خوش بو میں نہاتے رنگ

شاعر
عطاءالرحمن قاضی

ادبی مطالعہ
مقصود حسنی

ابوزر برقی کتب خانہ
جنوری 2016

خوش بو میں نہاتے رنگ...... ایک جائزہ

عطاءالرحمن قاضی اردو کے' خوش فکر اور خوش زبان شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں' انسانی زندگی اور انسانی منافق رویوں کی' بڑے اچھوتے انداز میں' عکاسی ملتی ہے۔ تاہم کومل جذبوں کو بھی نظرانداز نہیں کرتے۔ ان نرم و ملائم جذبوں کی حرف کاری' قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور وہ لطف اندوزی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ عطا کے ہاں اصل کمال یہ ہے' کہ لفظوں کا انتخاب خیال کے مطابق کرتے ہیں۔ ذرا یہ رباعی ملاحظہ فرمائیں۔

مہتاب چرا لائے تھے ہم رات گئے
چندراب چرا لائے تھے ہم رات گئے
اس چشم فسوں کار سے چپکے سے عطا
اک خواب چرا لائے تھے ہم رات گئے

عطا' عصری شخص کے عمومی چلن اور طور کی' بڑے ہی خوب صورت انداز میں' عکاسی کرتے ہیں۔ لفظ اندر کا استعارتی استعمال' ان کے کلام کو فصاحت و بلاغت ہی میسر نہیں کرتا' بل کہ اسے وجاہت سے بھی' سرفراز کرتا ہے۔ اس ذیل میں ذرا :یہ شعر ملاحظہ فرمائیں

اندر سے نکلتا نہیں کوئی باہر
دیکھو جسے' خود میں وہ سراسر گم ہے

لفظ اندر کا استعمال' اپنے وجود میں معنویت کا رواں دریا رکھتا ہے۔ کسی کلام کے بلیغ ہونے میں' ایسی باریکیاں ہی اپنا کمال دیکھاتی ہیں۔

عطا نے' عصری شیوخ کے دوہرے اطوار اور چلن کو' ایک حوالے کے تحت واضح کیا ہے۔

رندوں کے حضور یہ دو رنگی' یا شیخ
!رسم شرب الیہود' آخر کب تک

عطا اپنی رباعیوں میں' عالم گیر سچائیوں کا بڑے خوب صورت انداز میں' اظہار کرتے ہیں۔ مثلا

کھوئی ہوئی توقیر کہاں ملتی ہے
گم گشتہ تقدیر کہاں ملتی ہے
ہر پھول میں ہوتی نہیں خوشبو یارو
ہر خواب کی تعبیر کہاں ملتی ہے

.......
یوں دور سے مت دیکھ' تماشا چپ چاپ
اے موج فنا! مجھ میں اتر جا چپ چاپ
!کس گھاٹ اترنا ہے عطا' کیا معلوم
بہتا جاتا ہوں کب سے تنہا' چپ چاپ

محلات کی نسبت شاہوں سے رہی ہے۔ ان کے سوا بڑوں کی رہائش و عیش گاہوں کے لیے' کوٹھیاں' بنگلے' بڑے مکان' اونچے مکان وغیرہ سے لفظ یا مرکبات مستعمل رہے ہیں۔ ہر دو امرجہ نخوت کدے' رہے ہیں۔ ایک سے اطوار رکھتے ہوئے' ان میں لفظی شناخت باقی رہی ہے۔ لفظ محل' بادشاہ کے لیے ہی تحریر اور عرف میں رہا ہے۔۔ حالاں کہ تکبر اور عوامی استحصال کی ذیل میں' دونوں متوازی چلے آتے ہیں۔ یہ عوام کا معاملہ نہیں رہا' کہ کون کس کا بنایا یا کس کے ماتحت رہا ہے۔ عطا نے اس تخصیص کو ختم کیا ہے۔ گویا ان کے ہاں لفظ محل وسیع اور بلیغ معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ لامحدود بات' صیغہء محدود میں کہی گئی ہے۔ کہتے ہیں

ہر کنگرہءکبر' زمیں بوس ہوا
اڑتی ہے محلات میں اب خاک یہاں

مرکب کنگرہءکبر کا' نخوت پسند مزاج پر اطلاق بھی بےمزا نہیں رہے گا۔ حرف کار وہ ہی قابل تحسین ہے' جو سچ کہتا اور لکھتا آیا ہے۔ ان دو مصرعوں میں کہا گیا' عالم گیر سچائی کے درجے پر فائز ہے۔

شخص کے یقین اور اس کے کردار کےحوالہ سے' اس کے شخصی المیے کی' بڑے دردناک انداز میں عکاسی کی ہے۔ کہتے ہیں

