معاشی تغاوت اپنے ہی لوگوں پہ ظلم

کیا پاکستانی عوام کو ایسی قیادت میسر نہیں آسکی جو کہ اِس کا قبلہ درست کرسکے ہمارے معاشرے میں ریجنل ڈسپیرٹی نے جس طرح قومی یک جہتی کو پارہ پارہ کر رکھا ہے اس بات کا ادراک لیڈر شپ کو بھی ہے عدلیہ اور فوج کے ادارے بھی اِس حقیقت سے آشنائی رکھتے ہیں،اُس کے باوجود کہیں سے بھی خیر کی خبر نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ بھی قومی یک جہتی کے حوالے سے ماضی قریب میں کیا گیا وہ ٹیبل ٹاک اور میڈیا کی حد تک رہا اُس سے آگے اگر بڑھا ہوتا تو بلو چستان آج لہو لہو نہ ہوتا آج کراچی کے در ودیوار معصوم لہو کی تحریروں سے کانپ نہ رہے ہوتے۔ خیبر پختون خواہ صوبہ دہشت گردی کے چنگل سے رہا ہو چکا ہوتا۔قانون کے طالب علم ہونے کے ناطے راقم کی رائے میں پاکستان کے تمام خطوں کے ساتھ برابری کی بنیادوں پر معاشی سلوک نہ ک رکے ایسا بیج بویا گیا ہے کہ اِس کا شاخسانہ ہم ماضی میں سقوطِ ڈھاکہ کی شکل میں دیکھ چکے ہیں۔ انسانی آزادیوں کے حوالے سے ہمارے ملک کا ٹریک ریکارڈ کسی صورت بھی تسلی بخش نہیں ہے حتیٰ کہ پرویز مشرف کے دور میں گمشدہ افراد عدالت عظمیٰ کی سر توڑ کوشش کے باوجود آج تک برآمد نہیں کیے جاسکے۔پاکسانی ایجنسیوں کا کردار کا ذکر تو بہت ہوتا ہے اور اُن کے خلاف باقاعدہ کئی مرتبہ محاذ بھی کھڑا کیا گیا لیکن ہنوز دلیٰ دور است۔ ہمارے ایک طرف عیار دشمن بھارت جو تقسیم ہندکو پاپ کہتا ہے دوسری طرف امریکی سرکردگی میں پوری دنیا کی افواج افغانستان میں خون کی ہولی کھیلنے کے بعد اب کسی اور شکا رکی طرف دیکھ رہی ہیں۔ کشمیر کا معاملہ ہنوز حل طلب ہے۔ ان حالت میں تو پاکستانی معاشرے کو اندرونی معاذ پر انتہائی مضبوط ہونا چاہیے ۔لیکن حالات ہیں کہ ناقابلِ بیان ہیں ۔ 1) بے روزگاری عروج پر ہے 2 ( انرجی کے بحران نے معیشت کا دھڑن تختہ کر دیا ہے(3 عوام گرمی کی چیرہ دستیوں اور حبس کے موسم میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بجلی سے محروم ہیں۔

4 ( تعلیم کا میدان ہو یا صحت عامہ کی سہولتیں ہر طرف ہی لٹیا ڈوبی ہوئی ہے۔ ایسے میں نئی حکومت سے کسی چھو منتر کی توقع رکھنا عبث ہے یقینا یہ بات قابل اطمینان ہے کہ پاک فوج کا مورال بلند ہے اور وہ ہرو قت دفاع وطن کے لیے تیار ہے اور گزشتہ کئی سالوں سے حالتِ جنگ میں ہے ۔ اِس کے باوجود کہ حالات کسی جانب بھی تسلی بخش نہیں ہیں لیکن معاشرے کو ہر صورت میانہ روی کی ضرورت ہے۔

حکومت کرنے والوں کی یقینا اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں لیکن پاکستان کے چاروں صوبوں، بشمول گلگت بلتستان و آزاد کشمیر کو ہر حال میں ترقی کے یکساں مواقع ملنے چاہیں۔ اس مقصد کے لیے آئینِ پاکستان مشعلِ راہ ہے تاکہ کسی ایک بھی فرد کو کسی بھی طرح سے اُس کے حق سے محروم نہ رکھا جائے۔ سکول کالج ، ہسپتال، کارخانے ، پارک ، سڑکیں ڈیم پُل، ذرائع نقل وحمل ، روزگار کے مواقع وغیرہ پاکستان کے ہر خطے میں رہنے والے ہر فرد کا حق ہیں۔ بلوچستان کا دور افتادہ گاؤں، سندھ کا گوٹھ، خیبر پختون خواہ کا قبائلی علاقہ ، کشمیر دھرتی کے سنگلاخ چٹانوں میں رہنے والوں، گلگت بلتستان کی وادیوں سب کے رہنے والوں کا پاکستان کی ایک ایک انچ پر برابر کا حق ہے پاکستان کے تمام وسائل سب کے لیے ہیں۔ میڈیا کی آزادی نے کافی حد تک آگاہی دی ہے اور اب کسی بھی علاقے کے افراد کو اُن کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنا مشکل ہے۔

