مجاہد کامران کی قیادت میں پنجاب یونیورسٹی کا نیا دور

اسپین کے سب سے بڑے پبلک سیکٹر ریسرچ کے ادارے Consejo Superior de Investigaciones Científicas (CSIC)،’ویبومیٹرکس رینکنگ آف ورلڈ یونیورسٹیز ‘ Webometrics) (کی جانب سے دنیا بھر کی 24 ہزار یونیورسٹیوں کی حالیہ رینکنگ کے مطابق پاکستان کے 291 اداروں میں پنجاب یونیورسٹی کو پہلے نمبر پر قرار دیا گیا ہے اور جنوبی ایشیاء کے 2107 اداروں میں پنجاب یونیورسٹی نے15ویں پوزیشن حاصل کی ہے جبکہ پنجاب یونیورسٹی کا شمار دنیا کی 8 فیصد بہترین یونیورسٹیوں میں کیا گیا ہے۔ جو پاکستان اوربالخصوص پنجاب کیلئے ایک تاریخی کامیابی اوربیش قیمت اعزاز ہے۔ یاد رہے CSIC واحد عالمی ادارہ ہے جو دنیا بھر میں اتنی بڑی تعداد میں ڈگریاں جاری کرنے والے اداروں کی رینکنگ کرتا ہے۔

پروفیسرڈاکٹر مجاہد کامران کو جنوری 2008ء میں پنجاب یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقررکیا گیا اوریوں یونیورسٹی کے تمام شعبہ جات کی تعلیمی و تحقیقی ترقی کانیادورشروع ہوا اور مختلف اقدامات کئے گئے ۔ہم نصابی سرگرمیوں کو بھی ترجیحات میں خاصی اہمیت دی گئی ۔ ان اقدامات کے باعث پنجاب یونیورسٹی کا معیار آج سے آٹھ سال قبل جہاں تھا ، اعداد و شمار کے مطابق اس سے کئی گنا زیادہ بلند ہو چکا ہے ۔ڈاکٹر مجاہد کامران کی قیادت میں پنجاب یونیورسٹی میں غیر سیاسی ماحول قائم ہواایک مخصوص تنظیم کی بیجا مداخلت اوراس کے اثرو رسوخ کو ختم کیا گیا جس سے خالصتاًتعلیمی و تحقیقی سرگرمیوں کو تقویت ملی،اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ اور طلباء و طالبات کو ایک آزاد تعلیمی فضاء میسر آئی۔ وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کی جانب سے تاریخی قومی اقدام کے تحت پنجاب یونیورسٹی کے ہر شعبے کے ہر پروگرام میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات کیلئے ایک ایک نشست مخصوص کی گئی ہے۔ بلوچستان کے 325 طلباء کو مفت تعلیم اور مفت رہائش کی سہولیات کے ساتھ ساتھ 3000 روپے ماہانہ فی طالب علم وظیفہ دیا جا رہا ہے جس سے بلوچستا ن کے نوجوانوں میں پاکستان کے د وسرے صوبوں کے ساتھ محبت اور جذبہ حب الوطنی پنپ رہا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے اس پروگرام کو تمام سیاسی ، سماجی و تعلیمی حلقوں کی طرف سے سراہا گیا۔

کسی بھی یونیورسٹی کی ترقی اور معیار کو چند پیمانوں پر پرکھا جاتا ہے پنجاب یونیورسٹی نے ان تمام شعبہ جات میں کس قدر ترقی کی ،اس بارے حقائق کچھ یوں ہیں ۔یونیورسٹیوں کا بنیادی مقصد نئے علم کی تخلیق ہوتا ہے۔ کسی بھی یونیورسٹی کے اساتذہ کے کتنے تحقیقی مقالات یعنی نئے علم پر مبنی مقالات عالمی شہرت یافتہ جرائد (امپیکٹ فیکٹر جرائد )میں شائع ہوئے؟موجودہ انتظامیہ کے چارج لینے سے قبل سال 2007 میں صرف 162 تحقیقی مقالہ جات امپیکٹ فیکٹر جرائد میں شائع ہوئے جبکہ 2014 میں ان کی تعداد بڑھ کر 605 ہو گئی۔یونیورسٹی میں تحقیقی سرگرمیوں کے فروغ اور محققین کی حوصلہ افزائی کے لئے کتنے فنڈز فراہم کئے گئے؟

