تعلیی نصاب اور طلبا کی عملی نشوونما

طلبا کو ملک و ملت کا قیمتی سرمایہ بنانے کے لیے علمی، عملی، سماجی اور رفاہی صلاحیتوں کا نکھار ضروری ہے
تفریح انسان کی ضرورت ہے۔ ایک خاص وقت تک کام کرنے کے بعد انسان کی طبیعت یہ تقاضاکرتی ہے کہ وہ کچھ وقت کے لیے تازہ دم’’Relax‘‘ ہوجائے تاکہ کام میں اس کی دلچسپی برقراررہے۔ ذہنی کام بہت زیادہ ہو تو جسمانی کام کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اگر جسمانی کام ہوتوآرام اور نیند کے بعدجسمانی اعضاء وجوارح تازگی اور قوت حاصل کرلیتے ہیں۔اسی طرح ذہنی تازگی کے لیے ذہن کوآرام فراہم کرناضروری ہوتاہے۔ اسی مقصد کے لیے انسان نے مختلف سرگرمیاں ایجادکی ہیں۔ان میں مصروف ہوکر ذہنی وجسمانی فرحت وتازگی حاصل کرتاہے۔

تاہم کیاخوب ہو اگراس تفریح کے ساتھ ساتھ کچھ مقصد بھی جوڑدیاجائے کہ انسان فرحت طبع کے ساتھ ساتھ کچھ سیکھ بھی لے جواس کے اور دیگر انسانوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو۔ایسی سرگرمیوں کے ذریعے نہ صرف انسان کی جسمانی تربیت کی جاسکتی ہے بلکہ اس کی ذہنی و اخلاقی تربیت کاانتظام بھی کیاجاسکتاہے مثلاً مختلف کھیلوں اور مشاغل کے ذریعے انسان صبر،بھائی چارہ، باہم مل جل کر کام کرنے کاہنر،قیادت کاجنم اوراس کی اطاعت میں چل کرکامیابی حاصل کرنے کاسلیقہ ،انصاف پسندی، معاملہ فہمی، محنت،مسائل کوسلجھاناوغیرہ سیکھتاہے۔ یہ تمام صلاحیتیں ایک اچھے اور ذمہ دار معاشرے کوجنم دیتی ہیں۔ اسی طرح کئی ہنر ایسے ہیں،جودیکھنے میں توہنرہی ہیں اوران کاعملی زندگی میں بیش بہافائدہ ہے مگروہ اپنے اندر بہت ساری تفریح سمیٹے ہوئے ہوتے ہیں،اس کے ساتھ ساتھ ان میں سیکھنے کو بھی بہت کچھ ہوتاہے،جیسے آپ تیراکی کی مثال لے سکتے ہیں،کشتی رانی کاسوچ سکتے ہیں، ریسکیو کی تربیت کو دیکھ سکتے ہیں۔ہمارے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم طلباکوان سرگرمیوں سے جوڑ دیاجائے تووہ ملک وقوم کے لیے بیش قیمت اثاثہ ثابت ہو سکتے ہیں،بالخصوص جب یہ عناصر پرائمری سطح سے ان کی تربیت وتفریح کاحصہ بن جائیں۔تاہم یہ ضروری ہے کہ کسی بھی سرگرمی کواپنانے سے پہلے یہ دیکھاجائے کہ اس کے اثرات طلباپر کیاہوں گے اور اس کے ذریعے بچوں کو کیا سکھانامقصودہے۔

