شدت بغاوت کو جنم دیتی ہے

وبہ قندوز افغانستان کے شمال میں واقع ہے جس کے مشرق میں تخار ، جنوب میں بغلان ، مغرب میں بلخ اور شمال میں ہمسایہ ملک تاجکستان واقع ہے 8040مربع کلو میٹر پر پھیلے اس علاقے کی آبادی آخری سروے کے مطابق 8لاکھ افراد پر مشتمل تھی ۔صوبہ قندوز مرکزی شہر امام صاحب سمیت چھ اضلاع چار درہ ، قلعہ زال ، علی آباس ، خان آباد اور دشت ارچی پر مشتمل ہے۔قندز کے باسی پشتون ، تاجک ، ازبک ، ترکمن ، عرب ،ایماق اور ہزارہ افغان قبائل ہیں،صوبہ کندز کا مرکز مزار شریف کے بعد افغانستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔امریکہ اور افغانستان کی جانب سے افغان طالبان کی شکست اور نقصانات کے بڑے دعوے کئے جاتے رہے ہیں لیکن افغان طالبان کے کمانڈر مولوی رحمت اﷲ جو اس علاقے میں ’ عزم آپریشن ‘ نامی جنگ میں مصروف تھے، بتاتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے ۔ بلکہ انکے مطابق افغان طالبان نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں ۔ صوبے کے مرکز سے ملحق گورتبپے کا علاقہ ، تولکہ اور شرکت نامی علاقے ، دشت ارچی اور چہار درہ کے دو اضلاع اور امام صاحب کے بھی وسیع علاقوں پر افغان طالبان نے قبضہ کیا ۔ 21چیک پوسٹ مکمل طور پر قبضے میں لی گئیں ، چار ٹینک اور ایک رینجرز گاڑی ، کرولا کار اور100عدد سے زیادہ چھوٹے اور بڑے ہتھیار اسلحہ گولہ بارود بھی افغان طالبان کے ہاتھ لگا۔ کمانڈر مولوی رحمت اﷲ 55افغان اہلکاروں کی گرفتاری کا بھی دعوی کیاتھا۔ قندوز پر چودہ سالہ جنگ کے بعد یعنی 2001ء کے بعد افغان طالبان کی جانب سے پہلی بڑی کاروائی تھی جس میں بر سر اقتدار حکومت کو نقصان اٹھانا پڑا اور طالبان نے قندوز پر حملہ اور اس کے وسیع علاقے پر تین دن تک قبضہ کرکے پوری دنیا کو حیران کردیا کہ طالبان اب بھی ایک بھرپور عسکری قوت رکھتی ہے کہ افغان فوج کو شکست دینے میں کامیاب ہوئی۔ قندوز کے قبضے پر اشرف غنی نے انکوئری کروائی جس میں شامل تفتیشی کمیٹی کے سربراہ امر اﷲ صالح نے نیوز کانفرنس میں اقرار کیا کہ ’ سب سے بڑی ناکامی قیادت کی ہے اس دن معلوم ہی نہیں تھا کہ انچارج کون ہے ؟ امریکا نے صورتحال نازک بتائی

قندوز پر افغان طالبان حملے کے چار اہم مقاصد تھے ، پہلا یہ تھا کہ وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرکے دنیا کو بتانا چاہتے تھے کہ وہ کبھی بھی کسی بھی صوبے کو فتح کرسکتے ہیں ، دوسرا ان کا سب اہم مقصد قندوز کی جیل میں قید طالبان کو رہائی دلانا تھا جس میں وہ کامیاب ہوئے ، عسکری طور پر اپنے آپ کو مضبوط کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر اسلحہ ، گاڑیاں ، خصوصاََ بکتر بند گاڑیاں اور ٹینکوں کو بھی حاصل کرنا تھا ، قندوز پر قبضے کے بعد طالبان نے روایت سے ہٹ کر سیلفیز بنائیں ، صحافیوں کو عوام کے ساتھ طالبان کو کھڑے دکھا کر تصاویر لینے کی اجازت دی گئی۔ افغانستان کے نائب آرمی چیف جنرل مراد علی مراد نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ قندوز کے قبضے میں طالبان کو پاکستان جرنیلوں کی حمایت حاصل تھی ، افغانستان کی عادت سے بنتی جا رہی ہے کہ وہ افغانستان میں ہونے والے ہر بڑے واقعے کے عقب میں پاکستان پر بنا ثبوت الزام عائد کردیتا ہے۔