2007-08 میں سابق انتظامیہ نے تحقیقی سرگرمیوں کے لئے صرف 20 لاکھ روپے مختص کئے تھے جبکہ موجودہ انتظامیہ نے یہ رقم 2011-12 میں بڑھا کرسات کروڑ پچاس لاکھ روپے کی اور موجودہ مالی سال 2015-16 میں 11 کروڑ روپے تحقیق کے لئے مختص کئے۔ یونیورسٹی میں کتنے اساتذہ پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر ہیں؟ جتنے ذیادہ اساتذہ پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر ہوں گے اتنا ہی تحقیقی معیار بلند ہو گا۔

2008 میں پنجاب یونیورسٹی کے 710 اساتذہ میں سے صرف 210 اساتذہ یعنی 29 فیصد اساتذہ پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر تھے جبکہ 2015 میں 1081 اساتذہ میں سے 546 اساتذہ یعنی 50 فیصد اساتذہ پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر ہیں۔ یونیورسٹی ہر سال کتنے پی ایچ ڈی پیدا کر کے ملک کے مختلف شعبوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادی قوت فراہم کر رہی ہے؟ 1990 سے لے کر 2007 تک یعنی 17 سالوں میں پنجاب یونیورسٹی نے صرف 734 پی ایچ ڈی پیدا کئے۔ جبکہ موجودہ انتظامیہ نے پی ایچ ڈی پروگرام مضبوط کیا اور 8 سالوں میں 1153 پی ایچ ڈی پیدا کئے۔ جبکہ سال 2012 میں 200 سے زائد پی ایچ ڈی پیدا کر کے ریکارڈ قائم کیا۔

ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر کتنے طلباو طالبات زیر تعلیم ہیں؟2007 میں صرف 300 ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلباء و طالبات رجسٹرڈ تھے جبکہ سال 2014 یہ قلیل عدد بڑھ کر 5238 تک پہنچ گیا۔ یونیورسٹی مالی اعتبار سے کس حد تک مستحکم ہے ؟ کیا یونیورسٹی کے پیسے کا درست استعمال کیا جا رہا ہے؟موجودہ انتظامیہ کی کفایت شعارانہ اور دانشمندانہ معاشی حکمت عملی کے باعث پنجاب یونیورسٹی کی سرمایہ کاری جو کہ 2008 میں 1.8 ارب روپے تھی، 2015 میں بڑھ کر 5.7 ارب روپے ہو گئی۔ اسی طرح 2008 میں ریسرچ انڈومنٹ فنڈ 16.4 ملین تھا جو بڑھ کر 600 ملین روپے ہو گیا۔ ملازمین کی پنشن کی ادائیگی کے لئے کوئی انڈومنٹ فنڈ قائم نہیں تھا۔ موجودہ انتظامیہ نے 3.42 ارب روپے کا پنشن انڈومنٹ فنڈ بھی قائم کیا۔ اگر یونیورسٹی کے مالی معاملات میں گڑ بڑ ہوتی تو یونیورسٹی کو کبھی بھی معاشی استحکام نہ ملتا۔ یونیورسٹی کے کتنے اساتذہ بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کرتے ہیں جو بین الاقوامی سطح پر علم و تجربے کے تبادلے اور اساتذہ کی تحقیقی صلاحیتوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے؟2004-2007 تک یعنی چار سالوں میں صرف 28 اساتذہ نے بیرون ممالک بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ جبکہ صرف سال 2014-15 میں یونیورسٹی انتظامیہ نے 241 اساتذہ کو بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کے لئے بیرون ممالک بھیجا۔ گزشتہ ساڑھے سات سالوں میں تقریباََ 744 اساتذہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کے لئے بیرون ممالک بھجوایا گیا۔2004-2007 تک یعنی چار سالوں میں صرف 28 اساتذہ نے بیرون ممالک بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ جبکہ صرف سال 2014-15 میں یونیورسٹی انتظامیہ نے 241 اساتذہ کو بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کے لئے بیرون ممالک بھیجا۔ گزشتہ ساڑھے سات سالوں میں تقریباََ 744 اساتذہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کے لئے بیرون ممالک بھجوایا گیا۔یونیورسٹی میں کتنی قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں کا انعقاد ہو رہا ہے؟ موجودہ انتظامیہ کے چارج لینے سے قبل قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں کے انعقاد کا کلچر موجود نہ تھا۔ سال 2008 میں صرف 9 کانفرنسوں کا انعقاد ہوا جبکہ سال 2014 میں پنجاب یونیورسٹی میں 83 کانفرنسیں منعقد ہوئیں جن میں 73 قومی کانفرنسیں اور 14 بین الاقوامی کانفرنسیں شامل ہیں۔یونیورسٹی کے طلباء و طالبات کی ہم نصابی سرگرمیوں میں کیا کارکردگی ہے؟2008ء تا 2014ء کے دوران یونیورسٹی طلبہ نے کل1167انعامات جیتے جس میں 190ٹیم ٹرافیاں، 462پہلی پوزیشنز، 310سیکنڈ پوزیشنز اور 205 تیسری پوزیشنز شامل ہیں۔اسکے علاوہ طلباء نے ماڈل یونائیٹڈ نیشنز تقریری مقابلہ جات میں 54انعامات حاصل کئے ۔ ان مقابلوں میں جرمنی ، اسرائیل، فرانس سمیت کئی مغربی ممالک کے طلباء وطالبات نے حصہ لیا جنہیں پنجاب یونیورسٹی کے طلباء و طالبات نے ہرا کر پاکستان اور پنجاب یونیورسٹی کا نام حیرت انگیز طور پر روشن کیا۔یونیورسٹی طلبہ نے کامن ویلتھ گیمز میں ریسلنگ کے مقابلوں میں گولڈ میڈل کے علاوہ جنوبی ایشین خواتین کرکٹ میں بھی طلائی تمغہ جیت رکھا ہے۔ سال 2015 میں بھی پنجاب یونیورسٹی کے ہونہار طلباء و طالبات نے مختلف مقابلوں میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 40 ٹیم ٹرافیاں جیتیں جبکہ 109 پہلی پوزیشنز، 47 دوسری پوزیشنز اور 36 تیسری پوزیشنز حاصل کیں۔

