اُبھرتی سیاست- چبھتے مسائل……

ہمارے ملک ہندوستان کی تاریخ عجیب و غریب دور سے گزرتی ہوئی سیاست کے ایسے پرآشوب مصائب سے دوچار ہے جس پر تاریخ نویس خامہ فرسائی کرنے پر مجبور ہیں۔ اس حسین گلشن نے مسلمانوں کی نو سو سالہ مملکت اسلامیہ ہندکی تاریخ جاہ و حشمت، رعب و جلال، عزت و احترام کا ایسا پرلطف اور دلفریب ذریں دور دیکھا ہے جنہیں پڑھنے اور لکھنے کے بعد نگاہیں آبدیدہ ہوجاتی ہیں۔ ۱۸۵۷ء کی شکست و ریخت کے بعد مسلمانانِ ہند کا وقار برابر گردش زمانہ کا شکار رہا۔ آخرکار سات سمندر پار سے آئے غاصبوں کے چنگل سے آزادی کے بعد بھی ملک عزیز میں ہراعتبار سے مسلمانوں کو نت نئے پروپیگنڈہ میں پھنساکر شان و شوکت کو مدھم کرنے کی سازش آج تک جاری ہے۔ پرسنل لا، مساجد، مدارس، دینی مراکز، فسادات کی آگ، فرقہ پرستی کا زہر، اندھی سیاست کا طوفان اور مذہبی منافرت کا سیلاب ایسا اُمڈا کہ محسن انسانیت، رہبراعظم، سیدالکونین اور رحمت عالم پر چند بازاری افراد نے جس انداز میں غلط کتابیں تصنیف کی اور سازشی بیان دے کر مسلمانانِ ہند کو اضطراب و قلق میں ڈال دیا ابھی حال ہی میں اُترپردیش کا سب سے گندہ درندہ کملیش تیواری نے جس انداز میں آپﷺ کی شان اقدس میں گستاخانہ بیان دیا اس سے پوری دنیا کے انسانوں بالخصوص مسلمانوں میں بے چینی پائی جارہی ہے۔ مسلمانوں کے حقوق کی فلک بوس نعرے لگانے والی سیکولر اور نام نہاد سیاسی پارٹیوں کا متعصبانہ رویہ بھی اس ضمن میں کھل کر عیاں ہوگیا ہے۔

