اندھے قانون کی اندھی پولیس (قسط نمبر3)

 پولیس کے کارناموں پر مبنی واقعات کا طوفان ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا،آج کے اخبارات میں اجتماعی ہوس کا نشانہ بننے والی لدھے والا وڑائچ کی ایک بیٹی کے بارے میں خبر چھپی ہے جسکی ماں با اثر ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج نہ ہونے پر سیشن کورٹ کی دیواروں سے سر پٹختی رہی ، خبر کے مطابق بچی کے ساتھ جولائی میں زیادتی کا واقعہ پیش آیا تھا مگر عدالتی احکامات کے باوجود اب تک مقدمہ کا اندراج نہیں ہو سکا اندازہ کریں اس پولیس نامی ’’بلا ‘‘کا کہ آج بھی ایف آئی آر جیسی ابتدائی کارروائی مظلوموں ،کمزوروں اور غریبوں کے لئے کس قدر ناممکنات میں سے ہے ، عوام بے چارے سفارش کے بغیر تھانے کے دروازے کے اندر قدم رکھنے کی ہمت نہیں کرتے ،مائیں بیٹیوں کی عصمتوں کا بین کرتی قانون کی اندھی بہری دیواروں کے ساتھ اپنا سر پٹختی ہیں مگر انصاف نہیں ملتا، پولیس عدالتی احکامات کی یوں دھجیاں بکھیرتی ہے کہ افسران کئی کئی تاریخوں تک ریکارڈ لے کر پیش نہیں ہوتے ، تھانوں میں سائلین کے ساتھ بدکلامی ،گالی گلوچ اور بے عزتی روزمرہ کی ’’ڈیوٹی‘‘ میں شامل ہے ، اصلاح تو شروع ہی اعتراف سے ہو تی ہے ،گناہ اور خرابی کے اعتراف سے مگر کیاکسی بڑے افسر نے آج تک اپنی طویل سرکھانے والی بریفنگ میں پولیس کی اس گندی روش کا تذکرہ کرنا مناسب سمجھا ہے ۔۔؟ جھوٹی کارکردگی،جعلی پولیس مقابلے وکارروائیاں ،جعلی برآمدگیاں ، مدعیان سے ملی بھگت کرکے شناخت پریڈ،اور واہیات قسم کی تفتیش یہ ہے آپکی پولیس۔۔جسے انسانوں کی فورس تک کہتے ہوئے شرم آتی ہے، وہاں فیصل کالونی کھیالی کے ایک گھر میں ’’کھیل‘‘ کوئی اور چل رہا تھا مگر اس کھیل میں حصہ نہ لینے دیے جانے پر تھانیدار نے لڑکی سمیت دوسرے مردوں کو دہشت گرد قرار دے کر مکان کا گھیراؤ کر لیا گیا۔۔۔ کون آپ کا اعتبار کریگا ۔۔؟ آپ کی شاندار کارکردگی کاثبوت یہ ہے کہ اب شہر میں اتنے سکول نہیں ہیں جتنے جوئے کے اڈے۔۔۔ گھر گھراتنے قحبہ خانے کھل گئے کہ جسم کا کاروبار سپلائی زیادہ ہونے کی وجہ سے مندے کا شکار ہے اور ریٹ چند سوروپوں تک گر چکا ہے،بدمعاش اور عیاش گروہ پولیس کی سر پرستی میں معتبر بنے ہوئے ہیں ، صرف دھلے اور گرجاکھ میں میں ایک نہیں کئی کئی اڈوں پر کھلے عام کاروبار جاری ہے ،بعض افسروں کی ہوس بجھانے کے لئے پولیس ملازمین خود ’’دلالی‘‘ کرتے اور سرکاری سواری میں ’’مال‘‘ پہنچاتے ہیں مگر پولیس کے سپہ سالار کو خبر نہیں ہوتی ، ان علاقوں میں جا کے پوچھیں 12سال کا بچہ بتائے گا کہ ’’کھیل ‘‘ کا یہ سامان کس کس گلی کے کون سے گھر میں موجود ہے تو کیا افسران بہرے اور اندھے ہیں کہ انہیں کچھ خبر نہیں ،یا ٹاؤٹوں کی رپورٹوں سے ہی فرصت نہیں اگر تھانے ان ٹاؤٹوں نے چلانے ہیں تو پھر تو بات ہی ختم، جو بھی افسر آتا ہے ،اخبارات میں تصویریں لگوانے کا شوقین اور جھوٹی کارروائیوں کو کارکردگی بنا کر پیش کرتا دکھائی دیتا ہے، سچی بات تو یہ ہے کہ اگر حکومت جرائم کو قابو کرنا چاہتی ہے تو اسے پہلے پولیس کو قابو کرنا ہو گا ، تبادلوں کے ’’ جھُولے ‘‘ دینے کی بجائے دھڑا دھڑ پیٹیاں اتریں گی تو دیکھیں کیسے سیدھی نہیں ہوتی یہ بڑی توندوں والی خوفناک فورس ( جاری ہے)
 
Faisal Farooq
About the Author: Faisal Farooq Read More Articles by Faisal Farooq: 107 Articles with 67250 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.