ہمارے تعلیمی اداروں میں مروجہ تفریحی سرگرمیوں کو اگردیکھاجائے توچندایک مثبت سرگرمیوں کے علاوہ باقی سب کارلغویات نظرآتی ہیں۔اچھی سرگرمیوں میں بھی فضولیات ولغویات کی اتنی آمیزش کی گئی ہے کہ وہ نفع دینے کی بجائے الٹانقصان کاباعث ہیں۔اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے غم ختم کرنے کے لیے یااپنی مصروف طبیعت کو تازہ دم کرنے کے لیے سگریٹ کاسہارا لے یانشہ شروع کردے۔ اب وہ نشہ یاتمباکو جہاں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کاباعث ہے،وہیں اس کی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔جہاں وہ معاشرے کے دیگرافراد بالخصوص اہلخانہ کے لیے باعث تکلیف اوربوجھ بن جاتے ہیں، وہیں رفتہ رفتہ ’’مرض‘‘ کے بڑھنے سے اپنی معاشی خودکشی کاباعث بھی بن جاتے ہیں۔بالکل اسی طرح ہمارے ہاں ہونے والی نام نہاد تفریحی سرگرمیاں ہیں۔ موسیقی،رقص لڑکوں اورلڑکیوں کااختلاط،غل غپاڑہ، بے مقصدیت ،فحاشی وعریانی۔۔۔یہ سبھی چیزیں ہمارے سکولوں، کالجوں اوریونیورسٹیوں کے طلباوطالبات کے ’’نصاب‘‘ کا جزولازم بن چکی ہیں،چاہے وہ بون فائر، سپورٹس گالا، ویلکم اورفیئرویل پارٹیوں کی صورت میں ہوں یامیوزیکل کنسرٹ،ڈی جے نائٹس،کیٹ واک، کلچرل شوکی صورت میں ہوں۔صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ کالج اوریونیورسٹیوں میں کوئی ایسی تقریب یا فنکشن نہیں رہ گیا جس میں اللہ رب العزت کی ناراضگی کو مول نہیں لیاجاتا۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ایک نظریاتی ریاست ہوتے ہوئے بھی جولاالٰہ الااللہ محمدرسول اللہ کے نام پر بنااوراس کلمۂ توحید کی آبیاری و سربلندی کاپاسباں بھی ہے، قومی سطح پر تعلیم کے لیے اسلامی فکر کاآئینہ دار اور حالات سے ہم آھنگ نظام نہیں رکھتے۔ ملکی بجٹ کابہت کم حصہ 1.8%تعلیم کے لیے مخصوص کیاگیا ہے، وہ بھی مکمل طورپر اس پر صرف نہیں ہوتا۔باقی ساری تعلیم ٹھیکے پر دے رکھی ہے جو بیرونی ملکوں کی امداد،این جی اوز اور نجی اداروں اورافراد کے رحم وکرم پرہے۔۔۔جن کے اپنے اپنے مقاصد ہیں۔تعلیم ایک کاروبار بناہواہے۔ نہ ارباب اقتدار کو اس کی کوئی فکر لاحق ہے اورنہ ہی والدین کو اس بات کاشعور ہے کہ ان اداروں میں ہم کیسی نسل کو جنم دے رہے ہیں اور ہماری تعلیم یافتہ اولادیں ڈگری کے ساتھ کیا ہنر سیکھ رہی ہیں۔۔۔؟
یہی وجہ ہے کہ دس سے سولہ سال اس نظام کی بھٹی سے گزرنے والے طلبا وطالبات اس قابل نہیں ہوتے کہ وہ کوئی اہم ذمہ داری اپنے سر لے سکیں۔ عملی صلاحیتیں نہیں ہوتی،سنجیدگی اور کسی مہم یاصورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔حالانکہ یہ چیزہمارے یہاں تعلیم کے عام ہونے سے قبل کے بچوں میں پائی جاتی تھیں۔آج کا میٹرک کاطالب علم اور40برس پہلے کامیٹرک /مڈل کا طالب علم عملی اعتبارسے دیکھیں توبہت فرق نظرآئے گا۔۔۔!

اس کی مثال ہم سانحہ پشاور سے لیتے ہیں۔ جب چند دہشت گردوں نے سکول پرحملہ کیااور بچوں کابے رحمی سے قتل شروع کیاتومیٹرک اورانٹرکے طلباوہ سینکڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود ان کے آگے مزاحمت نہ کرسکے اور ان سے نمٹ نہ سکے۔یہ کتنابڑاالمیہ ہے۔

