دینی مدارس میں دم توڑتا تحقیقی ذوق

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ دینی مدارس نے دینی علوم کے فروغ اور معاشرے کی اصلاح کے لیے ہردور میں انتہائی محنت اور جستجو کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی بھرپور کوشش کی ہے ۔ دینی مدارس کی سچی لگن کو دیکھتے ہوئے معاشرے نے بھی ان پر اعتماد کیا ہے اور آج وطن عزیز میں دینی مدارس اور طلبہ کی تعداد اس حد تک بڑھ رہی ہے کہ ماضی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ تاہم مقدار میں اضافے کے ساتھ معیار میں کمی کا مسئلہ دینی مدارس کو بھی درپیش ہے اور رفتہ رفتہ مدارس میں ماضی کا تحقیقی و علمی مزاج دم توڑ رہا ہے۔

ماضی میں دینی مدارس تحقیقی مراکز ہوا کرتے تھے اور ان سے متعلق علماءنے مختلف موضوعات پر ہزاروں گراں قدر اور نایاب تحقیقی کتب تصنیف کی ہیں، اس دور میں بھی بہت سے کتب لکھی جارہی ہیں، لیکن ان کا علمی و تحقیقی معیار اس پائے کا نہیں جو ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے موجودہ دور میں ان اداروں میں تحقیق کے سوتے خشک پڑتے جارہے ہیں۔ بہت سے مدارس میں درسی تعلیم کے بعد تحقیق اور تصنیف کے شعبے گزشتہ چند برسوں میں کثرت سے قائم ہوئے ہیں۔ ان کی موجودگی سے اسلامی تحقیقات کی اہمیت کا احساس بڑھا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی شعبے سے تحقیق کے وہ مقاصد اب تک کما حقہ پورے نہیں ہوسکے، جس کی آج قوم و ملت کو اشد ضرورت ہے۔ اکثر دینی مدارس میں تحقیق و تصنیف برائے نام اور صرف نصابی سرگرمیاں حاوی ہیں۔ نتیجے میں مدارس سے غالب تعداد مدرسین اور مقررین یا پھر درسی کتب کے شارحین پیدا ہورہے ہیں۔ دینی مدارس کے فضلاءکی اکثریت میں آٹھ دس سال تعلیم کا محور سمجھے جانے والے علوم پر دسترس حاصل کرلینے والوں کی تعداد انتہائی کم ہے اور افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ طلبہ کی ایک بڑی تعداد تو عربی زبان کی نصابی یا غیر نصابی کتابوں کی صحیح عبارت خوانی سے ہی قاصر ہوتی ہے۔ طلبہ کا سب سے بڑا اور اہم کام علمی تحقیقی و تصنیفی کام ہے۔ یہ کام طلبہ انفرادی طور پر اپنے شوق سے انجام نہیں دے سکتے، اس کے لیے مدارس کی سطح پر مطالعہ اور تحقیق کے لیے طلبہ کی مکمل رہنمائی اور موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق فضلاءمدارس اور طلبہ میں علم وتحقیق کا صحیح شعور بیدار کرنے کے لیے منصوبہ بند اقدامات کی ضرورت ہے، اس کے بغیر انفرادی طور پر طلبہ کے مطالعہ و تحقیق سے وہ کچھ حاصل نہیں ہوسکتا، جس کی ضرورت ہے۔

