تعلیم دشمنی کی فضا میں یوجی سی کی سرد مہری!

ملک کے جملہ تعلیمی امور کا جائزہ لینے سے بڑی مایوسی ہوتی ہے ۔ کیوں کہ نہ حکومت تعلیمی پالیسی کے تئیں سنجیدہ ہے اور نہ ہی یوجی سی(یونیورسٹی گرانٹ کمیشن) فرائض کی ادائے گی میں فعال۔تعلیم سے متعلق مسلسل منظر عام پر آنے والی خبروں سے اندازہ ہورہا ہے کہ فقط تعلیمی نظام کومضبوظ ومستحکم کرنے کا دعوی کیا جاتا ہے۔ تاہم زمینی حقائق ملک کی جگ ہنسائی کے لیے کافی ہیں۔ یوجی سی بھی اپنے قیامِ مقصد سے انحراف کرتے ہوئے حکومت کی نظروں میں فقط سرخروئی کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی ۔ گذشتہ دنوں ایک خبر سے حیرت ہوئی کہ مرلی منوہر جوشی کی قیادت والی پارلیمنٹ کی احتسابی کمیٹی نے اسکالر شپ معاملہ میں یوجی سی کی نکتہ چینی کی ہے۔ کیوں کہ ایک طرف یوجی سی فنڈ کی قلت کا رونا روتی ہے تو دوسری طرف اس کے پاس موجود فنڈ ہی خرچ نہیں ہوپا تاہے۔ رپورٹ کے مطابق سال 2010-11میں صرف 13فیصد، 2011-12 میں 31فیصد اور 2012-13میں فقط 14فیصد فنڈ ہی خرچ کیا گیا۔

اس رپورٹ کے تناظر میں نن نیٹ فیلوشپ (غیر جے آر ایف /ایس آر ایف طلبا کو ملتا ہے)کے مسئلے کو د یکھنے سے کئی باتیں سامنے آتی ہیں ۔بنیادی بات یہ کہ جو یو جی سی اپنے فنڈ کا نصف حصہ بھی خرچ نہیں کرپارہی ہے ، اگر وہ فنڈ کی قلت کا رونا روتے ہوئے نن نیٹ فیلوشپ کو بند کردے تو اس کے نظریات اور اس کی تساہلی کے بارے میں کیا رائے قائم کی جائے؟ساتھ ہی یہ بھی کہنا پڑتا ہے ، جس ادارہ کا قیام اعلی تعلیم کو معیاری بنانا ہو، وہ خود طلبا کے ساتھ مذاق پر اتر آئے تو ملک کا مستقبل کیسا ہوگا ، ذرا بھی عقل رکھنے والا خود سوچ سکتا ہے ۔ یہ تو ظاہر ہے تعلیمی امور پر حکومت قطعا ً سنجیدہ نہیں ہے ، اس لیے یوجی سی پر دباؤ ڈال کر نن نیٹ فیلو شپ بند کروانا چاہ رہی ہے ۔ تاہم یہاں یہ کہنے کی گنجائش نکل آتی ہے کہ ہونہ ہو یوجی سی کی تساہلی اور غیر ذمہ دارانہ رویہ سے حکومت کو یہ جواز مل گیا کہ اس فیلوشپ کے لیے کوئی فنڈ نہ ملے تو بھی حرج نہیں؟ یا پھر حکومت نے یہ دیکھا کہ یوجی سی اپنے مختص بجٹ خر چ نہیں کرپارہی ہے ،اس لیے اس کے بجٹ میں اضافہ نہیں بلکہ کٹوتی مناسب ہے ۔ ]حکومت کی ثناخوانی قطعا ً مقصود نہیں[اگر جو یوجی سی اپنے فنڈ کا فقط 13,14اور 31فیصد خرچ کرکے پچھلے کئی برسوں سے نن نیٹ فیلو شپ دیتی چلی آئی ہے، تو اب کیوں فنڈ کی کمی کا رونا رورہی ہے ؟ ایسا تو ہے نہیں کہ یوجی سی کا فنڈ نصف سے بھی کم کردیا گیا ہے۔ جس طرح پچھلے چند برسوں میں فنڈ کا استعمال ہوا ہے ، اگر ایسے میں یوجی سی فنڈ کا نصف بھی کم کردیا جائے تو اسے کسی پریشانی کا احساس تک نہیں ہونا چاہئے ۔ لیکن یوجی سی کے موجودہ کردار کے مدنظر کہا جا سکتا ہے کہ طلبا اپنے تعلیمی مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے یوجی سی کو جوکچھ بھی مشورہ دیتے ہیں ، اس کے خلاف کرنا ہی اب اس کا مقصد بن گیا ہے۔ 2006میں نن نیٹ فلو شپ کی شروعات ہوئی تھی۔ جس سے تقریبا آج 35ہزار طلبا مستفید ہور ہے ہیں۔ظاہر ہے کہ اسے ختم کرنے سے 35ہزار طلبا کی تعلیم متاثر ہوگی۔جواہرلال نہرو یونیورسٹی سمیت کئی تعلیمی اداروں کے طلبا نے گذشتہ برس یوجی سی سے اس فیلوشپ میں اضافہ کا مطالبہ کیا تھا ۔ یعنی ایم فل طلبا کو مل رہے 5ہزار اور پی ایچ ڈی 8000 کوعلی الترتیب بڑھا کر 8اور 12کردیا جائے ۔ یوجی سی نے یقین دہانی بھی کرائی تھی]سنا تو یہ بھی گیا ہے کہ اضافہ کا سرکلر بھی جاری کردیا گیا تھا[ تاہم یکایک دو مہینہ قبل یوجی سی نے اس فیلوشپ کو بند کرنے کا اعلان کردیا۔ تاہم جب طلبا نے مظاہرہ کیا تو چند شرائط کے ساتھ اسے مسلسل کردینے کا’ عندیہ‘ ظاہر کیا گیا ہے۔ تاہم گذشتہ دومہینہ سے طلبا یوجی سی کے باہر اس میں اضافہ کے مطالبے کے ساتھ دھڑنے پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ سخت سردی میں بھی یوجی سی نے طلبا کو اس طرح نظر انداز کردیا ، جیسے ان کے تعلیمی مسائل سے انھیں کوئی سروکار ہی نہیں۔