ہاتھوں میں خوش آہنگ دعا ہوتے ہوئے
محروم یقین رہے' خدا ہوتے ہوئے
حیرت سے دیکھتا رہا اپنا زوال
کردار' کہانی سے جدا ہوتے ہوئے

یا پھر یہ دو مصرعے ملاحظہ ہوں

اک موج گماں نے یوں بڑھائی پینگیں
سب اہل یقیں' غرقہءاوہام ہوئے

شخصی تنہائی کا بڑے ہی باریک انداز میں اظہار کرتے ہیں۔ مثلا
........
دریا نے بہت زور لگایا لیکن
صحرا مرے اندر سے نکالا نہ گیا

آج شخص انا کے خول میں بند ہے۔ اس تلخ حقیقت کا اظہار ملاحظہ ہو۔

اک بوجھ اٹھائے' چار و ناچار چلے
آخر کو یہی کھلا کہ بیکار چلے
اس قید انا سے کون باہر نکلا
جس سمت بھی جائیے یہ دیوار چلے

عصری جبریت کا اظہار کرتے' ان کے لہجے میں تلخی آ جاتی ہے۔

روشن ہیں کب آگہی کے فانوس یہاں
سب لوگ ہوئے ظلم سے مانوس یہاں
آنکھوں میں حیا رہی نہ کچھ دل میں خوف
چلتا ہے فقط سکہ سالوس یہاں

یہ ایک ازلی حقییقت ہے' کہ شخص اپنی شناخت باالوسطہ حاصل کرتا ہے۔ عطا کے ہاں اس حقیقت کا اظہار ملاحظہ ہو۔

اس شوخ نے دیکھا جو مری سمت بغور
تب جا کے کہیں خود کو نظر آیا میں

واہ۔۔۔۔۔ واہ' بہت خوب....کیا بات ہے۔

تخلیق آدم بلاشبہ بہت بڑا کمال ہے۔ علم آدم کا شرف ٹھہرا۔ ان دو مصرعوں میں' اس واقعے کا اظہار دیکھیے۔ ان دو مصرعوں کو' سورتہ والتین اور سورتہ بقر کے تناظر میں' ملاحظہ فرمائیں۔

مٹی میں رکھ دیا علو معراج
ہونے نہ دیا کبھی کسی کا محتاج

عطا نے ذومعنویت کا کمال چابک دستی استعمال کیا ہے۔ مثلا

دیوار گرانے سے جو کھلتا ہی نہ تھا
عقدہ وہی دیوار اٹھانے سے کھلا

دیوار گرانا
دیوار اٹھانا

رباعی میں' چوتھا مصرع کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔ عطا کے ہاں' مختلف صورت بھی ملتی ہے۔ پہلے دو یا آخری دو مصرعوں کو باقاعدہ شعر کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ مثلا

پہلے دو مصرعے

موجود بھی موجود سے بڑھ کر نکلا
اک اور ہی منظر' پس منظر نکلا

آخری دو مصرعے

مہتاب کو جھیل میں نہاتےہوئے' شب
افلاک سے تاروں نے اتر کر دیکھا

غزل کا سا' حسن بیان اور نازک خیالی ملاحظہ فرمائیں

دیکھا ہے ترے حسن کا پر تو جب سے
آنکھوں میں کوئی نقش ٹھہرتا ہی نہیں

اعجاز آگہی کا حاصل ہے عطا
میں رات کے پردے میں سحر دیکھتا ہوں

عطا کے ہاں بات کے آغاز کے مختلف انداز ملتے ہیں۔ مصرعوں کا ہم صوت الفاظ سے آغاز کرتے ہیں۔

یوں دشت غزل میں خوش ہوائیں ناچیں
جوں تخت ہوا پہ اسپرائیں ناچیں
...........

اس قید انا سے کون باہر نکلا
جس سمت بھی جائیے یہ دیوار چلے
...........

شعلہ کوئی پتھر سے نکالا نہ گیا
نشہ کسی منظر سے نکالا نہ گیا
دریا نے بہت زور لگایا لیکن
صحرا مرے اندر سے نکالا نہ گیا

مصرعوں کا ایک ہی الفاظ سے آغاز

اے حرف خوش خصال' آ جا مجھ میں
اے کیف لازوال' آ جا مجھ میں
...........

مصرعوں کا ایک ہی لفظ سےآغاز' جب کہ دونوں مصرعوں کا' دوسرا لفظ ہم صوت ہوتا ہے۔
اے نغمہءبےتاب' ذرا اور چمک
اے شعلہءنایاب ' ذرا اور چمک
.........
ہر جام میں اک عکس طلسم امکان
ہر گام یہ دشت غزل آہنگ کھلا
...........

پہلے تین لفظ ایک ہی استعمال کرنے کا طور ملاحظہ ہو۔

اک اؤر ہی انقلاب سوچا تھا مگر
اک اؤر ہی انقلاب دیکھا میں نے
........