دینی مدارس میں عالمیہ کے بعد جو تخصصات کروائے جاتے ہیں، یہ عصری جامعات میں مختلف موضوعات میں کی جانے والی پی ایچ ڈی کی طرح ہی ہوتے ہیں۔ ان تخصصات کو سائنسی اصولوں میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ عصری جامعات کی پی ایچ ڈی میں تحقیق کے جو جدید اصول اور مناہج تحقیق اپنائے جاتے ہیں، ان کو اپنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ دینی مدارس کا نظام و نصاب اور مدارس میں عصری تعلیم کی ضرورت و اہمیت اگرچہ الگ موضوعات ہیں، لیکن سیرت النبی، تاریخ اسلام، اسلام کا معاشی نظام، جدید سیاسی نظریات کے تقابل کے ساتھ اسلام کا سیاسی نظام، جدید معاشرتی افکار کے ہمراہ اسلام کا معاشرتی نظام اور اس کے ساتھ استشراق، الحاد، مسلم ممالک پر مغرب کی فکری یلغار، اسلامی ممالک اورعالم اسلام کے مسائل اور جغرافیہ کو تفصیلی طور پر مدارس میں زیر بحث لانا بھی ضروری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مدرسے کی سند فراغت دراصل علوم دینیہ کے کمرے میں داخل ہونے کی کنجی ہے۔ گویا ایک فارغ التحصیل آٹھ دس سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس قابل ہوگیا ہے کہ اپنے طور پر بنیادی مآخذ کا مطالعہ کرکے علم و تحقیق کے سمندر سے لعل و گہر نکال سکتا ہے۔ تاہم تحقیق اور تصنیف کے لیے جس تجسس اور تخلیقی فکر کی ضرورت ہے، وہ صرف مدارس میں رائج نصاب سے حاصل نہیں ہوتی، اس کے لیے غیر نصابی کتب کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے، لیکن افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ مدارس کے طلبہ میںمطالعہ کا ذوق ناپید ہوتا جارہا ہے۔ بہت سے طلبہ جدید سہولتوں کی رو میں بہہ گئے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے فوائد اپنی جگہ، لیکن اس نے طلبہ کی علمی سوچ و استعداد کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔ اب طلبہ کی اکثریت فارغ وقت تو فضولیات میں گزارتی ہی ہے، اپنی تعلیم کا بھی بہت سارا وقت موبائل، فیس بک اور دیگر ذرایع کی نذر کردیتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب بیشتر طلبہ میں نہ تو نصابی کتابوں کے مطالعے کا ذوق رہا اور نہ ہی غیرنصابی کتابوں سے کوئی سروکار ہے۔ ماضی میںطالب علم جب مدارس سے فراغت حاصل کرتے تو نصابی کتابوں کے ساتھ سیکڑوں مفید غیرنصابی کتب کا مطالعہ بھی کرچکے ہوتے تھے۔ اب غیر نصابی کتب کا مطالعہ صرف مناظر ے کے انداز میں لکھی گئی کتب کا مطالعے تک محدود ہوگیا ہے۔

دینی مدارس کو موجودہ طریق سے کہیں زیادہ بہتر انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ علمائے کرام کی متفقہ کمیٹی تشکیل دے کر اس کے تحت روز پیش آنے والے نت نئے عصری و جدید مسائل پر تحقیق کا مضبوط نظام ترتیب دینے کی بھی ضرورت ہے۔ بسا اوقات بہت سے دینی مسائل میں مختلف مدارس کے مختلف فتاویٰ جات اور مختلف موقف سامنے آتے ہیں، بلکہ بعض مدارس میں تو ایک ہی مدرسے کے مختلف علمائے کرام کے مختلف موقف ہوتے ہیں اور بہت دفعہ کسی ایک رائے پر بہت شدت سے اصرار کیا جاتا ہے اور معاصر آراءکو درخور اعتناءنہیں سمجھا جاتا۔ ان حالات میں ایک عام آدمی ایک ہی دینی مسئلے میں متعددآرا کو دیکھ کر پریشان ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ دینی مسائل میں دلائل کی بنیاد پر اختلاف کا ہونا فطری امر ہے اور تمام مسائل میں مکمل اتفاق رائے کسی بھی شعبے میں نہیں ہوتا مگر عملی زندگی سے متعلق فروعی نوعیت کے مسائل میں زیادہ سے زیادہ اتفاق رائے کے لیے مشترکہ ادارہ ہونا چاہیے۔ملک کا سب سے بڑا دینی تعلیمی بورڈ ہونے کی حیثیت سے وفاق المدارس کو چاہیے کہ ملک بھر کے جید علمائے کرام پر ایک منظم فقہی کمیٹی تشکیل دے، جو حالات حاضرہ اور جدید مسائل پر بحث کرکے کوئی متفق موقف سامنے لائے اور علمائے کرام کی یہ کمیٹی ملک بھر کے تمام شہروں میں دارالافتاءقائم کرنے کے اصول و ضوابط طے کرے، تمام دارالافتاءانہی اصولوں کے تحت فتاویٰ جات جاری کرنے کے پابند ہوں۔ معاشرے میں اپنے بلند مقام اور بھاری ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے دینی مدارس کو غور و خوض کے بعد اس قسم کے مزید اقدامات کرنا ہوں گے، تاکہ عوام کو شرعی و دینی مسائل میں اطمینان حاصل ہوسکے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631697 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.