ہمارے طالب علم کے لاشعور میں یہ بات ہے کہ وہ ابھی بچہ ہے، سیکھ رہاہے۔۔۔فوج آئے گی تویہ کام کرے گی، پولیس ہوگی تواس صورتحال سے نمٹے گی۔اباجی ہوں گے توفلاں کام ہوگا۔ بڑابھائی ہوگا تواس مسئلے کا حل نکالے گا۔۔۔!دوسری طرف آپ عمروبن عاص کودیکھیں، معوذ ، معاذ کو دیکھیں،عبداللہ بن عباس کو دیکھیں، عبداللہ بن عمرy کو دیکھیں۔محمدالفاتح کودیکھیں،محمدبن قاسم s کو دیکھیں۔یہ تمام وہ شخصیات ہیں جوکم عمری میں کوئی کسی جنگ میں بہت بڑا معرکہ سرانجام دینے والاہے،کوئی کسی علاقے کاگورنرہے،کوئی کم عمری میں مفسرِقرآن ہے، کوئی مستقل تہجدگزار اورنبیeکا نہایت مطیع صحابی ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے ہمارے مروجہ نظام تعلیم وتربیت میں وہ عناصر ناپیدہیں جو ذمہ دار،باصلاحیت،سنجیدہ اور اولوالعزم افراد کی تشکیل کرتے ہیں۔زندگی کے 22سے 30سال کے دوران ماسٹرز،ایم فل یا پی ایچ ڈی کرتاہے، یہ زندگی اس کے ’’بچپنے‘‘ میں گزرگئی اور باقی عمرکیا ہوتاہے، بس روٹی،کپڑااورمکان۔۔۔!!

جب حکومت اس سلسلے میں غفلت کاشکار ہے جس کااوّلین فریضہ ہے کہ وہ عوام کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے، پالیسی سازی کرے،توپھرذمہ داری والدین اور تعلیمی اداروں کے سربراہان اوردیگربااثرشخصیات کی ہے کہ وہ طلبا کی صلاحیتوں کونکھاریں اوران کی اسلامی خطوط پر اخلاقی اور فکری تربیت کریں۔

اس سلسلے میں ہم ارباب تعلیم بالخصوص نجی وسرکاری تعلیمی اداروں کے سربراہان اوراساتذہ کی توجہ چند سرگرمیوں پر دلاناچاہیں گے جن کے ذریعے وہ طلباکی صلاحیتوں کو بہتر انداز میں اجاگر کرکے انہیں ملک وقوم کے لیے سرمایہ بناسکتے ہیں کہ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونابہترہے۔

پہلی بات تویہ ہے کہ بچپن کی عمر سیکھنے کے اعتبار سے بہت اہم ہوتی ہے۔اس عمرمیں بچہ جو سیکھ لیتاہے وہ ساری عمر اس کے ذہن پر نقش رہتاہے اور اس کے کردار پراثراندازہوتاہے۔اس حوالے سے بچوں کی اخلاقی اور دینی تربیت ضروری ہے۔ ایمان،عبادات،حقوق العباد، خوشی غمی کے مواقع پر رویہ،دوسرے لوگوں سے میل جول کا طریقہ، اخلاقی خوبیوں اوربرائیوں کا تعارف کروایا جائے۔

دوسری بات یہ کہ یہ تمام اسباق عملی مشقوں سے سکھائے جائیں ،اس کے لیے بچے کے اردگرد موجود افراد بالخصوص تربیت کرنے والے لوگوں کاکردار اہم ہوتاہے کیونکہ بچے انہی کی نقل کرتے ہیں۔جب بچے کسی اچھے ماحول سے متاثر ہوتے ہیں تووہ گھرکے ماحول کو بھی بدل دیتے ہیں اوروالدین کی تربیت کاذریعہ بھی بن جاتے ہیں۔ ایسی کئی مثالیں ڈھونڈنے سے مل جاتی ہیں۔

طلباکومختلف ہنر سکھانے کے لیے مہینے کے اعتبار سے سالانہ شیڈول ترتیب دیاجائے۔ ہرمہینے کے لیے کچھ سرگرمیاں مختص کرلی جائیں کہ ان میں فلاں کلاس کے بچوں کو فلاں فلاں چیز سکھائی جائے گی۔ ہرمہینے میں چار ہفتے ہوتے ہیں۔ہرہفتہ میں اگرایک دن اس کام کے لیے مختص کردیاجائے توطلبابخوبی اس کو سیکھ بھی جائیں گے اور ساتھ عملی مشق کا موقع بھی ملتارہے گا۔ پھران چیزوں کے طلباکے مابین مقابلہ جات کروائے جائیں۔ یہ مختلف ہم نصابی وغیرنصابی سرگرمیاں ہوسکتی ہیں۔ یہ کام علمی بھی ہوسکتے ہیں اور عملی بھی۔۔۔اگرکوئی تعلیمی ادارہ پہلی کلاس سے میٹرک تک ، انٹرمیڈیٹ سے گریجوایشن تک اور گریجوایشن سے پوسٹ گریجوایٹ سطح تک ایسی سرگرمیاں ترتیب دے دیتاہے اورطلبا ان سے گزرجاتے ہیں ۔تو یقیناًاس ادارے کی پیداوار (Yield)کسی بھی دوسرے ادارے سے علمی اور عملی اعتبارسے بہترہوگی اورمستقبل میں مختلف شعبہ جات میں انقلاب برپاکرے گی۔ اس میں قیادت اور ٹیم ورک کی صلاحیتیں ہوں گی، انتظام وانصرام کے جواہر ہوں گے،اعتمادکی قوت سے مالا مال ہوگی،اپنے مافی الضمیر کے اظہارکی تقریری وتحریری صلاحیتوں سے لبریز ہوں گی،پیچیدہ مسائل کے حل، حالات حاضرہ، جغرافیہ، معیشت اوردفاع جیسے معاملات سے آگاہی ہوگی۔ تاہم اس بات کاانحصار اس چیز پرہے کہ انہیں کس قسم کی سرگرمیاں اور مشقیں کروائی جاتی ہیں۔ ذیل میں ان کا مختصر تعارف دیاجارہاہے۔