اب ہم مرتبہ لفظوں سے مصرعوں کا آغاز ملاحظہ ہو۔

قطرہ قطرہ حباب دیکھا میں نے
ذرا ذرا سراب دیکھا میں نے

پہلے مصرعے میں' متضاد لفظوں کا برجتسہ اور امر واقع کے تحت استعمال
:ملاحظہ ہو

جلتے بجھتے چراغ' لمحوں کی فصیل
...........
پھولوں کو کانٹوں میں پرونے والو
...........

:کفایت لفظی کی دو صورتیں دیکھیے

مہتاب چرا لائے تھے ہم رات گئے
چندراب چرا لائے تھے ہم رات گئے
اس چشم فسوں کار سے چپکے سے عطا
اک خواب چرا لائے تھے ہم رات گئے

........

قطرہ قطرہ حباب دیکھا میں نے
ذرہ ذرہ سراب دیکھا میں نے
اک اور ہی انقلاب سوچا تھا مگر
اک اور ہی انقلاب دیکھا میں نے

عطا نے اردو کی شعری زبان کو' بڑے خوب صورت مرکب دیے ہیں۔ یہ مرکب' اچھوتے اور گہری معنویت رکھتے ہیں۔ مختلف نوعیت کے چند مرکب دیکھیے۔

افق دل
اقلیم معنی
تخت ہوا
دشت غزل
طلسم امکان

علو معرج
قرطاس شب
قید انا
کیف لازوال
وسعت شب

پتھر کا سکوت
خوشبو کا جھرنا
تہذیب کے اوراق
شوق کی تکذیب
قرنوں کی دیوار
لمحوں کی فصیل

افلاک پہ ساغر

لازماں وسعت
حرف خوش خصال

اہل زوال
اہل نیاز

زاویہ نشیں
لفظ پرست

شعلہءنایاب
کنگرہءکبر
نشہءپندار

ادائے کہکشانی
ورائے تشبیہ

عطا کی زبان کا محاورہ; شائستہ' شگفتہ' برمحل اور نئی فکر کا حامل ہوتا ہے۔ چند مثالیں باطور نمونہ ملاحظہ ہوں۔

پلکیں بڑھانا: اک موج گماں نے یوں بڑھائی پینگیں
دیوار گرنا: دیوار گرانے سے جو کھلتا ہی نہ تھا
دیوار اٹھانا: عقدہ وہی دیوار اٹھانے سے کھلا
سانچے میں اترنا: موجود کے سانچے میں اتر آیا میں
دل میں اتارنا: خوشبو بھرے لمحوں کو اتارا دل میں
بوجھ اٹھانا: اک بوجھ اٹھائے' چار و ناچار چلے
سکہ چلنا: چلتا ہے فقط سکہءسالوس یہاں
پلکوں سے اٹھانا: کیا خواب تھے پلکوں سے اٹھا کے' جھونکے

عطا کی رباعیوں میں' مقامیت بھی پائی جاتی ہے۔ ساتھ میں' بہت بڑی حقیقت بیان کر گیے ہیں۔

پھوہڑ کی ہو جھاڑو کہ سگھڑ کا لیپا
چھپتے نہیں گو لاکھ چھپائے کوئی

کہانی کہاوت بھی ان کی رباعیات میں نظر انداز نہیں ہوئی۔ مثلا

تہ خانے میں صندوق کے چاروں جانب
پہرا ہے کسی ناگ کا جانے کب سے

عطا تلمح کا تشبیہی استعمال' بڑے ہی طریفہ سلیقہ سے کرتے ہیں۔ کئی ایک رومان پرور مناظر' آنکھوں کے سامنے گھوم گھوم جاتے ہیں۔ ذرا تصور کیجیے' مست ہواؤں میں سورگ کی الپسرائیں رقص کر رہی ہوں' تو شخص اور دیوتا بن پیئے' نشہ کی حالت میں آ جائیں گے۔

یوں دشت غزل میں خوش ہوائیں ناچیں
جوں تخت ہوا پہ اسپرائیں ناچیں

جناب عطاالرحمن قاضی کی زبان و فکر پر' دیانت داری سے' بہت کچھ لکھا جا سکتا اور لکھا جانا چاہیے. میں اپنی معروضات یہاں پر ختم کرتا ہوں' تا کہ قاری بھی' اس ذیل میں' اپنی رائے دے سکے۔

دعا ہے الله کریم قاضی صاحب کے قلم میں' مزید روانیاں رکھ دے' تا کہ وہ زبان و ادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ' عصری معاملات کو' کاغذ کے سپرد کر سکیں۔ آتا کل شاہوں اور ان کے کنکبوتیوں کو ہی نہیں' اس عہد کے دوسرے باسیوں کے احوال سے آگاہ ہو بھی سکے۔
مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 193648 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.