قوم کے روشن مستقبل پرحملہ، ردعمل اورنشاندہی

کوئٹہ میں سیکیورٹی فورسز کی گاڑی کے قریب دھماکہ سے ۶ اہلکارجاں بحق جبکہ دوزخمی ہوگئے۔خیبرایجنسی میں خاصہ دارچیک پوسٹ کے قریب خودکش دھماکہ ہواجس سے بارہ افرادجاں بحق جبکہ ۲۲زخمی ہوگئے۔جاں بحق ہونے والوں میں ٹرائبل یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر،حوالداررزاق، صاحب گل اورلائن آفیسر جمرودشامل ہیں۔ ایک اوراخبارکی خبرکیمطابق زخمیوں کی تعدادپچیس ہے۔۔ پشاورمیں قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے گلبہارفلائی اوورکے قریب چائے کے تھرماس میں موجوددوبم ناکارہ بناکر دہشتگردی کامنصوبہ ناکام بنادیا ۔ایک شخص کوگرفتارکرلیاگیا۔کراچی ایئرپورٹ پرحملے کامنصوبہ بھی ناکام بنادیاگیاکالعدم تنظیم کے دوکمانڈروں سمیت گیارہ افرادگرفتارکرلیے گئے۔ملزموں سے قبضے سے جدید اسلحہ بھی برآمدہوا۔باچاخان یونیورسٹی میں باچا خان کی برسی کے موقع پرمشاعرے کااہتمام کیاگیا جس میں اساتذہ، طلباء اورعملے کی بڑی تعدادموجودتھی کہ اچانک فائرنگ کاسلسلہ شروع ہواوردھماکوں کی آوازیں بھی سنی گئیں۔یونیورسٹی سے موصول اطلاعات کیمطابق فائرنگ کے واقعہ کیبعد بھگدڑ مچ گئی طلبہ اپنی کلاسوں میں جبکہ طالبات ہاسٹل میں محصورہوکررہ گئیں۔سیکیورٹی فورسزنے چارسدہ یونیورسٹی کامحاصرہ کیا اوردوطرفہ فائرنگ کاتبادلہ جاری رہا۔تاہم حالات کی سنگینی کودیکھتے ہوئے پاک فوج کوطلب کرلیاگیا جسکے بعد پاک فوج کے چاک ودوبنددستوں نے یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی بلندوبالاعمارتوں کاکنٹرول سنبھال لیا۔اوربھرپورجوابی کارروائی کرتے ہوئے چاروں حملہ آوروں کوہلاک کردیا۔صوبائی حکومت کی جانب سے جاری تفصیلات کیمطابق دہشت گردوں کے حملے سے یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسرحامد حسین، ۳۱ طلبہ سمیت بیس افرادشہیدجبکہ پچاس سے زیادہ زخمی ہوئے۔اس سانحہ کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے ایک روزہ جبکہ کے پی کے اورسندھ کی حکومتوں نے تین، تین روزہ سوگ کااعلان کیا۔چارسہولت کاربھی گرفتارکرلیے گئے۔وکلاء نے عدالتوں کابائیکاٹ کیا۔آئی ایس پی آرکے ترجمان کا کہنا ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے افغان صدراشرف غنی، چیف ایگزیکٹوعبداللہ عبداللہ اورافغانستان میں ا تحادی افواج کے کمانڈرجنرل جان کیمبل سے ٹیلیفونک رابطہ کرکے مطالبہ کیا کہ سانحہ چارسدہ کے ذمہ داروں کوپکڑنے میں تعاون کریں ۔آرمی چیف نے کہا کہ باچان یونیورسٹی پرحملہ کرنیوالوں کوافغانستان سے کنٹرول کیاجاتا رہادہشت گردوں کے قبضہ سے جوٹیلیفون برآمدہوئے ان پرکارروائی کیبعدبھی افغان سموں سے کالیں آتی رہیں۔ دوسری جانب افغانستان نے ٹھوس پاکستانی شواہدماننے سے انکارکردیا۔ترجمان افغان صدرنے کہا ہے کہ حملے میں سرزمین استعمال نہیں ہوئی ۔افغانستان کسی دہشتگردگروپ کی حمایت کرتاہے نہ اس نے کسی گروپ کوپنا ہ دی۔اچھے برے دہشتگردوں پر یقین نہیں رکھتے۔ ڈی جی آئی ایس پی آرلیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے سانحہ چارسدہ کے حوالے سے میڈیاکوبریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ حملہ آوروں کوافغانستان سے دس کالیں کی گئیں۔چارسہولت کاروں سمیت پانچ گرفتارکرلیے۔