دینی مدارس کے طلبہ کا ساتھ دیں

ایک مثالی اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے دینی مدارس کا مستحکم و منظم ہونا انتہائی ضروری ہے۔ دینی مدارس اور علمائے کرام نے جس معاشرے میں بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کیں، وہ معاشرہ ہمیشہ دینی اقدار کا علمبردار رہاہے۔ علمائے کرام، دینی مدارس اور اسلامی مراکز کی سب سے بڑی ذمہ داری اسلامی نظریات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ موثر اور منظم طریقے سے دینی احکام کی نشرواشاعت اور اسلام کے خلاف کھلنے والے ہر محاذ کا مقابلہ کرکے دین برحق کو قرآن و سنت کے سر چشمہ سے لے کر زمانے کے فہم میں ڈھال کر عصر حاضر کی زبان میں آگے منتقل کر نا بھی ہے۔ عصر حاضر میں تمام چیلنجز کے مقابلے کے لیے دینی مدارس کے طلبہ کو باقاعدہ تیار کرنا منتظمین کی ذمہ داری ہے۔ وارثان نبوت کا مطالعہ و تحقیق کے ذریعے معترضین کے لیے مسکت جواب تیار کرنا اور عمدہ بیان و تقریر اور بہترین انداز تحریر پر عبور حاصل کرنا ضروری ہے۔ طلبہ کی ذمہ داری جلسوں میں نعرے بازی کرنا نہیں، بلکہ عصر حاضر میں امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنا اور معاندین کو انہیں کی زبان میں موثر انداز میں جواب دینا ہے۔

آج دین اسلام کے خلاف بہت ہی منظم انداز میں علمی و فکری سطح پر جدوجہد کی جارہی ہے۔ الحاد، استشراق، سیکولرازم، لبرل ازم اور نجانے کون کون سے عنوانات سے سادہ لوح مسلمانوں کو تشکیک میں مبتلا کر کے راہ راست سے ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دشمنان اسلام اپنے مذموم مقاصدکی تکمیل کے لیے بھرپور محنت کے ساتھ نہ صرف کوشاں ہیں، بلکہ کامیابیاں بھی سمیٹ رہے ہیں۔ معاشرے میں مستشرقین، ملحدین، مغرب کی فکری و تہذیبی یلغار اور دیگر مخالفین اسلام کی کامیابیوں کو دینی مراکز کی اپنی ذمہ داریوں سے بے توجہی کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ مخالفین اسلام اہل اسلام کو اسلام سے بدظن کرنے کے لیے جس محنت اور جستجو سے کام کررہے ہیں، دینی مدارس کو اس سے کہیں زیادہ تحقیق و جستجو اور محنت کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج دیگر مسالک کے رد سے کہیں زیادہ محنت الحاد، استشراق، سیکولرازم، لبرل ازم ، مغرب کی فکری و تہذیبی یلغار سمیت بہت سے جدید فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار ہے۔

مستشرقین نے اسلام،قرآن، حدیث، سیرت، تفسیر، فقہ اور اسلامی علوم پر اعتراضات کرنے کے لیے اپنی پوری زندگیاں وقف کردی ہیں۔ اسلامی علوم میں خامیاں ڈھونڈنے کے لیے اسلامی علوم کو اتنا زیادہ پڑھا کہ ہمارے ہی متعدد علوم پر ہم میں سے بہت سوں سے زیادہ عبور حاصل کرلیا ہے،بلکہ اسلام دشمنی میں انہوں نے اس قدر تحقیق کی کہ بہت مرتبہ ان کی کی ہوئی تحقیق خود ہمارے لیے مفید ثابت ہوتی ہے۔ ملحدین دین متین اسلام پر ایسے ایسے اعتراضات کرتے ہیں کہ مدارس کے طلبہ ان کے جوابات دینے سے قاصر ہوتے ہیں، کیونکہ انہیں اس ضمن میں تیار ہی نہیں کیا گیا ہوتا ہے۔ ان حالات میں اگر امت کے رہنمایان وقت کی نزاکت کا احساس نہیں کرتے تو بعید نہیں کہ معاشرہ ان کے ہاتھوں سے نکل جائے۔ اگرچہ دینی مدارس گوناگوں مشکلات ومسائل کا شکار ہیں، وسائل کی کمی ہے، لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ہمارے اسلاف نے بھی وسائل کی کمی کے باوجود ہی حیران کن حد تک علمی و تحقیقی ذخیرے چھوڑے ہیں، اس دور میں ہمارے پاس کم از کم ان سے تو زیادہ ہی وسائل ہیں۔

اسلام کے خلاف کھلنے والے جدید فکری محاذوں کے خلاف ملک میں اجتماعی سطح پر کوئی بڑا تحقیقی کام نہیں ہورہا، جہاں دینی مدارس کے باصلاحیت طلبہ کو اپنی خدمات پیش کرنے کا موقع مل سکے اور رہنمائی اور حوصلہ افزائی سے وہ کچھ منفرد پیش کرسکیں۔ اگر کوئی فاضل یا طالب علم اپنی ذاتی دلچسپی اور کاوش کی بنا پر کوئی تحقیقی سامنے لے کر آتا ہے تو اس کی اس قدر حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی، جس کا وہ مستحق ہوتا ہے، حالانکہ حوصلہ افزائی ضروری ہے۔ دینی مدارس میں طلبہ کو امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز کے مقابلے کے لیے تیار کرنا، ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرنا انتہائی ضروری ہے۔ طلبہ کو تحقیق کے لیے عصر حاضر میں امت مسلمہ اور ہمارے معاشرے کو درپیش مسائل سے متعلق مختلف موضوعات دے کراساتذہ کی نگرانی میں مطالعہ کروایا جائے اور ان موضوعات پر مقالاجات لکھوائے جائیں۔ مدارس کی سطح پر ملک میں ایک ایسا ادارہ قائم ہونا چاہیے،ملک کے تمام شہروں میں جس کی ذیلی شاخیں ہوں۔ دینی مدارس کے طلبہ کی حوصلہ افزائی کرنا، اگر ضرورت ہو تو معاشی معاونت کرنا اور اسلام پرجدید اعتراضات کے جوابات سے لیس کر کے قوم کے سامنے لانا جس کی ذمہ داری ہو۔ مدارس میں لکھے گئے مقالاجات میں سے اگر کوئی تحقیقی کام اچھا کیا ہوا اور وہ قوم و ملت کا لیے نفع بخش ہوسکتا ہے تو اسے شائع کروانے کی بھی کوئی ترتیب بنائی جائے۔ یہ ادارے وقتا فوقتا ہر شہر کی سطح پر مختلف پروگرامات کا انعقاد کریں، جن میں طلبہ کا تحقیقی کام منظر عام پر لایا جائے اور اس پروگرام میں شریک طلبہ کو انعامات سے نوازا جائے۔ اس سے یقینا تمام طلبہ میں تحقیقی کا م کا ذوق پروان چڑھے گا۔ اہل یورپ نے اپنے طلبہ میں تحقیقی ذوق کو پروان چڑھایا اور اپنے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جس سے تاریک ماضی رکھنے والے یورپین آج پوری دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں، جبکہ ہم تحقیقی اور علمی ذوق کو خیرباد کہہ کر پستی کی گہرائیوں میں جاگرے۔ اگر دینی مدارس کے طلبہ کا ساتھ دیا جائے اور ان کے ساتھ تعاون کیا جائے تو یقینا وہ اپنی تمام ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے عصر حاضر کی توقعات پر پورا اتریں گے۔
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 632534 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.