ایک نعرہ، جو کہیں کھو گیا

 No Fee, Low Fee
No Fee, Low Fee
یعنی فیس نہیں، کم فیس۔ یہ نعرہ ہم نے کچھ عرصے تک شہر کی مختلف سڑکوں پر لگے بینروں پر لکھا دیکھا۔ یہ بینر نجی اسکولوں کی جانب سے فیسوں میں من مانے اضافے کے خلاف والدین کے احتجاج کا حصہ تھے۔ بہت سے اسکولوں کے باہر پُرامن مظاہرے بھی ہوئے۔ لگ رہا تھا کہ یہ احتجاجی مہم نتیجہ خیز ثابت ہوگی اور نجی اسکولوں کا اپنا ظالمانہ چلن بدلنا پڑے گا، مگر کچھ عرصے بعد احتجاج کی یہ صدائیں خاموش ہوگئیں۔ کچھ نہ ہونا تھا اور ہمیشہ کی طرح نہ ہو سکا۔

ماجرا کچھ یوں تھا کہ پرائیویٹ اسکولز نے اچانک فیس بڑھانے کا علان کردیا۔ اعلان ہوتے ہی بچوں کے ماں باپ نے سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا۔ شور مچا، مظاہرے ہوئے، خوب نعرے لگائے گئے۔کافی گرماگرمی رہی۔ نجی اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین کا مطالبہ تھا کہ فیسوں کو کم کیا جائے اور جب تک ایسا نہیں کیا جاتا ہم فیس نہیں دیں گے۔ تاہم فیس جمع نہ کروانے کا ر سک کون لے سکتا تھا۔ اگر فیس نہ جمع کرواتے تو اسکول والے بچے کو اسکول میں بیٹھنے ہی نہ دیتے اور یوں پڑھائی کا ہرج ہوتا سو ہوتا، لیکن بچے کو اگر اسکول سے نکال باہر کیا جاتا تو جگ ہنسائی کی فکر تھی۔ سو اب فیس نہ دینے کے فیصلے کو عملی صورت دینے کا فیصلہ کرنا مشکل تھا۔

دوسرا مہینہ شروع ہوا۔ فیسیں کم ہونے کے بجائے بڑھیں اور والدین نے سر جھکا کر فیس ادا کی۔

تبدیلی لانے کی خواہش تو ہم سب کرتے ہیں لیکن اس کے لیے کوشش نہیں کرتے۔ بدلاؤ کا عمل قربانی چاہتا ہے، اس کے لیے نقصان اٹھانا پڑتا ہے، جدوجہد کرنا ہوتی ہے، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہ کرنا پڑے، بس ہم ایک دن سو کر اٹھیں اور ملک میں انقلاب آچکا ہو، سب کچھ بدل چکا ہو۔ ایسا نہ انسانی تاریخ میں کبھی ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے۔

نجی اسکولوں کی من مانی کے خلاف ہونے والا یہ احتجاج اور اس کا یوں ختم ہوجانا جیسے کبھی تھا ہی نہیں، ہمارے رویوں کا عکاس اور مثال ہے۔ ہم ظلم واستحصال، بدعنوانی، بے قاعدگیوں اور ملک میں موجود دیگر خرابیوں کے خلاف باتیں تو بہت کرتے ہیں، حکومت، اداروں اور سیاست دانوں کو ان خرابیوں کا ذمے دار قرار دیتے ہیں، لیکن صورت حال کے سدباب کے لیے خود کچھ کرنے کو تیار نہیں۔

جن ملکوں کو ہمیں دیکھ کر رشک آتا ہے کہ وہاں کی حکومتیں عوام کے حقوق اور اپنے فرائض کے بارے میں کس قدر حساس ہیں، ان ممالک کے بارے میں ہمیں اس حقیقت سے بھی پوری طرح باخبر ہونا چاہیے کہ وہاں کے عوام اپنے حقوق کے معاملے میں کوئی سمجھوتا نہیں کرتے۔ انھوں نے طویل جدوجہد کے بعد اور قربانیاں دے کر اپنی حیثیت قانون اور قواعدوضوابط کی حکم رانی منوائی ہے۔ انھیں یہ سب بیٹھے بٹھائے ہاتھ نہیں آیا۔ اس کے لیے انھوں نے بے شمار جانیں گنوائیں اور بے حد مصائب سہے ہیں۔

