سیاست یا اقتدار کی جنگ

ایک بزرگ نے ایک بادشاہ سے پوچھا کہ اگر اتفاقاً تم شکار میں نکل جاؤ اور اکیلے رہ جاؤ اور اس وقت جبکہ تم پیاسے ہو ایک شخص تمہارے پاس ایک پیالہ پانی لائے اور آدھی سلطنت اس کی قیمت بتلائے تو تم اس کو خرید لو گے کہ نہیں؟ اس نے کہا میں ضرور خرید لوں گا۔ پھر ان بزرگ نے کہا کہ اگر اتفاق سے تمہارا پیشاپ بند ہو جائے اور کسی طرح نہ کھلے اور ایک شخص اس شرط پر پیشاب اتار دینے کا وعدہ کرتا ہے کہ باقی آدھی سلطنت اس کو دے دو تو تم کیا کرو گے۔ اس نے کہا باقی آدھی سلطنت بھی اس کو دے دوں گا تو ان بزرگ نے کہا کہ بس آپ کی سلطنت کی یہ قیمت ہے کہ ایک پیالہ پانی اور ایک پیالہ پیشاپ جس میں آپ اس قدر مست ہورہے ہیں۔

الیکشن، ووٹوں اور سیٹوں کا کھیل کھیلا جاتا ہے، داؤ پیچ لڑائے جاتے ہیں اور چالیں بدلی جاتی ہیں۔ ماضی میں تو ان دنوں اس قسم کے جملے سننے اور پڑھنے کو ملتے تھے کہ آجکل سیاست کا بازار گرم ہے۔ لیکن اب تو ملکِ پاکستان کو کچھ عجیب ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ حقیقت میں یہ ایک کھلی جنگ ہے، اقتدار کی جنگ، خودغرضی کی جنگ، ہوس کی جنگ، اور نفس پرستی کی جنگ۔ جس میں نہ ملکی مفادات کی کوئی اہمیت ہے نہ عوام کی خواہشات کا احترام، نہ کسی قانون کی پاسداری ہے نہ آئینی تقاضوں کی تکمیل۔ یہ الگ بات ہے کہ یار لوگوں نے اس بیان کا رٹا لگایا ہوا ہے، جو ہر موقع پر بغیر سوچے سمجھے کمال ڈھٹائی کے ساتھ داغتے رہتے ہیں کہ ’’جو ہو رہا ہے ملکی مفادات کے تحت ہو رہا ہے‘‘۔ لیکن روزبروز سامنے آنے والے مسلسل اقدامات کو دیکھتے ہوئے ذہن مستقل اس الجھن کا شکار رہتا ہے کہ ’’کونسے ملکی مفادات‘‘۔ بہت سوچ بچار اور غور و فکر کے بعد یہ گتھی اُس وقت سلجھی جب پتا چلا کہ یارلوگ اپنی خواہشات اور مفادات کو ہی ملکی مفادات کے مترادف سمجھتے ہیں، اور ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑا کہ واقع ہی ہر کام ملکی مفادات کے تحت اور قانون اور آئین کے عین مطابق ہو رہا ہے۔ سچ ہے کہ اقتدار کی ہوس انسان کو حق و انصاف سے اندھا اور بہرا کر دیتی ہے۔

شاید کسی کو یاد نہیں رہا کہ اس ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور یہ ملک اسلام کے نام پر بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔ اس لئے دیکھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں اسلام کی تعلیمات کیا ہیں، جن کو جاننے کے بعد اس بات کا فیصلہ کرنے میں کوئی دشواری نہیں رہے گی کہ ہمارے حکمران اور سیاست دان جو کچھ کر رہے ہیں وہ ملک و قوم کے مفادات کے لئے ہے یا ذاتی مفادات اور اقتدار کی ہوس؟

حضرت عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ تم اپنے لئے حکومت کا عہدہ طلب مت کرو، اگر تمہارے طلب کرنے پر تم کو حکومت کی ذمہ داری سپرد کی گئی تو تم اس کے حوالے کر دئیے جاؤ گے ﴿اللہ کی طرف سے تمہاری کوئی مدد اور رہنمائی نہیں ہوگی﴾ اور تمہاری طلب کے بغیر تم کو کوئی حکومتی ذمہ داری سپرد کی گئی تو اللہ کی طرف سے اس سے میں تمہاری مدد ہوگی ﴿صحیح بخاری﴾۔

یعنی حکومتی عہدہ یا عدالتی منصب اپنے نفس کی خواہش سے نہیں لینا چاہئیے جو کوئی اس طرح حاصل کرے گا اس کی ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی کوئی مدد نہ ہوگی، اور جس کو بغیر اس کی ذاتی خواہش کے یہ ذمہ داری سپرد کی جائے وہ متوکلاً علی اللہ اس کو قبول کرلے، اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایسے بندوں کی مدد اور رہنمائی کی جائے گی۔﴿معارفُ الحدیث﴾

اسلام میں حکمرانی اور منصب کا حصول بہت خطرناک اور ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔ ظاہر ہے قاضی اور حاکم بن جانے کے بعد اس کے بہت امکانات پیدا ہو جاتے ہیں کہ آدمی کی نیت اور اس کے اخلاق میں فساد آجائے اور وہ ایسے غلط کام کرنے لگے جن سے اس کا دین و ایمان برباد اور آخرت خراب ہو جائے۔ رسول اکرم ﷺ نے اس لئے اس سے بہت ڈرایا ہے اور حتی الوسع اس سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔ اس سلسلہ میں آپ ﷺ نے یہ ہدایت بھی فرمائی ہے کہ حکومتی عہدے اور عدالتی مناصب ان لوگوں کو نہ دیئے جائیں جو ان کے طالب اور خواہش مند ہوں بلکہ ایسے لوگوں کو یہ ذمہ داری سپرد کی جائے جو اس کے طالب نہ ہوں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آئندہ ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ تم لوگ حکومت اور اس کے عہدوں کی حرص کرو گے اور وہ قیامت کے دن ندامت و پشیمانی کا باعث ہوگی۔ بڑی اچھی لگتی ہے حکومت کی آغوش میں لے کر دودھ پلانے والی، اور بہت بری لگتی ہے دودھ چھڑانے والی۔ ﴿صحیح بخاری﴾