مفیدکھیلیں:
ہروہ کھیل جو وقت کے ضیاع سے بچاکر جسمانی قوت،صحت سے مالامال کرنے کے ساتھ اخلاقی تربیت کا باعث بنتاہے،اس کاموقع مہیاکیاجاناچاہیے۔
1دوڑ۔2لانگ جمپ۔3 تیراندازی4 گھڑسواری۔5پُش اپ اور چن اپ کے مقابلہ جات وغیرہ۔
-1علمی صلاحیتیں نکھارنے کے لیے:
1تحریری مقابلے۔2کوئزپروگرام۔3 مباحثے۔4مطالعہ کتب (دیگر)۔5قرآن وحدیث کامطالعہ۔6سیرت النبی،سیرت صحابہؓ، تاریخی شخصیات ، سیاسی شخصیات۔7حفظ حدیث و دعا۔8مفید اخبارات ورسائل کامطالعہ۔9کیرئیرکونسلنگ۔0جغرافیہ+ نقشہ بینی وغیرہ وغیرہ۔
-2سماجی سرگرمیاں:
1دعوت دین۔2خوشی وغمی کے موقع پر کیاکیا جائے۔3 آدابِ معاشرت۔
-3عملی سرگرمیاں اورذہنی مہارتیں:
1عبادات۔2حقوق العباد۔3تعلیمی نصاب سے متعلقہ تخلیقی سرگرمیاں۔4 فرضی مسائل دینا اور ان کاحل نکلوانا۔5ٹائم مینجمنٹ۔6مختلف عملی اسائن منٹس۔7سائنسی تجربات۔8 IQٹیسٹ وغیرہ۔
-4قدرتی آفات کی صورت میں:
1ابتدائی طبی امداد(First aid)۔ 2 تیراکی وغوطہ خوری۔3فائرسیفٹی۔4ڈیڈ باڈی مینجمنٹ۔ 5 میڈیکیشن۔6ڈیزاسٹرمینجمنٹ وغیرہ
-5دفاعی وعسکری صلاحیتیں:
دشمن کے خلاف بھرپورتیاری کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیاہے۔ملک میں دہشت گردی اورامن عامہ کی خراب صورتحال کے پیش نظرطلباکوشہری دفاع،سیلف ڈیفنس کے لیے تربیت دیناضروری ہے تاکہ وہ ان خطرات سے نمٹنے اور دیگرلوگوں کی جان ومال کے تحفظ کا ذریعہ بن سکیں۔
1جسمانی مضبوطی کے لیے ورزش۔2 نشانہ بازی۔3سیلف ڈیفنس کی تکنیکیں۔4ہائیکنگ۔ 5 سٹک فائٹنگ ۔6کیمپنگ ۔وغیرہ وغیرہ
وہی جوان ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہو بے داغ، ضرب ہو کاری

آخرمیں وقت کی نعمت رکھنے والوں کے لیے نبی کریم کی فکر دلانے والی حدیث پیش خدمت ہے۔
’’دونعمتیں ایسی ہیں جن کے متعلق لوگوں کی اکثریت غفلت کاشکارہے اوروہ ’’صحت اور فراغت‘‘ ہیں۔(صحیح بخاری)
 
Ahmed Hamas
About the Author: Ahmed Hamas Read More Articles by Ahmed Hamas: 6 Articles with 6220 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.