رویےّ ہمارے

بدقسمتی سے پچھلے عرصے سے ہمارے معاشرے میں عدم برداشت،تلخی، درشتی، نفرت،انتقام جیسے رویے تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں۔حکمرانوں سے لے کر عوام تک سب ان وبائی امراض کا شکار ہیں۔حکمران کسی تجویز وتنقید کو سننے کے روادار نہیں۔ سیاست دان ایک دوسرے کو نیچادکھانے میں کسی اخلاقی ضابطے کی پابندی کو ضروری نہیں سمجھتے۔اخبارات انھی کے ایک دوسرے پر الزامات سے سیاہ ہوتے ہیں۔ٹی وی مذاکروں میں کوئی کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوتا،توتکار ہوتی ہیں ،طعنے دیے جاتے ہیں۔ایک دوسرے پر غداری کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔شور، ہاؤہو اور زبردستی اپنی بات منوانے اور دوسرے کو ہرانے اور لاجواب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔پارلیمنٹ کی اندرونی حالت اس سے بھی بدتر ہے۔جہاں گالم گلوچ کے ساتھ باہم دست وگریباں ہونے تک نوبت آجاتی ہیں۔

علمائے کرام چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے پر کفر ونفاق کے فتوے لگاتے ہیں۔لیڈر کو اپنی فہم وفراست پراتنا’’اعتماد‘‘ ہے کہ وہ اپنے کارکنان سے مشورے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔بلکہ حکم جاری کرتاہے۔
باپ ڈانٹ ڈپٹ اور تھپڑ کے ذریعے سے اپنے بچوں کی اصلاح وتربیت کرناچاہتاہے۔معاشرے میں ایک مکتب فکر ایسا بھی ہے جو ہر خرابی کی اصلاح بندوق سے کرنے لگا۔دیکھاجائے توہمارے معاشرے کے ہر دائرے میں خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی، نرمی کی جگہ تلخی ودرشتی،تحمل و رواداری کی جگہ عدمِ برداشت اور عفوودرگزر کی جگہ نفرت وانتقام لے رہاہے۔جس کے نتیجے میں قائدین ومصلحین، علما اور داعیانِ دین سب بے زار ہیں کہ لوگ ہماری بات نہیں سنتے اور ہمارے پیچھے نہیں چلتے۔عوام کا حال یہ ہے ؂
کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سے
کہ میر کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی

ان حالات کا سبب یہ ہے کہ ہم نے اپنے پیارے نبی ﷺ کی تعلیمات کو نظر انداز کردیا ہے۔ہمارے پیارے نبی ﷺ کی شان تو یہ تھی کہ ایک دفعہ ایک بدو نے آپﷺ سے بات کرتے ہوئے زبان درازی کی۔حاضرین میں سے بعض صحابہ غصے میں آ گئے۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو،اسے کچھ نہ کہو۔آپ ﷺ نے اس سے نرمی کا سلوک کیا اور عزت واحترام سے پیش آئے۔بدوحق کی طرف آیا اور یوں نبی کریم ﷺ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔
ایک دفعہ ایک بدو مسجد میں پیشاب کرنے لگالوگ اس کی طرف دوڑے آپ ؐ نے لوگوں کو منع فرمایا اور بدو کو اپنے حال پر رہنے دیا۔ جب وہ فارغ ہوا تو نبی کریم ﷺ نے ان کو بلایا اور نرمی سے سمجھاتے ہوئے فرمایا:’’اس قسم کی ناپاکی مسجد کے شان کے خلاف ہے۔ مسجدیں تو نماز،قراء ت،ذکر اورعبادت کے لیے بنائی گئی ہیں۔
اسی طرح ایک دفعہ معاویہؓ بن الحکم السلمی ؓ نے دوران نماز میں بات کی۔صحابہ کرام ؓان کو ڈانٹنے لگے۔لیکن نبی کریم ﷺ نے ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ برتا۔معاویہ بن الحکم فرماتے: میری ماں اور باپ آپؐ پر قربان ہوں، میں نے ایسا معلم نہ آپ سے پہلے دیکھا اور نہ بعد میں۔ آپ ﷺ نے نہ مجھے جھڑکا،نہ بر ا بھلا کہا،نہ مارا بلکہ آپ نے فرمایا کہ نماز تسبیح وتکبیر اور قرآن کی قراء ت پر مشتمل ہے،انسانی کلام کی اس میں کوئی گنجائش نہیں۔(رواہ مسلم)