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے منکشف فرمایا تھا کہ آپ ﷺ کی امت میں حکومت اور اس کے عہدے حاصل کرنے کا شوق اور حرص پیدا ہوگی۔ ایسے لوگوں کو آپ ﷺ نے آگاہی دی کہ یہ حکومت قیامت کے دن سخت ندامت اور پشیمانی کا باعث ہوگی جب ان کو اللہ تعالیٰ کے حضور میں حکومت کا حساب دینا ہوگا۔ آخر میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ حکومت جب کسی کو ملتی ہے تو بڑی اچھی لگتی ہے جیسے بچہ کو دودھ پلانے والی دایہ اچھی لگتی ہے اور جب وہ ہاتھ سے جاتی ہے ﴿خواہ موت کے وقت، یا زندگی ہی میں اس سے محروم یا دستبردار رہنا پڑے﴾ تو بہت بری لگتی ہے جیسے دودھ چھڑانے والی دایہ بچہ کو بہت بری لگتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حکومت کے شوقین اور طالبوں کو اس کے اُخروی انجام سے غافل نہ ہونا چاہیئے، قیامت میں ان کو اپنے زیرِ حکومت لاکھوں کروڑوں بندگانِ خدا کے حقوق کے بارے میں جواب دہی کرنی ہوگی۔﴿معارفُ الحدیث﴾

حضور نبی کریم ﷺ کے انہیں ارشادات کا اثر تھا کہ صحابہ کرام (رض) حکومتی و عدالتی عہدوں سے دور رہنا چاہتے تھے۔ حضرت عمرِ فاروق(رض) کو خلافت کے بوجھ نے اتنا محتاط بنا دیا تھا کہ ہر وقت اس غم میں گھلتے رہتے ، راتوں کو گلیوں میں چکر لگا لگا کر لوگوں کے حالات معلوم فرماتے ۔ آپ(رض) فرماتے تھے کہ اس دوران اگر کوئی کتا بھی بھوکا مر گیا تو مجھ سے اس کا مواخذہ ہوگا۔ اس کے علاوہ بہت سے صحابہ کرام و تابعین کرام کے حالات اس بارے میں کتابوں میں منقول ہیں جن کو پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ وہ حکومت و منصب کو ایک بھاری ذمہ داری خیال کرتے تھے اور حتیٰ الامکان اسے اُٹھانے سے گریز کرتے تھے۔ البتہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ذمہ داری کسی کو سونپ دی جائے اور اُسے وہ اللہ کی رضا کے لئے اور شریعت کے قوانین کے مطابق نبھانے کی کوشش کرے تو اس پر پھر خصوصی انعامات کا وعدہ بھی ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ﴿اہلِ حکومت اور اَربابِ اقتدار میں سے﴾ عدل و انصاف کرنے والے بندے اللہ تعالیٰ کے ہاں ﴿یعنی آخرت میں﴾ نور کے منبروں پر ہوں گے اللہ تعالیٰ کے داہنی جانب۔ اور اسکے دونوں ہاتھ داہنے ہی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنے فیصلوں میں اور اپنے اہل و عیال اور متعلقین کے معاملات میں اور اپنے اختیارات کے استعمال کے بارے میں عدل و انصاف سے کام لیتے ہیں۔ ﴿صحیح مسلم﴾ اس حدیث کامقصد و مدعا یہ ہے کہ جو بندے برسرِ حکومت اور صاحبِ اختیار ہونے کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف کے تقاضوں کی پوری پابندی کریں، تو آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں ان کے ساتھ ایسا ہی خاص الخاص اعزاز اور اکرام ہوگا ان کی نورانی نشست گاہیں ﴿منبر کہئے یا کرسیاں﴾ اللہ تعالیٰ کے داہنی جانب ہوں گے۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرنے والے حاکم قیامت کے دن اللہ کو دوسرے لوگوں سے زیادہ محبوب اور پیارے ہوں گے اور ان کو اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ قرب حاصل ہوگا۔ اور ﴿اس کے برعکس﴾ وہ اربابِ حکومت قیامت کے دن اللہ کو سب سے زیادہ مبغوض اور سخت ترین عذاب میں مبتلا ہوں گے جو بے انصافی کے ساتھ حکومت کریں گے۔ ﴿جامع ترمذی﴾

ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب تک حاکم اور قاضی کی نیت اور کوشش یہ رہے کہ میں حق و انصاف ہی کے مطابق فیصلے کروں اور مجھ سے نا انصافی سرزد نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی مدد اور رہنمائی ہوتی رہتی ہے۔ لیکن جب خود اس کی نیت خراب ہوجائے اور ظلم اور بے انصافی کا راستہ اختیار کر لے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی مدد اور رہنمائی سے محروم فرما دیتا ہے اور پھر شیطان اسکا رفیق و رہنما بن جاتا ہے اور وہ اسکو جہنم کی طرف لیجانے والے راستے پر چلاتا ہے۔

اب مندرجہ بالا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہمارے حکمرانوں کے موجودہ اقدامات اور مستقبل کے لئے کی جانے والی کوششیں کس فہرست میں آتی ہیں اس کا فیصلہ میں قارئین پر چھوڑتا ہوں۔
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 198163 views A Simple Person, Nothing Special.. View More