ایک مفروراس کی بیوی اوربھانجی کی تلاش کے لیے آپریشن جاری ہے۔سہولت کاروں کومیڈیاکے سامنے پیش کیاگیا ابھی نام نہیں بتاسکتے۔دہشتگردافغانستان سے طورخم چیک پوسٹ کے راستے پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے مردان پہنچے دومکانوں میں رکھاگیا۔سہولت کارنے رکشے میں دہشتگردوں کویونیورسٹی پہنچایا۔اسلحہ درہ آدم خیل سے لیاگیا۔ پشاورمیں نامعلوم افرادکی فائرنگ سے ایلیٹ فورس کے دواہلکارشہیدہوگئے۔دونوں پولیس لائن جانے کے لیے گھرسے نکلے چوک گڑھی کے قریب نقاب پوشوں نے فائرنگ کردی۔دونوں اہلکاروں کاتعلق مردان سے تھا۔ملزمان دھندکافائدہ اٹھاتے ہوئے فرارہوگئے۔ نوازشریف نے کہا کہ ملک میں مجموعی بہتری آرہی ہے چارسدہ یونیورسٹی کوبھاگتے دہشتگردوں نے نشانہ بنایا۔پاکستان سے دہشتگردوں کے نشانے ختم کردیے۔آپریشن کے بہترنتائج برآمدہورہے ہیں۔انتہا پسندی اورعسکریت پسندی کاعفریت ورثے میں ملا۔ نوازشریف نے کہا کہ اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دینگے۔چارسدہ حملوں میں ملوث دہشتگردوں کیخلاف کارروائی افغان حکومت کی ذمہ داری ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ چارسدہ حملے کابھارت پرالزام لگایا نہ افغان حکومت ملوث ہے۔نوازشریف نے درست ہی کہا ہے تاہم شواہد ماننے سے انکاربھی شکوک وشبہات کوجنم دیتا ہے۔اس سے تولگتا ہے کہ افغان حکومت خودملوث نہیں تودہشتگردوں کی حمایتی ضرورہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ باچاخان یونیورسٹی میں دہشتگردانہ حملہ انتہائی قابل مذمت ہے۔تعلیم سب کے لیے کے حق کومحفوظ بناناہم سب کی ذمہ داری ہے۔سابق وزیراعظم راجہ پرویزاشرف نے کہا ہے کہ دہشتگردی کے خاتمہ کے لیے حکومت سے بھرپورتعاون کررہے ہیں۔ شہداء ہمارے بچے ہیں۔پوری قوم پاک فوج کے پیچھے کھڑی ہے۔سابق وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک نے کہا ہے کہ بھارت، افغانستان اورتحریک طالبان پاکستان آپس میں ملے ہوئے ہیں۔دھمکیوں کے بعددہشتگردی کے واقعہ کیبعد بھارت پرعالمی پابندیاں لگی چاہییں۔امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑاہوگا۔امریکہ چارسدہ میں باچاخان یونیورسٹی پرحملے کی شدیدمذمت کرتا ہے۔اس حملے میں شہیدہونیوالوں کے اہلخانہ سے تعزیت اوردیگرمتاثرین سے ہمدردی کااظہارکرتا ہے۔دہشتگردوں کی طرف سے پاکستان کی آئندہ نسلوں کونشانہ بنانے کے لیے تعلیمی اداروں پرحملے خوفناک ہیں۔امریکہ اپنے ملک کوخوشحال مستحکم اورمحفوظ بنانے کی کوششوں میں پاکستان کے عوام اورحکومت کیساتھ کھڑاہے۔وائٹ ہاؤس سے جاری بیان کیمطابق قومی سلامتی کے ترجمان نے بھی باچاخان یونیورسٹی اورفغان دارالحکومت کابل میں ٹی وی چینل کی گاڑی پردہشتگردوں کے حملے کی مذمت کی ہے۔شہبازشریف کہتے ہیں کہ دہشتگردی کوجڑسے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پوری قوم پرعزم ہے۔پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں لازوال قربانیاں دیں۔دہشتگردانسانیت کے دشمن ہیں باچاخان یونیورسٹی پرحملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔عمران خان کاکہنا ہے کہ قوم دہشتگردی کیخلاف لڑنے کے لیے پرعزم ہے۔جنگ جیت جائیں گے۔طلباء نے خورشیدشاہ، پرویزاشرف اورمتحدہ وفدکوباچاخان یونیورسٹی میں داخل ہونے سے روک دیا۔