہیں...ہم کتنا ترستے ہیں....کاش ہمیں وہ مل جائے...کاش ہم ایسے بن جائیں....کاش ہم وہ خرید سکتے...کاش ایسا ہو جائے...کاش ویسا ہو جائے.... وغیرہ وغیرہ یہ سب سوچنا اور پھر پورا کرنا کو منصوبہ بنانا فطری باتیں ہیں..اندر بس ایک خواہش ہوتی ہے کہ بس " جلدی" سے ہو جائے سب...ہم جو چاہیں بس وہ فورا ہو جائے....

کسی خواہش کا خاص طور پر مادی خواہش کو پورا کر لینا اکثر خوشحال لوگوں کے لئے بہت آسان ہوتا ہے..جہاں لوگ چند سو میں پورا دن گزارتے ہیں، وہاں اکثر لوگ ہزاروں ایک وقت کے کھانے یا پہناوا میں ہی آسانی سے خرچ کر دیتے ہیں...کسی کو ایک اچھی چیز خریدنے کو پتا نہیں کتنی بچت کرنی ہو، کتنی ہی ضرورتوں سے اپنا من مارنا پڑتا ہو، کتنی ہی تنخواہوں میں کچھ جوڑ جوڑ کر علحیدہ رکھنا ہو ..کسی سے قرض مانگنا پڑتا ہو، کمیٹی ڈالنی پڑتی ہو اور پتا نہیں کیا کیا ....

دوسری طرف پھر ایسے لوگوں جن کی صرف ایک دن کی کمائی شاید آپ کے ایک مہینہ کی تنخواہ کے برابر ہو انکو ضروری ضرورتوں اور اکثر خواھشات کو پورا کرنے کے لئے لمبے چوڑے منصوبے یا بچتیں نہیں کرنی پڑتی...انکو بھوک لگے تو کبھی بھی کچھ بھی کہیں بھی جا سکتے منگوا سکتے، اپنے یا گھر والوں کے لئے خریدنا ہو تو بہتر سے بہترین جگہ جا کر شاپنگ کر سکتے اور ساتھ ساتھ رب کی راہ میں بھی آسانی سے خرچ کر سکتے.

تو جناب، بات کا مقصد یہ ہے کہ مختلف طبقاتی نظام کا ہونا ایک سسٹم ہے جو شروع سے چلتا آ رہا ہے...امیر و غریب کا فرق رہتا ہے اور ہمیشہ رہے گا کہ یہ رب کی آزمائش کا ایک حصہ ہے ...مگر جو چیز یہ فرق کم یا ختم کر سکتی، وہ ہے " سوچ و عملی کوشش"..اگر تو آپ اپنی موجودہ لائف سٹائل و سٹیٹس پر دل سے راضی ہیں ، رب سے کوئی شکوہ و شکایات نہیں، تب تو پھر قلبی سکوں کے ساتھ خوشی سے جئیں.... مگر جہاں آپ کو دوسروں سے مانگنا پڑتا ہو، اپنی گھریلو حالت دوسروں کو بیان کرنا پڑتا ہو، خود پر ترس آتا ہو، رب کے دیے پر راضی نہیں، پریشانی و ڈپریشن میں ہیں.. تو پھر جناب آپ ذرا سوچ بدلئے، ہمت کیجئے اور عملی کوشش سے اپنے حالات بدل لیجئے...

آخر میں اتنا ہی کہ خود پر ترس کھاتے رہنا اور خود کو لاچار و مجبور سمجھنا رب کی عطا کردہ زنندگی کی بےحد نا شکری ہے کیوں کہ ہر انسان" احسن تقویم" ہے ...ہر بندہ کے اندر بھرپور قابلیت و صلاحیت ہے جس کو مثبت و مضبوط سوچ کے ساتھ نکھارنے کی ضرورت ہے... سمجھ آ گئی ہو تو آس پاس کے لوگوں کو بھی یہ بتا دیں کہ دنیا کا ہر خوشحال، امیر و اچھا طاقت وار آدمی بھی پہلے بچہ ہی ہوتا ہے... گھٹنوں کے بل چلتا ہے....کرال کرتا ہے.... تھوڑا تھوڑا کھڑا ہوتا ہے ...گرتا ہے ، پھر کھڑا ہوتا ہے ....چھوٹے چھوٹے قدموں سے چلنا شروع کرتا ہے اور پھر بھاگنا شروع کر دیتا ہے...جب ، جیسے اور جہاں مرضی.
Mian Jamshed
About the Author: Mian Jamshed Read More Articles by Mian Jamshed: 111 Articles with 171863 views میاں جمشید مارکیٹنگ کنسلٹنٹ ہیں اور اپنی فیلڈ کے علاوہ مثبت طرزِ زندگی کے موضوعات پر بھی آگاہی و رہنمائی فراہم کرتے ہیں ۔ ان سے فیس بک آئی ڈی Jamshad.. View More