دہشت گردی اور اسکی روک تھام

اگر ہم تاریخ کے صفحات کو پلٹ کر دیکھیں تو دہشت گردی زمانہ قدیم سے چلی آ رہی ہے ۔ دنیا کی تاریخ میں ریکارڈ پر موجود سب سے پہلا دہشت گرد حملہ فرانس میں 1795میں ہوا۔ دہشت گردی کی تعریف مختلف اوقات میں مختلف انداز میں کی گئی ہے کیونکہ دہشت گردی میں حالات و واقعات کے مطابق تغیر و تبدل آتا رہتا ہے اور متفقہ طور پر اسکی تعریف کرنا بہت مشکل ہے ۔ دہشت گردی کی تعریف یوں تو ہر دور میں کی جاتی رہی ہے مگر ذیادہ تر دہشت گردی کی تعریف کو ااپنے مطالبات یا نظریات کو ذبردستی خوفزدہ کرکے بزور طاقت منوانے کیلئے فنی حرب اور چال کے طور پر لیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کا عمل خواہ وہ کسی بھی صورت میں ہو کسی ایک کیلئے ہر دو صورتوں میں ایک ہی وقت میں جرم اور مقدس فرض کے زمرے میں آرہا ہوتا ہے۔ دہشت گردی ایک ایسا عمل اور جرم ہے جو نا قابل معافی اور انتہائی قبیح عمل ہے جس سے اپنے نظریات کو دوسروں پر ذبردستی ٹھونسنے اور منوانے کیلئے بے گناہوں اور معصوم لوگوں کا کشت و خون کیا جاتا ہے۔ اصل میں دہشت گردی کا یہ ناقابل معافی جرم معاشرے میں رہنے والوں کیلئے انتہائی خوفناک اور ڈرا دینے والا وہ عمل ہے جس کے ذریعے دہشت گرد اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔اگر ہم دہشت گردی کی تاریخ کو کھنگال کر دیکھیں تو موجودہ دور کی دہشت گردی قدیم دہشت گردی سے جڑی ہوئی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ دہشت گردی ہر دور میں اپنے معروضی حالات کے تابع کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی شکل میں ضرور موجود تھی۔ دہشت گردی کی ایک طویل تاریخ جو موجودہ جدید دور سے جڑی ہوئی ہے اسمیں ہمیں حکومتی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کو کسی طور بھی نہیں بھلانا چاہئے۔ جب ہم دہشت گردی کو عملی طور پر دیکھتے ہیں تواسمیں ملوث تمام کردار خواہ وہ حکومتی سرپرستی میں ہو رہے ہوں یا پھر عوام اور حکومت کے خلاف دہشت گردی ہو رہی ہو تو ہم اسکو واضح کرنے میں ذہنی طور پر انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسکی وجہ دہشت گرد وں کی جانب سے دہشت گردی میں استعمال ہونے والی چالیں اور وہ ترکیبیں ہیں جو دہشت گرد کسی بھی سطح پر سیاسی یا پھر سماجی طور پر استعمال کرتے ہیں۔ فرانس کے یونا بمبار کا وہ کردار ہمارے سامنے آ جاتا ہے جسمیں وہ اکیلا ہی ایسا مجرم اور دہشت گر د تھا اب ہم اسے ایک جرائم پیشہ ، دہشت گرد یا پھر انقلابی کہہ سکتے ہیں۔ کیا فرانس کے اس دہشت گرد کا موازنہ فرانس کی ان انقلابی حکومتوں سے کیا جا سکتا ہے جنہوں نے 1790ء میں دہشت گردی کے لفظ کو اپنی رعایا کے خلاف استعمال کرتے ہوئے ہزاروں لوگوں کا قتل عام کیا؟؟ آیا ایسے دہشت گردوں کے گروپ جن میں مغربی جرمنی کے دہشت گرد اور امریکہ کے دہشت گرد گروپ شامل نہیں ہیں جو زیر زمین رہتے ہوئے اپنی کارروائیاں کرتے ہیں؟؟ ان موجودہ حالات میں جبکہ امریکہ، سعودی عرب ، برطانیہ اور دوسری طاقتیں جو دوسرے ممالک میں دہشت گردی کی گھناؤنی کارروائیاں کرواتی ہیں کیا ہم انہیں سرکاری سرپرستی میں ہونے والی عالمی دہشت گردی کا نام نہ دیں؟؟ کیا مغربی اور یورپی طاقتیں ( نیٹو) امریکہ کی سر پرستی میں اپنی طاقت کے بل بوتے پر مختلف کمزور ممالک میں جنگ و جدل کرکے اور وہاں پر خونریزی کرکے وہاں کے وسائل پر قبضہ کرکے انہیں سمیٹ کر اپنے ممالک میں نہیں لے جار ہے۔ اور اپنی معیشت کو مضبو ط کرنے کیلئے انہیں اسلحے کی فروخت نہیں کرتیں اور انہیں اپنے زیر نگین اور مرہون منت نہیں رکھنا چاہتی؟؟ مغربی اور یورپین ممالک کی دوغلی پالیسی نے پوری دنیا کو صرف اسلئے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے کہ وہ اپنے وسائل کو دگنا کرنے کی دھن میں مصروف ہیں اور اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے دوسرے ممالک میں دہشت گردی پھیلاتے ہیں اور اپنا اسلحہ بیچ کر ان ممالک کوکنگال کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ یہ بین الا اقوامی ریاستی دہشت گرد جو دہشت گردی کو الفاظ کے گورکھ دھندے میں پھنسا کر پوری دنیا کو بے وقوف بنانے میں مصروف ہیں اور وہ دہشت گردی کی تعریف اپنے مقاصد کو حل کرنے کیلئے اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جو جماعتیں یا پھر گروہ دہشت گردی میں ملوث ہیں انکی سیاسی حیثیت اور حجم میں کیا فرق ہے اور یہ سوالات سر ابھارتے ہیں کہ کونسی چیز دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہے اور کونسی چیز دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتی ۔ مختلف مذہبی جماعتیں خواہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتی ہوں اور وہ گروہ جو دہشت گردی کی دبے الفاظ میں حمایت کرتی ہیں کیا وہ جماعتیں اور گروہ قابل گرفت نہیں ہیں؟؟ مگر ایسا نہیں ہوتا اور یہی وہ جماعتیں اور گروہ ہیں جو دہشت گردی کو ہوا دینے اور ان سے نرم گوشہ رکھنے میں پیش پیش ہوتی ہیں اور انہیں فنڈنگ کرتی ہیں اور انکی مکمل حمایت کرکے انہیں پھلنے پھولنے کا موقع دیتی ہیں۔ خواہ یہ مڈل ایسٹ میں ہوں مڈل ایسٹ سے پرے ہوں یا پھر خاص طو پر سعودی عرب، کویت اور قطر ہوں جو دہشت گردوں کی فنڈنگ میں مصروف ہیں اور انہیں پناہ بھی دیتے ہیں۔مغربی جرمنی ہو، فرانس ہو ، روس ہو، امریکہ ہو، مڈل ایسٹ ہو اپنے اپنے مفادات کیلئے دہشت گرد وں کو تیار کرتے ہیں اور اپنے مخالف ممالک میں مذہب کی بنیاد پر، سیاست کی بنیاد پر یا پھر اپنے معاشی اہداف حاصل کرنے کیلئے انکی نرسری تیار کرتے ہیں ایک رپورٹ کے مطابق مغربی یورپ سے 500-1000یورو میں کسی بھی قسم کا آٹومیٹک ہتھیار خریدا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ایک رپورٹ کے مطابق مشرقی یورپ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق زیادہ تر تیار کردہ اسلحہ جو دہشت گردی میں استعمال ہوتا ہے وہ امریکہ، چین اور روس کا تیار کردہ ہوتا ہے۔ اسی طرح القاعدہ یا پھر داعش جس کے پاس راکٹ لانچرز، انتہائی جدید بندوقیں اور ٹینک ہیں وہ کہاں سے آئے ہیں یہ سب کے سب سعودی عرب اور اسرائیل سے سمگلنگ کے ذریعے حاصل کئے گئے ہیں اسی طرح عراق، شام اور مشرقی یورپ کے علاہ ترکی بھی پیش پیش ہے جو دہشت گردوں کو اسلحہ مہیا کرتا ہے اور انکی فنڈنگ کرتے ہیں اسکے علاوہ یہ دہشت گرد داعش کے زیر قبضہ جو علاقے ہیں داعش کے یہ دہشت گرد اپنے زیر قبضہ علاقوں سے ہر روز 60ہزار بیرل تیل نکال کر مختلف ممالک کو سمگلنگ کرتے ہیں ۔ اسکے علاوہ بینکوں کی لوٹ مار، لوگوں کو اغوا کرکے اور ڈکیتیاں کرکے بے بہا دولت اکٹھی کی جاتی ہے اور اس سے اسلحہ خرید کر پوری دنیا میں دہشت گردی کی جاتی ہے ان دہشت گردوں کا اپنا کوئی ہدف نہیں ہوتا یہ تو بڑے بڑے ممالک کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ پابندیوں کی وجہ سے تقریباً اسی لاکھ لوگ پوری دنیا سے ایک منظم جرم کی صورت میں بینکوں سے دو نمبر لین دین میں ملوث ہیں اور یہ تمام بلیک منی جو مختلف بینکوں سے مختلف ملکوں میں بھیجی جاتی ہے دہشت گردی میں استعمال ہوتی ہے۔اور اس دولت کے بارے میں ایک اندازے کے مطابق چار کروڑ ڈالر سے بھی ذیادہ کی رقم ملوث ہے جو ان ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دہشت گرد تنظیئموں کو اغوا برائے تاوان سے حاصل ہونے والی رقم 2014میں 20ملین ڈالر کے قریب تھی۔ اسی طرح اسلامی ممالک میں دہشت گرد دوسرے غیر مذاہب کے لوگوں کو زبر دستی مسلما ن کرتے ہیں یا پھرد وسری صورت میں انہیں بھتہ دینے کیلئے مجبور کرتے ہیں۔ مشرق وسطٰی اور سعودی عرب میں ایک اندازے کے مطابق ہر سال2بلین ڈالرز تیل اور دوسری دہشت گرد کارروائیوں سے حاصل ہوتے ہیں اور اسکے پیچھے صرف دولت کا ارتکاز ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان دہشت گرد تنظیموں کو یونہی کھلا چھوڑ کر رکھا جائیگا یا پھر ان پر قابو پایا جائیگا تو اس سوال کا جواب انتہائی آسان ہے کہ جب تک ہم اپنے مفادات کے تابع رہینگے یہ دہشت گرد تنظیمیں انکے مقاصد اور مفادات کیلئے استعمال ہوتی رہینگی اور انکے ختم ہونے کے امکانات اب معدوم ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں ۔ آنے والا وقت انتہائی کڑا وقت ہے اور صرف وہ ممالک ہی اپنا وجود قائم رکھنے میں کامیاب ہو سکیں گے جو طاقت ور ہونگے اور یہ تمام لڑائی طاقت ور اور کمزور وں کی لڑائی ہے۔ دہشت گردی کے پیچھے جہاں دولت اور معیشت ملوث ہے وہیں مغربی اور مشرقی طاقتوں کی مذہبی شیطنت بھی ملوث ہے جو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے طاقت کے زور پر اپنا اپنا موقت منوانے کے درپے ہیں۔ خواہ یہ امریکہ ہو، برطانیہ ہو، روس ہو، چین ہو یا پھر سعودی حکومتیں ہوں۔ انہوں نے اپنے اپنے پتلی تماشے لگائے ہوئے ہیں اور یہ انکی ڈوریں ہلا کر عوام کی خون ریزی کرواتے ہیں۔اسی طرح خواہ یہ مغربی میڈیا ہو یا پھر ہمارا میڈیا ہوصرف اورصرف اپنے چینلز کی ریٹنگ بڑھانے اور دولت کمانے کے چکروں میں ہے وہ عوام کیلئے سوالات جو چھوڑ جاتا ہے مگر انکا دیا نتدارانہ حل نہیں بتاتا۔ ہمارے میڈیا سے تعلق رکھنے والے اکثر لوگ مغربی دنیا سے متاثر ہیں اور انمیں سے اکثر لوگوں نے تعلیم بھی وہیں پر حاصل کی ہے جو انکے دماغوں پر چھائی ہوئی ہے اور یہ لوگ ہر بات کو اپنے پیرائے میں بیان کرتے ہیں مگر اسکا حل بتانے سے گریزاں ہیں۔