طلباء نے موقف اختیارکیا کہ آپکی حکومت نے کچھ نہیں کیا صرف فوٹو سیشن کروانے یہاں آئے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے پی کے کاکہنا ہے کہ دہشت گردی صرف خیبرپخیونخواکانہیں عالمی مسئلہ ہے پوری دنیامیں جنگ جاری ہے۔سیکیورٹی اداروں اورعوام کاکرداراہمیت کاحامل ہے۔دہشتگردی ایک ایساناسورہے جس سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرخورشیدشاہ نے وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارکوہٹانے اورسانحہ چارسدہ پرجوڈیشل کمیشن بنانے کامطالبہ کردیا۔خورشیدشاہ کہتے ہیں کہ چوہدری نثاروزارت داخلہ کے لیے فٹ نہیں ہیں کہیں اورلگادیں۔ ایسے واقعات میں براہ راست ذمہ داری وزیرداخلہ کی ہے۔دوسری جانب پی ٹی آئی کے راہنما شاہ محمودقریشی نے کہا ہے کہ کابینہ میں کون ہوکون نہیں وزیراعظم کامسئلہ ہے وزراء کواجلاسوں میں شرکت کرکے بریفنگ دینی چاہیے۔کس کوکہاں لگانا ہے یہ اپوزیشن کاکام نہیں۔واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ بھی وزیرداخلہ کوہٹانیکامطالبہ کرچکی ہے۔خیبرپختونخواایپکس کمیٹی کے اجلاس میں سانحہ چارسدہ پرتحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی۔سابق وزیراعلیٰ حیدرخان ہوتی کہتے ہیں کہ باچاخان یونیورسٹی پرحملہ حکومت کی غفلت اورلاپرواہی کانتیجہ ہے۔دہشتگردایک سازش کے تحت پختون قوم کوتعلیم کے زیورسے محروم کرناچاہتے ہیں۔لیکن قوم کے حوصلے بلندہیں۔ہم اپنی تعلیمی درسگاہوں کی اپنی جان سے زیادہ حفاظت کریں گے۔ پاکستان نے تمام اسلامی ملکوں پرزوردیا ہے کہ دہشتگردوں کی مالی معاونت روکنے اورخواتین کومعاشرے میں بامعنی کرداردینے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ قومی اسمبلی کے نمائندہ امجدعلی خان ایم این اے نے عراقی دارالحکومت بغدادمیں اسلامی ملکوں کی پارلیمانی یونین (پی یوآئی سی) کی جنرل اسمبلی کے گیارھویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افسوس کیساتھ کہناپڑتا ہے کہ اگرچہ امت مسلمہ سے دہشت گردوں کاصفایاکرنے کے لیے بھرپورعزم کیساتھ کوششیں جاری ہیں لیکن شدت پسندوں کوفنڈنگ کی فراہمی کاچیلنج اب بھی موجودہے۔ ان کاکہنا ہے کہ مستحکم جانچ پڑتال کی غیرموجودگی میں دہشتگردگروپ عطیات، خیراتوں،منشیات کی تجارت،اغوابرائے تاوان اوربعض کیسوں میں توتیل اوردیگرقدرتی وسائل کی فروخت کاسہارالے رہے ہیں۔کانفرنس میں شریک عراق، صومالیہ اورانڈونیشیاکے وفودنے پاکستانی وفد کے ان ریمارکس کی حمایت کی۔اوراس اہم مسئلہ کوکانفرنس کے ایجنڈے میں شامل کرنیکامتفقہ فیصلہ کیاگیا۔ گورنرپنجاب ملک محمدرفیق رجوانہ نے کہا ہے کہ ملک کی سا لمیت اورخودمختاری کاتحفظ ہمارے ایمان کاحصہ ہے۔دہشتگردی کیخلاف جنگ قومی یکجہتی کے جذبے کوبروئے کارلاکرہرصورت جیتیں گے۔پاکستان کرہ ارض پرہمیشہ رہنے کے لیے بناہے۔ پاکستان گذشتہ کئی سالوں سے دہشتگردی کیخلاف جنگ لڑرہا ہے ہزاروں فوجیوں اورسویلین کی قربانی دے چکاہے۔ اربوں روپے کامالی نقصان برداشت کرچکا ہے۔ہمارے تعلیمی ادارے اورنئی نسلیں بھی دہشتگردی سے محفوظ نہیں ہیں بجائے اس کے امریکہ افغانستان سے کہتا کہ وہ پاکستان کے دیے گئے ثبوتوں کیمطابق دہشتگردوں کیخلاف تحقیقات کرے الٹاامریکی صدرباراک اوبامانے بھارتی میڈیاکوانٹرویودیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کانیٹ ورک توڑنے میں سنجیدگی دکھائے۔اپنی سرزمین پرسرگرم دہشتگردگروپوں کیخلاف مزیدموثرکارروائی کرے۔پاکستان میں عدم استحکام پورے خطے کے لیے خطر ہ ہے۔پشاورحملے کے بعد پاکستان کی طرف سے مخصوص گروپوں کیخلاف اقدامات دیکھے۔امریکہ اوربھارت کودہشتگردی سے نمٹنے کے لیے قریبی شراکت داری جاری رکھنی چاہیے۔