چند دنوں پہلے ہندوستان کے دو بڑے لیڈران کے خلاف کورٹ کا معاملہ آیا تو سیکولر خیمہ میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ ایسے قد آور لیڈران کو کورٹ کے سامنے کھینچے جانے پر لوگوں میں چہ می گوئیاں ہونے لگیں۔ اسی طرح نربھیا کیس میں فیصلہ آیا تو راجیہ سبھا اور پارلیامنٹ میں باضابطہ بحث کرائی گئی اور اس کے والدین کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے قانون میں ترمیم کی گئی۔ یقینا یہ اچھاقدم ہے اور بچہ کے نام پر بڑے جرائم کو نظر انداز کرنے کی روش پر روک لگے گی، ہم بھی اس فیصلے کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ جب اسی ملک میں ایک مخصوص فرقے کے جذبات سے کھلواڑ کیا جاتا ہے ،ان کی جان ومال تک محفوظ نہیں ہے۔ اس کی محافظت کے لیے کوئی ٹھوس قانون بنے اس کی کوشش نہیں ہورہی ہے۔ آئے دن ملک میں مسلمانوں کے پیغمبر اور ان کی تہذیبی او رمذہبی اقدار پر حملے کئے جاتے ہیں۔ نبی کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے لیکن اس پر قانون بنایا جانا تو در کنار کسی ممبر پارلیامنٹ یا سیاسی جماعت آواز تک بلند کرنا ضروری نہیں سمجھتی ہے۔ یہ ایک سیکولر ملک کے بدقسمتی کی بات ہے۔ حالانکہ مسلمانوں نے ہمیشہ سیکولر زم کو باقی رکھنے کے لیے بڑی سی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ جس کی ایک بڑی مثال گذشتہ دنوں بہار کے انتخاب میں بھی دیکھنے کو ملی ہے۔ مسلمانوں نے تمام مصلحتوں اور تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف سیکولرزم کی بقا کے لیے یک جٹ ہو کر آر جے ڈی ، جے ڈی یو اور کانگریس خیمے کے حق میں ووٹ دیا اور انہیں اقتدار پر بٹھایا۔ مسلمانوں کی طرف سے یہ اتنی بڑی قربانی تھی جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ہے۔ لیکن جب معاملہ ان کو حق حقوق اور مراعات دینے کا مرحلہ آیا تو پھر حکمرانوں نے آنکھیں پھیرنا شروع کردیا ۔ ستائیس ہزار اردو اساتذہ کی بحالی کے لیے حکومت نے جو ڈیڈ لائن دی تھی وہ ختم ہوچکی ہے مگر تقرری کا عمل پورا نہیں ہوسکا۔ اب بھی امیدوار جو گذشتہ دو سالوں سے چکر کاٹ رہے ہیں وہ سڑکوں پر ہی بدحواسی میں پھرتے نظر آتے ہیں۔ 2459 مدرسہ بورڈ کے ملحقہ مدارس کی منظوری کا معاملہ اب بھی تکمیل تک پہنچنے کو بے قرار ہے ۔ بہت جد وجہد کے بعد مدارس اساتذہ کو پے اسکیل تودیا گیالیکن وہ بھی لالی پاپ ہی ثابت ہورہا ہے۔ سب سے بڑا ظلم مدرسہ میں بحال ان اساتذہ کے ساتھ ہوا ہے جو ۲۰۱۱ء کے بعد بحال ہوئے ہیں ۔ ان کی بحالی پرانی شرح تنخواہ پرہوئی ہے ،لیکن جب ۲۰۱۳ء میں پے فیکس سیشن کامعاملہ ہوا تو اُنہیں ٹھیکہ کے زُمرے میں ڈال دیا گیا ۔کم و بیش یہی حالت سرکاری اسکولوں میں ٹھیکہ پر بحال اساتذہ کا بھی ہے اُنہیں بھی پے اسکیل تو دے دیا گیا ہے لیکن یہ کس طرح کا پے اسکیل ہے اسے طے کرنا ابھی باقی ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اسکولی اساتذہ کو تو یہ بھی میسر ہوگیا لیکن انہی کے ساتھ بحال مدرسہ کے اساتذہ کو اب بھی ٹھیکہ پر ہی رکھا گیا ہے۔ ابھی گذشتہ اسمبلی انتخاب میں 85فیصد مسلمانوں نے موجودہ حکومت کے اتحاد کے حق میں ووٹنگ کی تھی لیکن جب قلمدان وزارت کی تقسیم عمل میں آئی تو ذات اور برادری کو ترجیح دی گئی اور ایک بار پھر مسلمان نظر انداز کردیئے گئے اور صرف 4 مسلم اراکین کو وزارت کا کھلونا دھراکر مسلم ووٹروں کو بہلادیا گیا۔ یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے اور صرف بہار پر ہی منحصر نہیں بلکہ پورے ملک میں اور تقریبا تمام پارٹیاں تقریباً نصف صدی سے زیادہ عرصے سے مسلمانوں کو ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرتی رہی ہے او ران کا سیاسی استحصال ہوتا رہا ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان اس سیاسی قلابازی سے سبق لیتے ہوئے ایک قدم آگے بڑھیں اور اتحاد و اتفاق کا ثبوت دیتے ہوئے مسلمان ووٹ کی سیاست کو دھار دار اور موثر بنانے کی فکر کریں۔ ہر قسم کی تفریق ، عصبیت بطور خاص ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ملک و ملت کی تعمیر کیلئے سوچیں اور نئے سال میں مضبوط اتحاد ، دھار دار قیادت اور دار و گیر والی قوت کے جملہ شیرازے کو مجتمع کریں، کیونکہ ملک کے حالات کو دیکھیں تو یہی وقت کی پکار ہے۔

NAZRE ALAM
About the Author: NAZRE ALAM Read More Articles by NAZRE ALAM: 5 Articles with 3220 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.