سعودی عرب ، برطانیہ ، امریکہ اور اسرائیل پوری دنیا میں ایک مخصوص ترکیب اور فن حرب جس میں مذاہب کا عنصر شامل کرکے اسے مذید فعال بنا دیا گیا ہے خاص طور پر مغربی دنیامیں عیسائیت، پاپائیت، اسرائیل میں یہودیت اور سعودی عرب کی حکومتیں اور پاکستان میں پاکستان کی سعودی عرب کی منظور نظر حکومتیں جو سلفی اوروہابی گروپوں کی فنڈنگ کرتی ہیں اور بلیک منی کو گلف ممالک اور انٹر نیشنل بینکنگ اور اسلامی بینکنگ کے لین دین ، سفارتخانوں، این جی اوز مدارس اور مساجد کی تعمیر اور سمگللنگ کے ذریعے ان رقوم کو مختلف ممالک میں دہشت گرد جہادی تنظیموں کو پہنچاتی ہیں اور ان رقوم کی ترسیل میں مذہبی سکالرز، ایجنسیز، تاجر، صنعتکار ، فنکار، طائفے شامل ہیں اور یہ رقم ان دہشت گرد تنظیموں میں کام کرنے والوں کی ٹرینینگ، اسلحہ کی خریداری، عسکری اداروں میں کام کرنے والوں کے ضمیروں کی خریداری، جہادی لٹریچر، مذہبی پمفلٹس، ہینڈ بلز، کتابوں کی اشاعت اور انکی تقسیم پر خرچ کئے جاتے ہیں جس سے ان دہشت گرد تنظیموں میں کام کرنے والے اور نوجوان بچوں کے مذہبی جذبات کو ابھار کر اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔اب رہی یہ بات کہ ہم دہشت گردی سے جان کیسے چھڑوا سکتے ہیں تو یہ بات نہ صرف مشکل ہے بلکہ آنے والے وقتوں میں یہ نا ممکن بھی ہو سکتی ہے۔ پھر بھی اسکی شدت میں کمی لائی جا سکتی ہے جسکے لئے آمرانہ سوچ کو ختم کرنا ہوگا خواہ وہ مذہبی ہو یا پھر سیاسی، اقتصادی یا معاشی ہو ۔ ہمیں آمرانہ سوچ رکھنے والوں کو رد کرنا ہوگا، دہشت گردوں کی ہر قسم کی مالی اور اخلاقی اعانت اور امداد کرنے والوں اور انکی سوچ کیساتھ ہاں میں ہاں ملانے والوں کا محاسبہ کیا جائے۔دہشت گردی خواہ اسلام کے نام پر کی جائے یا پھرکسی اور مقصد کیلئے ہو اسکی فنڈنگ کو روکا جائے، بے روزگاری کا خاتمہ کیا جائے، تعلیم عام کی جائے اور تعلیم کا دہرا معیار ختم کیا جائے، مذہبی منافرت پھیلانے والوں کا محاسبہ کیا جائے اور انہیں عبرت ناک سزائیں دی جائیں، عسکری اداروں کو مضبوط بنایا جائے اور ان میں سے مذہبی شدت پسندی اور فرقہ واریت کے عنصر کو دور کیا جائے، ہر وہ سیاسی یا پھر مذہبی جماعت جو دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتی ہے اسکی نشاندہی کرکے اس پر پابندی عائد کی جائے، اسکولوں میں مذہبی منافرت پھیلانے والے اساتذہ کی بیخ کنی کی جائے۔ جہادی تنظیموں پر سخی سے پابندی عائد کی جائے۔بینکوں اور مالیاتی اداروں پر کڑی نگرانی رکھی جائے اور بلیک منی کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ مساجد اور مدرسوں کی رجسٹریشن کی جائے اور حکومتی نگرانی میں چلائے جانے کے انتظامات کئے جائیں۔ دہشت گردی میں ملوث تمام ممالک سے تعلقات ختم کئے جائیں، بین الاقوامی طور پر بینکنگ سسٹم میں جدید سسٹم شروع کیا جائے اور بلیک منی کو وائٹ منی میں تبدیل کرنے اور بلیک منی کو وائٹ کرنے والی ہر اس حکومت کو رد کیا جائے جو بلیک منی کو وائٹ کرنے میں ایسے لوگوں کو چھوٹ دیتی ہے اور انکی مدد کرتی ہے۔ بلیک منی ہی دہشت گردی میں سب سے بڑا وہ عنصر ہے جو اسے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہ

Syed Anees Bukhari
About the Author: Syed Anees Bukhari Read More Articles by Syed Anees Bukhari: 136 Articles with 140744 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.