علم دوست ڈاکٹرمجاہدکامران کو پنجاب یونیورسٹی کے وی سی کی حیثیت سے ایکسٹینشن دی جائے۔ان کابحیثیت قائم مقام وی سی تقررکافی نہیں ،وہ بلاشبہ اپنے منصب اورمقدس مشن سے پوری طرح انصاف اورطلبہ وطالبات کو ڈیلیورکررہے ہیں لہٰذاء انہیں بھرپورمینڈیٹ اورفری ہینڈ دیا جائے ۔علم وادب اورپنجاب یونیورسٹی کیلئے ڈاکٹرمجاہدکامران کی خدمات اوراصلاحات کوفراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اساتذہ کوروحانی باپ جبکہ تعلیمی اداروں کومادرعلمی کہا جاتا ہے لہٰذاء ڈاکٹرمجاہدکامران کے بغیر پنجاب یونیورسٹی یتیم ہوجائے گی ۔ڈاکٹرمجاہدکامران یقینا اس منصب کے محتاج نہیں مگروہ پنجاب یونیورسٹی،اساتذہ اوراس کے ہزاروں طلبہ وطالبات کی ضرورت ہیں۔بطورادارہ پنجاب یونیورسٹی کی کامیابی وکامرانی کے پیچھے ڈاکٹرمجاہدکامران کاتجربہ اورجذبہ کارفرماہے ۔ ڈاکٹرمجاہدکامران نے پنجاب یونیورسٹی کوعلم وادب اورتحقیق کامرکزومحور بنادیاہے،ماضی کے مقابلے میں آج پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنیوالے تعداد میں بہت زیادہ ہیں ۔ پنجاب یونیورسٹی میں علم دوست ماحول کی بحالی کاکریڈٹ پرعزم وی سی ڈاکٹرمجاہدکامران کوجاتا ہے۔ ان کے دورمیں پنجاب یونیورسٹی کے اندر مختلف موضوعات پرریکارڈ کانفرنسیں منعقدہوئیں ۔ڈاکٹرمجاہدکامران کی نیک نیتی اورقابلیت نے پنجاب یونیورسٹی کی کایا پلٹ دی ، ڈاکٹرمجاہدکامران کیخلاف بعض عناصرکی زبانیں ضرور زہراگلتی ہیں مگر ان کاکام بولتا ہے ۔ پنجاب یونیورسٹی میں خونریزی کے واقعات کاسدباب دبنگ مجاہدکامران کی نیک نیتی اورکمٹمنٹ کانتیجہ ہے۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126533 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.