میرا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے یہاں ان ممالک کی تاریخ دہرائیں۔ اﷲ نہ کرے کہ ہمارا وطن وہ کچھ دیکھے جو ان ممالک کی سرزمینوں نے دیکھا۔ کہنا صرف اتنا ہے کہ جب تک ہم ظلم اور استحصال کے خلاف باقاعدہ جدوجہد نہیں کرنے گے اور تسلسل کے ساتھ آواز نہیں اٹھائیں گے، اس وقت تک کچھ نہیں بدلے گا۔ اگر نجی اسکولوں کی جانب سے فیسیں بڑھانے کے خلاف شروع ہونے والا یہ احتجاج جاری رہتا، احتجاج کے پُرامن طریقوں کے ذریعے اپنی آواز ایوانوں تک پہنچائی جاتی، والدین متحد اور یکسو رہتے ہوئے مطالبہ تسلیم کیے جانے تک فیس ادا نہ کرتے، تو آئندہ ہمیشہ کے لیے نجی اسکولوں کی من مانی کا خاتمہ ہوجاتا، مگر استقامت کا مظاہرہ نہیں کیا گیا اور بہت جلدی ہار مان لی گئی۔ یعنی والدین کا نقصان کا خوف نجی اسکول مالکان کے فائدے کا سبب بن گیا۔
ہمارا یہی رویہ ہے جو ہمیں ظلم کا شکار کیے ہوئے ہے۔ نجی اسکولوں کی من مانی کے خلاف سڑکوں پر آنے والے یہ والدین بہرحال خراج تحسین کے بھی مستحق ہیں کہ انھوں نے ایک ظلم کے خلاف آواز تو اٹھائی، ورنہ ہمارے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں اسی طرح استحصال کیا جارہا ہے مگر ہم سب کچھ خاموشی سے برداشت کر رہے ہیں۔

صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف ہر تجارتی طبقہ اپنے مفادات کے لیے کسی پلیٹ فارم پر متحد ہے۔ تاجر اور صنعت کار چیمبرز کے ذریعے اپنا مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں تو ٹرانسپورٹر، نجی اسکول مالکان، ڈاکٹر اور مختلف شعبوں اور پیشوں سے وابستہ لوگوں کی اپنی اپنی تنظمیں قائم ہیں۔ دوسری طرف ہم عوام ہیں․․․․جو صنعت کاروں اور تاجروں کی طرف سے مارکیٹ میں لائی جانے والی اشیاء کے خریدار ہیں، جو پبلک اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ پر سفر کرکے مشکلات سہتے ہیں، جنہیں اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں پڑھانے کی سزا ہر سال بڑھ جانے والی فیسوں اور دیگر مدوں میں وقتاً فوقتاً ہونے والی وصولی کی صورت میں ملتی ہے، اسپتالوں میں مسائل سے ادویہ کی بھاری قیمتوں تک شعبۂ صحت میں ہونے والے ظلم کا نشانہ بنتے ہیں۔ ہماری کوئی تنظیم نہیں، کوئی پلیٹ فارم نہیں جس کے ذریعے ہم اپنے حقوق کا تحفظ کرسکیں اور اپنے حقوق کی پامالی کے خلاف آواز اٹھا سکیں۔ رہی سیاسی جماعتیں تو وہ دراصل جاگیرداروں، صنعت کاروں اور تاجروں کے کلب ہیں، اور انھیں طبقوں کے مفادات کی ترجمان اور محافظ ہیں، انھیں عوام کے حقوق اور مسائل سے کیا غرض۔

ہمیں اگر اپنا آج بدلنا ہے تو اس کے لیے مختلف شعبوں سے متعلق اپنے حقوق کی محافظ تنظیمیں بناکر جدوجہد کرنی ہوگی، ہر خوف سے بے نیاز ہوکر، ہر اندیشے کو ایک طرف رکھ کر اور قربانی کے جذبے کے ساتھ۔ ورنہ تبدیلی صرف ایک نعرہ اور بس ایک خواب رہے گی-
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 283124 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.