پاکستان کی جانب سے آئی ایس پی آر نے واضح طور پر کہا کہ ’ افغان عہدے دار کی طرف سے عائد کردہ الزامات سراسر بے بنیاد ،بغیر ثبوت کے، غیر ضروری اور نقصان دہ ہیں‘۔

افغانستان میں امریکہ اور ا نکی من پسند افغان حکومت کے خلاف افغان عوام میں اپنے وطن کی آزادی کی ایک مگن ہیں۔ امارات اسلامیہ افغانستان کے دعوؤں سے ہٹ کر ہم افغانستان کی تاریخ جانتے ہیں کہ افغان عوام حریت پسند ، باعزت اور آزاد و خود مختار اقوام کی صف میں ایک بڑا مقام رکھتی ہے ۔ ایک آزاد ی پسند شہری کے حیثیت سے افغانستان کی عوام کا بھی فرض ہے کہ وہ صدیوں کی روایت کے مطابق اپنے رسم و رواج کو اپنائیں ۔یہاں ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ جب صوبہ قندوز کو افغان طالبان نے فتح کیا تو انھوں نے عام معافی کا بھی کیا اور یہ پیغام بھی دیا تھا کہ شدت سے کام نہ لیا جائے کیونکہ شدت بغاوت کو جنم دیتی ہے ۔یہ ایک قابل غور نقطہ ہے کہ شدت بغاوت کو جنم دیتی ہے ہم اپنی اصطلاحات میں اسلامی عسکریت پسنددوں کے خلاف شدت پسند اور انتہا پسند جیسے لفظوں کا ہی استعمال کرتے ہیں ۔ ہم اس بات سے صرف نظر نہیں کرسکتے کہ القاعدہ کے بعد روس کے خلاف طالبان امریکہ کے سی آئی اے کے ایجنٹ اسامہ نے بنائی تھی جو بعد ازاں افغانیوں کا ہی ہو کر رہ گیا اورباقاعدہ ایک اسلامی ریاست کے لئے متحرک ہوگیا۔

یہاں ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکہ و نیٹو کی کاروائیاں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں اور اس نے اپنی بقایا زندگی پر امن و محفوظ گذاری ۔ اسی طرح افغانستان کے ملا عمر کی وفات کے بعد ہی طالبان کی صفوں میں انتشار پیدا ہوا اور اس کا سہرا بھی امریکا اور بھارت کو جاتا ہے کیونکہ دو سال پرانے وفات کے واقعے کو اس وقت سامنے لایا گیا جب افغان طالبان ، افغانستان اور پاکستان ایک میز پر بیٹھ کر پہلا دور کرچکے تھے ۔اسلام آباد وضاحت سے کہہ چکا ہے کہ افغان طالبان پر ان کا اثر ضرور ہے لیکن وہ ان کے تابع نہیں ہیں۔یہ ہی وہ نقطہ آغاز تھا جس نے عالمی استعماری قوتوں کو کچھ ایسے منصوبے بنانے پر مجبور کردیا کہ جو کام سیدھی انگلی سے نہیں کیا جا سکتا اس کے لئے انگلی ہی تیڑھی کرلی جائے ، لہذا عالمی استعماری قوتوں نے سرخ ریچھوں سے مقابلے کیلئے جہاد کو صائب اور پاکستان میں ایک بغیر داڑھی والے خلفیہ کو بیٹھا دیا تو جب تک ان کے مفادات رہے ،مجاہد ، مجاہد اسلام رہا لیکن جیسے ہی سرخ ریچھوں کو شکست ہوئی اور اس کی ریاست طویل جنگ کے مضمرات سے نہیں بچ سکی تو جو مجاہدین اسلام تھے یک بہ یک دہشت گرد ، شدت پسند ، انتہا پسند بن گئے ۔

