فرقہ واریت کا خاتمہ۔ چند تجاویز

 ملک میں پھیلتی دہشت گردی کے حوالے سے ایک تصور یہ پایا جاتا ہے کہ دینی مدارس شدت پسندی کی وجہ بن رہے ہیں۔مزید یہ کہ مذہبی فرقہ واریت کا بڑا ذریعہ بھی یہی مدارس ہے۔ یہ تاثر کتنا اہم ہے؟ اس بحث میں بڑے بغیر چند تجاویز پیش حدمت ہیں جو ممکن ہے حکومتی ایوانوں میں پالیسی بنانے کے کام آ سکیں۔

(1) حکومت کے اعلان کے مطابق تمام دینی مدارس کی رجسٹریشن ضروری ہے اور اس سلسلے میں کام بھی جاری ہے۔ اس میں ایک بہتر حل یہ ہو سکتا ہے کہ جب تک پرانے مدارس کی رجسٹریشن کا عمل مکمل نہیں ہو جاتا نئے مدارس کھولنے پر پابندی لگائی جائے۔دینی مدارس کے لئے قائم رجسٹریشن بورڈز اگر خاطر خواہ نتائج نہیں دے رہے تو موجودہ میٹرک ،انٹر میڈیٹ بورڈز اور یونیورسٹیز میں ان اداروں کے لئے الگ رجسٹریشن برانچ بنا دی جائے جو نہ صرف رجسٹریشن کا عمل مکمل کرے بلکہ امتحانات کا بندو بست بھی کرے۔
(2) تمام مکاتب فکر کے علماء کا ایک بورڈ تشکیل دیا جائے جو تمام دینی مدارس کے لئے ایک مشترکہ نصاب ترتیب دے، اس میں مرکزی حیثیت قرآن و حدیث کو حاصل ہو۔ یقینا یہ کام پہلے بھی ہو رہا ہے اسے بہتر کرکے مشترکہ نصاب بنایا جائے۔ان سب مدارس کا امتحان مرکزی اور صوبائی سطح پر امتحانی باڈی مقرر کر کے لیا جائے۔بالکل اسی طرح جس طرح وفاقی تعلیمی بورڈ اور صوبائی تعلیمی بورڈز لیتے ہیں۔
(3) مدارس کے اساتذہ کا تعلیمی معیار مقرر کیا جائے اور حکومت اس میں اپنا کردار ادا کرے۔
(4)تمام مکاتب فکر کے علماء اس بات پر اتفاق کریں کہ وہ اپنے مدارس صرف اپنے مکتب فکر کے طلباء و طالبات کے لئے محدود نہیں کریں گے بلکہ ہر ادارے میں ہر مکتب فکر کے طلباء و طالبات پڑھیں۔ ہمارے سکولز، کالجز،یونیورسٹیز میں اگر اس کی کوئی تخصیص نہیں ہے تو پھر دینی اِداروں میں ایسا کیوں ہے؟
(5) دینی اِداروں کے نصاب میں رواداری ،تحمل، برداشت اور ایک دوسرے کے مسلک کے احترام کے اسباق شامل کیے جائیں۔
(6) مدارس کی مساجد اور پورے پاکستان کی مساجد میں اذان کے علاوہ لاؤڈ سپیکر کے استعمال پر پابندی برقرار رکھی جائے۔نمازوں کے اوقات جیسا کہ اسلام آباد میں تجربہ کیا جا رہا ہے، پورے ملک میں ایک کر دیے جائیں۔سندھ میں ابھی جمعہ کا ایک ہی خطبہ دینے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔اسی طرح کا تجربہ پورے ملک میں کیا جائے۔

اس سلسلے میں ضلعی،تحصیل، محلہ، کالونی،یونین کونسل اور گاؤں کی سطح پر کمیٹیاں بنائی جائیں جن میں ہر مکتب فکر کی نمائندگی ہو۔یہ لوگ مسجد کے آئمہ اور خطیب کو مختلف عنوانات پر جو صرف قرآن و حدیث کے ہوں،تقریریں لکھ کر دیں، جیسا کہ سعودی عرب میں ہے۔پورے پاکستان میں اگلے دس سال تک ہر قسم کی تقریر کے لئے کمیٹی کی منظوری ضروری قرار دے دی جائے۔

(7) مساجد کے خطیب، بالخصوص دیہاتی مساجد کے خطیب اور وہاں موجود دینی اِداروں کے مہتمم حضرات کی تعلیم کا کم از کم معیار مقرر کیا جائے۔حیرت ہے کہ عام تعلیمی اِداروں میں پڑھانے والے اِداروں میں کم از کم معیار مقرر کیا گیا ہے مگر مسجدوں کے خطیبوں کے لئے جو اہم ترین شعبہ ہے ، کوئی تعلیمی معیار مقرر نہیں اور اگر ہے تو اس پر عمل نہیں کیا جاتا ۔

اگر مندرجہ بالا تجاویز پر عمل کر لیا جائے تو اچھے نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
Tariq Javed Mashhadi
About the Author: Tariq Javed Mashhadi Read More Articles by Tariq Javed Mashhadi: 24 Articles with 23995 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.