معاشرتی رہن سہن اور رواجات میں معاشی حالات کا بہت گہرا تعلق ہے اور معاشی حالات درست سمت تک اُس وقت تک نہیں کیے جاسکتے جب تک ملکی عوام امن وسکون کی زندگی بسر نہ کر رہے ہوں۔ انسانی بنیادی ضروریات عوام کے مفادات کی ذمہ داری جن محکموں پر قانونی طور پر لاگوہے اُن کی طرف سے چشم پوشی اور کوتاہی موجودہ دور میں بہت بڑا المیہ ہے۔ جب قانون پر عملدرآمد نہ ہورہا ہو تو پھر معاشرئے کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ اس لیے حکمران حاکمیت کے مزے لوٹنے کی بجائے عوامی خدمت کو پیشِ نظر رکھیں کیونکہ اگر اب بھی موجودہ حکمرانوں نے سابقہ حکمرانوں کی طرح عوام کو نوچنا بند نہ کیا تو پھر معاشرتی زوال اُن کا مقدر ہوگا تب اُن کی حکمرانی قائم نہ رہ سکے گی کیونکہ حکمرانی کرنے کے لیے سابقہ حکمرانوں نے پورے ملک کو میں افراتفری کی جو آگ لگا رکھی تھی جس میں اب تو عوام جل رہے ہیں اُس کے بعد اِس آگ میں جلنا ِاُن سابقہ حکمرانوں کا مقدر ٹھر گیا ہے۔ کس قدر المیہ ہے کہ جب کوئی بھی شخص آئین کی پاسداری کی بات کرتا ہے تو اُسے سازشی گردانا جاتا ہے۔ قران جیسا کوڈ آف لائف رکھنے کے باوجود اور نبی کریمﷺ کے پیروکار کہلوانے کے باوجود ہمارے معاشرے میں جو درگت عام آدمی کی بنی ہوئی ہے اس سے تو یہ بات قرین قیاس ہے کہ خدانخواستہ یہ انسانی معاشرہ ہی نہیں ہے بلکہ حیوانات کی حیوانیت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ہمار ا معاشرے تو بیچارہ جنگل کے قانون سے بھی محروم ہے یہاں تو انصاف بکتا ہے اور اشرافیہ اِس کی خریدار ہے۔ طاقت کے نشے میں دھت اشرافیہ ملک کے غریب طبقے کو کچلنے پر تُلی ہوئی ہے۔ عام انسان کی نہ تو عزت محفوظ ہے اور نہ زندگی۔ معاشرتی طور پر دیکھا جائے جس طرح کا نظام ہمارے ہاں پنپ چکا ہے ایسے نظام سے یہ توقع لگائے رکھنا کہ یہ نظام عام آ دمی کی حالت بدلے گا ، دن میں خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔ ہمارے معاشرے میں بغاوت سی کی صورت حال پیدا ہوتی جارہی ہے۔بیروزگاری کا جن کسی طور بھی قابو میں نہیں آرہا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان کسی طور بھی اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں لیڈر ثابت نہیں کر پارہے لیڈر وہ نہیں ہوتا جو کہ صرف اپنے پیٹ پر ہی ہاتھ پھیرے۔ لیڈر عوام کے لیے باپ جیسا ہوتا ہے اور باپ کا کام صرف محبتیں بانٹنا اور احساس کرنا ہوتا ہے ۔ ہماری سوسائٹی میں کاش محمد علی جناحؒ کی شخصیت جیسا رہنماء ہمیں کوئی میسر آجائے۔تو یقیناً پاکستانی عوام ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے چُنگل سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ عوامی شعور تو بیدار ہے لیکن رونا تو اس نظام کا ہے یہ نظام درحقیت مسائل کی جڑ ہے۔ مصطفے کریمﷺ نے جو نظام وضع فرمایا ہے وہ معاشرے سے بے چینی دور کرنے کا نہ صرف داعی ہے بلکہ معاشرے میں امن وسکون کی ضمانت ہے۔ امریکی پٹھو ہر صورت میں امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ پاکستان کا انتظامی ڈھانچہ ایسی صورت حال اختیار کرچکا ہے کہ جھوٹ کرپشن کا دور دوراں ہے ۔امن عامہ کی صورتِ حال کا مخدوش ہونا اس بات کی دلالت کرتاہے کہ معیشت کی بربادی کی ذمہ داری امن و عامہ کی گھمبیر صورت حال پر ہے۔ طاقت کا توازن اس سوسائٹی میں ہمیشہ عوام مخالف رہا ہے۔ عوام کی شنوائی کہیں بھی نہیں ہے آئین پاکستان کے آرٹیکل2 6 اور 63 کے معیار پر کونسا عوامی نمائیندہ پورا اُترتا ہے۔ کونسلر بننے کے لیے تھانے کچہری کی سیاست کرنا پڑتی ہے ایم این اے اور ایم پی اے بننے کے لیے کیا کیا کچھ نہیں کرنا پڑتا ہے۔آزادی کے حقیقی ثمرات عوا م الناس تک نہ پہنچنے کی وجہ سے مشرقی پاکستان کی جدائی ہوئی۔
MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 452 Articles with 384236 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More