جس طرح مساجدمیں حملے کراکے پاکستان کے مسلمانوں کومساجداورنمازسے دورکرنے کی سازشیں کی گئیں تھیں اسی طرح آرمی پبلک سکول پرحملہ ہویاباچاخان یونیورسٹی پران کامقصدپاکستان کے بچوں کوتعلیم سے دوررکھنا اورملک کے مستقبل کوجہالت کے اندھیروں میں تاریک کرنا ہے۔ملک سے دہشتگردی کاخاتمہ کرنے کے لیے پاکستان کی عسکری، سیاسی قیادت اورعوام یکجان دوقالب ہیں ۔آرمی چیف کی یہ بات دوسوفیصددرست ثابت ہوگی کہ دوہزارسولہ پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمہ کاسال ہے۔اس حقیقت سے بھی انکارنہیں کیاجاسکتا کہ باچاخان یونیورسٹی پرحملہ پاکستان کی سعودی عرب اورایران کے درمیان مصالحت کی کوششوں سے توجہ ہٹانے کے لیے کرایاگیا۔پاکستان سعودی عرب اورایران کے درمیان صلح کی کوششیں کررہا تھا ۔ وزیراعظم اورآرمی چیف نے دونوں ملکوں کادورہ کیا۔ایران تنازع کے حل کے لیے فوکل پرسن مقررکرنے پربھی رضامندہوگیا۔مصالحت کی کوششیں آگے بڑھائی جاتیں ۔پاکستان دونوں ملکوں کے درمیان صلح کرانے میں کامیاب ہوجاتا ۔یوں جب تینوں اسلامی ملک سعودی عرب، پاکستان اورایران کسی ایجنڈے پرمتفق ہوجاتے توکرہ ارض پرموجودکوئی بھی اسلامی ملک ایسا نہ ہوتا جوان کیساتھ شامل نہ ہوجاتا۔ یوں عالم اسلام کوایک پلیٹ فارم پرجمع کرنے میں پاکستان کامیاب ہوکرعالمی اسلام میں اوربھی زیادہ قائدانہ کرداراداکرنے لگ جاتا۔باچاخان یونیورسٹی پرحملہ سے یہ تمام کوششیں تعطل کاشکارہوگئیں۔باچاخان یونیورسٹی سمیت پاکستان میں رواں ماہ ہونیوالے حملوں کوہماری کی گئی درج بالا نشاندہی اورانڈیا کی طرف سے دی گئی دھمکیوں کوملاکرسمجھنے کی کوشش کی جائے۔امریکی صدرباراک اوباما کا بھارتی میڈیاکوانٹرویوبھی واضح پیغام دے رہا ہے۔یہ سطورلکھتے وقت یہ خبرآئی ہے کہ اسلام آبادمیں افغان ناظم الامور سیّدعبدالناصر کودفترخارجہ میں طلب کرکے باچاخان یونیورسٹی حملے کے لیے افغان زمین استعمال ہونے پرباضابطہ احتجاج کیاگیا۔یہی احتجاج امریکی سفارت خانے سے بھی کیاجائے کہ وہ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کے کردارکونظراندازکرکے پھرسے ڈومورپراترآیا ہے۔پاکستان کی سیاسی ، عسکری قیادت ملک سے دہشتگردی ختم کرنے کے لیے متفق ہے ۔امریکہ سمیت ہمیں کوئی کہے نہ کہے ہم پاکستان سے دہشت گردی ختم کرکے ہی رہیں گے۔یہی پوری قوم کاعزم ہے۔ اس سانحہ کیبعد تعلیمی اداروں کے حفاظتی انتظامات چیک کیے جارہے ہیں۔سیکیورٹی کیمرے بھی لگائے جارہے ہیں۔حکومت کی اپنی طرف سے توکوشش ہوتی ہے کہ جتناہوسکے موثرحفاظتی انتظامات کیے جائیں۔ سیاستدانوں،مذہبی راہنماؤں اورسول سوسائٹی کوبھی اس سلسلہ میں حکومت سے تعاون کرناچاہیے۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 307977 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.