نائن الیون کے واقعے کے بعد جس طریقے سے افغانستان کے نہتے عوام پر 32ممالک کی افواج بھوکے کتوں کی طرح حملہ آورہوئیں کہ انھیں افغانستان تر نوالہ ملے گا لیکن انھیں یہاں ایسی سخت مزاحمت کا سامنا ہوا کہ جس کا انھوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔یہود و نصاری اورہنودکی سازشوں سے کون ناواقف ہے۔یہاں انھوں نے پاکستان میں ایسے گروہوں کی بنیاد رکھ دی جس کا کام دہشت پھیلانا تھا ۔ پاکستان کی سرزمین ان کے لئے زرخیز میدان ثابت ہوئی اور یہاں دہشت گردی کی آبیاری ہوتی چلی گئی ، پاکستان کے شمالی مغربی علاقوں پر اسلام کے نام پر قبضے کی مہم شروع ہوئی ،سوات ملاکنڈ ، وزیر ستان ، فاٹا کے علاقے پاکستان کے ہاتھ سے نکلتے چلے گئے ، سیاسی حکومتیں مصلحت سے کام لیتی چلیں گئیں لیکن جب کراچی ائیر پورٹ سانحہ میں غیر ملکیوں کی مداخلت اور سانحہ اے اپی ایس رونما ہوا تو عسکری قوت کو ان کا جواب دینا فرض ہوگیا ۔بہت دیر ہوچکی تھی لیکن پاکستانی عسکری قوت کو معلوم تھا کہ یہ وہ دشمن ہے جو بچوں سے ڈرتا ہے۔وہ پاک عسکری قوت کا سامنا نہیں کرسکا۔

افغانستان میں طالبان کی قوت دیکھ کر عالمی استبدادی قوتوں نے داعش کے سر پر ہاتھ رکھا اور اس دولت اسلامیہ کہلانے والوں کو افغانستان میں داخل کردیا جو صرف عراق و شام تک محدود تھے، افغان طالبان سے لڑنے کیلئے داعش سے بہتر ہتھیار عالمی منصوبہ سازوں کے پاس نہیں تھا کیونکہ ان دونوں جماعتوں کے پرچم پر کلمہ طیبہ جو لکھا ہوا تھا۔دولت اسلامیہ نے امارات اسلامیہ سے چھڑپوں کا سلسلہ شروع کردیا لیکن پاکستان ، پڑوس کی ہر مصیبت کو گلے لگانے کا عادی ہوگیا ہے ، اس لئے جب پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اﷲ نے اقرار کرلیا کہ پنجاب سے 100کے قریب افراد داعش میں شامل ہونے گئے ہیں تو اس کے بعد دوسرے صوبوں نے تو سختی سے انکار کیا لیکن جب کراچی میں صفورا گوٹھ ،اور پھر داعش خواتین گروپ کا انکشاف ہوا تو یہ سمجھنے میں کوئی دقت نہیں کہ داعش کی سر پرستی کرنے والے وہی ہیں جو کبھی مغرب کو سر پر بیٹھاتے ہیں تو کبھی ان کے پرچموں کو نذر آتش کرتے ہیں ۔ کبھی سپاہ بناتے ہیں تو اسلام کے نام پر کبھی سیاسی جماعت بن جاتے ہیں ، چہروں پر نقاب بدل بدل کر آنے والے ہی دراصل داعش ہیں جو اپنے مختلف روپ دھار کر مسلمانوں کی برین واشنگ کرتے ہیں۔آپریشن ضرب عضب کی مکمل کامیابی کے لئے دعا گو ضرور ہیں لیکن آپریشن راہ راست و راہ نجات کے بعد خبیر ون اور ٹو کی ضرورت پیش آنے کا مطلب یہی ہے کہ پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والے موجود ہیں اور ان کے سر پرست ابھی مکمل گرفت میں نہیں آئے ۔طالبان ، داعش وغیرہ کے ناموں کے چکر میں پڑنے کے بجائے دراصل ہمیں ان کے خلاف پورے پاکستان میں آپریشن کلین اپ کرنے کی ضرورت ہے ۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 666024 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.