سعودیہ عرب کا 34 ملکی اتحاد

14 دسمبر 2015 مسلم دنیا کے دفاع واتحادکے لیے ایک نوید بن کر آیا.جب سعودی عرب کے وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے ایک پریس کانفرنس میں اس بات کا اعلان کیا کہ مسلم دنیا کے 34 ممالک نے ان کی دعوت پر دفاعی وعسکری میدان میں اتحاد بنانے کا خیر مقدم کیا ہے.اس کا مرکز ریاض اور سربراہ شہزادہ محمد بن سلمان ہوں گے.

امریکہ نے یہ اعلان ہوتے ہی اس کی تحسین شروع کر دی تا کہ وہ اس اتحاد کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کر سکے اور دنیا کو گمراہ کر سکے.امریکہ نے یہ اس لیے کیا تا کہ مسلمانوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ جس اتحاد کی حمایت امریکہ کر رہا ہے وہ کیسے مسلم ملکوں کا خیر خواہ ہو سکتا ہے.یہ امریکہ کا دہرا معیار ہمیشہ سے مسلم ممالک کے ساته رہا ہے.اس کی مثال ہمارا اپنا ملک پاکستان ہے،جسے امریکہ شروع دن سے اپنا دوست اور اتحادی کہتا ہے.لیکن دوسری طرف پاکستان میں حملے بهی کرتا ہے اور پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی کو ناکردہ جرم میں 86 سال قید سزا سنا دی جاتی ہے.پاکستان کے خلاف لڑنے والوں کو فنڈنگ بهی کرتا ہے.
اس پریس کانفرنس میں شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ اس اتحاد کا مقصد داعش جیسے فتنے اور مسلم ممالک کو اندرونی و بیرونی دہشت گردی کے خطرات سے بچانے کے لیے ہو گا.اگر اس اتحاد کے ممالک کی فہرست پر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ اس میں جو ممالک بهی شامل ہیں وہ یا تو دہشت گردی کا شکار ہیں یا ان ممالک کو اندرونی و بیرونی خطرات لاحق ہیں.اس اتحاد میں وہ ممالک بهی شامل ہیں جن کو سرزمین حرمین شریفین کے خلاف ہونے والی سازشوں کی فکر ہے کہ ان سازشوں کو کیسے ناکام بنایا جائے.

اس اتحاد کا اعلان ہوتے ہی کچه حلقوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اس اتحاد میں ایران،عراق اور شام کیوں شامل نہیں.حالانکہ افغانستان کا نام کسی نے نہیں لیا. یہ سب کچه اس اتحاد کو متنازع بنانے کے لیے کیا گیا.جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس اتحاد میں ایسے دہشتگردی کا شکار ممالک شامل نہیں جہاں ان ممالک کی حکومتوں کی رٹ ہی قائم نہ ہو یا ان کی حکومتیں بیرونی آقاوں کے حکم پر اپنی عوام کا خون کرنے میں لگی ہو.شام وعراق کی صورتحال سب کے سامنے ہے کہ ان ممالک کے بیشتر علاقوں پے داعش کا کنڑول ہے اور عراق کے درالحکومت میں ایک مخصوص ذہن کے لوگوں کی حکومت ہے جو اپنے مخالفوں کا خون بہانے میں مصروف ہے.شام میں بشار الاسد روس سمیت مغربی اور علاقائ طاقتوں کے آشیر باد سے حکومت پر قابض ہے.حالانکہ عوام اس کے خلاف ہے اب تو اس کے لیے لڑنے والی فوج بهی نہیں رہی اور اس کی فوج کی جگہ اب حزب الللہ،ایرانی فوج اور عراق و پاکستان سے بلائے گئے کرائے کے جنگجو لڑ رہے ہیں.

ایران کو شامل نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ بهی سب کے سامنے ہے کہ ایران کو کسی قسم کی اندرونی و بیرونی سازشوں کا سامنا نہیں ہے اور دہشتگردی کا بهی سرے سے کوئی خطرہ نہیں ہے.کئی سالوں سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ایران کو امریکہ سے بہت خطرہ ہے. لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے لیبیا،افغانستان اور عراق وغیرہ میں صرف سنی حکومتوں کو توڑا ہے اور ایران کا بال بهی بیکا نہیں کیا.اب تو ویسے بهی ایٹمی معاہدے کے بعد یہ دشمنی دوستی میں بدل چکی ہے.دوسری طرف داعش بهی صرف سعودی عرب،ترکی،کویت،بحرین،یمن اور پاکستان میں دہشتگردی کے کارنامے سر انجام دیتی ہے اور آج تک داعش نے ایران کے خلاف بیان تک نہیں دیا.

یہ بات ساری دنیا کہ سامنے ہے کہ ایران کی اپنی سر زمین پر امن ہے.وہ مغربی طاقتیں بشمول امریکہ اور اسرائیل کے جو ایران کے سب سے بڑے دشمن سمجهے جاتے ہیں نے کبهی ایران کے مفادات پے حملہ نہیں کیا.
جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ اتحاد فرقہ واریت پر مبنی اتحاد ہے تو ان کے لیے عرض ہے کہ اگر یہ فرقہ واریت پر مبنی اتحاد ہوتا تو اس میں لبنان جیسا ملک جو شیعہ تنظیم حزب اللہ کا گڑه سمجها جاتا ہے وہ کبهی اس اتحاد میں شامل نہ ہوتا.

اس اتحاد کے اعلان کے وقت شہزادہ محمد بن سلمان نے جو جملے کہے،ان سے یہ پتا چلتا ہے کہ فرقہ واریت سے بالا تر اتحاد ہے.ان کا کہنا تها کہ "یہ کوئی شیعہ سنی اتحاد نہیں.اس اتحاد کا واضح مقصد داعش جیسے فتنوں اور مسلم دنیا کو درپیش مسائل دے نبرد آزما ہونا ہے.

سب سے خوشی کی بات یہ ہے کہ اس اتحاد کی کمان سعودی عرب کے ہاته میں ہے.کیونکہ گزشتہ کئی سالوں سے سعودی عرب نے مسلم ممالک کی سربراہی کا کام کیا ہے.ویسے بهی اس آپریشن کے سربراه سعودی وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان ہیں جنہیں 30 سال کی عمر میں دنیا کا سب سے کم عمر ترین وزیر دفاع کا شرف حاصل ہے اور وہ اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبها رہے ہیں. اس لیے پوری مسلم دنیا کو اس اتحاد کی ہر طرح سے حمایت کرنی چاہیے.