جس چیز نے معاویہ بن الحکم کا دل موہ لیا۔وہ نبی کریم ﷺ کی نرمی اور محبت تھی۔آپ ﷺ نے انتہائی نرمی اور شفقت کے ساتھ انھیں نصیحت فرمائی۔آپ ﷺ نرم خُو تھے۔لوگوں کے قریب تھے،لوگوں کی پکار کا جواب دیتے،لوگوں کی حاجتوں کو پورا کرتے، مانگنے والوں کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتے۔جب صحابہ کرام ؓ کوئی معاملہ لاتے تو آپ ﷺ توجہ دیتے اور حل بتاتے۔جب آپ کام کرتے تو از خود فیصلے کے بجائے ساتھیوں سے مشورہ لیتے۔آپ ﷺ احسان شناس تھے اور زیادتی کرنے والوں کومعاف فرمادیتے۔اپنے ساتھ بیٹھنے والوں کو خیر پہنچاتے۔کسی کے ساتھ تُرش روئی سے پیش نہ آتے۔

اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن عظیم الشان میں آپ ؐ کی نرمی اور رحم کا ذکر بطور خاص کیا ہے۔’’دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے۔،تمھارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمھاری فلاح کا وہ حریص ہے۔ ایمان والوں کے یے وہ شفیق ورحیم ہے۔ (التوبہ:۹۔۱۲۸)

ایک اور جگہ پر اللّٰہ تعالیٰ فرماتاہے:’’(اے پیغمبر)یہ اللّٰہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے ہو،ورنہ اگر کہیں تم تند خُو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔ان کے قصور معاف کرو، ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو اوردین کے کام میں ان کو شریک مشورہ رکھو،پھر جب تمھارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہوجائے تو اللّٰہ پر بھروسہ کرو،اللّٰہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔‘‘(ال عمران۳:۱۵۹)

داعیِ حق کے لیے از حد ضروری ہے کہ وہ نرمی ،تحمل اور وسیع الظرفی سے کام لے اور عامۃ الناس کے ساتھ شفقت سے پیش آئے اور اپنے ساتھیوں کی لغزشوں او ر کمزوریوں اور مخالفین کی مخالفت سے صرف نظر کرے اور درگزر سے کام لے۔

سخت گیری،درشت گوئی،تلخ گفتاری اور اشتعال سے کام بگڑتاہے، بنتا نہیں۔اللّٰہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی ہارون علیہ السلام کوفرعون کے پاس بھیجنے سے پہلے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
اِذْھَبَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰیO فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّےِّنًا لَّعَلَّہٗ ےَتَذَکَّرُ اَوْ ےَخْشٰیO
’’جاؤ تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہوگیاہے۔اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا،شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔‘‘ (طٰہٰ۲۰:۴۳،۴۴) یہ وہ فرعون ہے جس نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا اور جس کا نام ظلم و جبر اور آمریت کا استعارہ بن چکا ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا:
خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِاالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَO
’’اے نبی!نرمی ودرگزر کا رویہ اختیارکرو،معروف کی تلقین کیے جاؤ اور جاہلوں سے نہ الجھو‘‘۔(الاعراف۷:۱۹۹)

خود حضور نبی کریم ﷺ نے اسی سلسلے میں فرمایا: میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ غضب اور رضا دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کہوں، جو مجھ سے کٹے ،میں اس سے جڑوں،جو مجھے میرے حق سے محروم کرے، میں اسے اس کا حق دوں، جو میرے ساتھ ظلم کرے، میں اس کو معاف کروں اور اسی چیز کی ہدایت آپ ْﷺ ان لوگوں کو کرتے تھے جنھیں آپ نے دین کے کام پر اپنی طرف سے بھیجتے تھے کہ بَشِّرُوْ وَلاَتُنَفِّرُوْا وَیَسِّرُوْا وَلاَتُعَسِّرُوْا ’’یعنی جہاں تم جاؤ وہاں تمھاری آمد لوگوں کے لیے مژدہ جاں فزاں ہو نہ کہ باعث نفرت اور لوگوں کے لیے تم سہولت کے موجب بنو،نہ کہ تنگی وسختی کے۔‘‘
Hamid ullah khattak
About the Author: Hamid ullah khattak Read More Articles by Hamid ullah khattak: 17 Articles with 16063 views Editor,urdu at AFAQ.. View More