حکومت کی نکتہ چینی اور یوجی سی کی سرد مہری پر سب سے بڑا سوال یہ ہوتا ہے کہ آخر تعلیم کے ساتھ ایسا مذاق کیوں ؟اس فیلوشپ کو بند کرنے کی آخر وجہ کیا ہے ؟ حکومت فنڈ میں کمی کیوں کررہی ہے ؟ فنڈ میں کمی کے باوجود بھی تو یوجی کوئی نہ کوئی راہ نکال سکتی کہ نن نٹ فیلو شپ میں اضافہ ممکن ہوسکے ؟اس فیلوشپ کو بند کرنے کے اعلان میں یوجی سی کا منشا صاف ظاہر ہے کہ طلبا اس میں اضافہ کا مطالبہ نہ کرسکے ، بلکہ اسے مسلسل کر ناہی طلبا پر اپنے اوپر احسان عظیم تصور کرلے! یوجی سی کا یہ فیصلہ تو مستحسن تھا کہ نومبر 2014میں جے آرایف کی رقم میں اضافہ کیا گیا۔ یعنی ایچ آراے کے علاوہ جونئیر ریسرچ فیلو شپ کی رقم 25اور سینئر کے لیے 28 ہزار مقرر کی گئی۔ اس تناظر میں بھی نن نیٹ فیلوشپ میں اضافہ کا مطالبہ جائز ہے اور یوجی سی کے بجٹ کو دیکھتے ہوئے تواور بھی دباؤ بنا نا بہتر ہوگا ۔

حکومت جس طرح تعلیم کا مذاق اڑا رہی ہے ، ایسے میں تو یو جی سی کو مثبت قدم اٹھانا چاہئے تھا ۔ طلبا کے مستقبل اور تعلیمی نظم ونسق کی بحالی کے لیے اسے حکومت سے سخت لفظوں میں بات چیت کرنی چاہئے تھی ، تاہم اس کا ڈھلمل رویہ خود اس کے کردار پر سوالیہ نشان لگا رہا ہے کہ آخر وہ اپنے قیام کے مقصد کو کیوں بھول رہی ہے۔2014-15کے بجٹ سے پہلے تعلیم کے لیے 83ہزار کروڑ روپے مختص تھے ،تاہم ا ب تقریباً 14ہزارکروڑ کی کٹوتی کرکے فقط 69ہزار مقرر کیا گیا۔یعنی تعلیمی بجٹ میں تقریباً 17فیصد کی کٹوتی ہوئی ۔ ہمیشہ حکومتوں سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ تعلیم کا بجٹ بڑھائے اور حکومتوں نے بیشتر ایسا ہی کیا۔ آزادی کے بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ تعلیمی بجٹ میں کمی کی گئی۔حکومت کی اس تعلیم دشمنی پر یوجی سی کو سخت قدم اٹھانا چاہئے تھا ۔لیکن یوجی سی آج خود ایسے کام کررہی ہے ، جوطلبا کے حق میں مفید نہیں ۔ لہذا سوال یہ ہے کہ ایسے میں کیسے ملک کا مستقبل سنورے گا اورکیسے عالمی سطح پر تعلیمی نقطہ نظر سے ہماری اہمیت تسلیم کی جائے گی۔ اب تعلیم کو WTO کے حوالے کرنے کی کوشش جاری ہے۔2005میں بھی منموہن حکومت نے یہ تجویز رکھی تھی، لیکن سخت مخالفتوں کی وجہ سے یہ سرد بستے میں چلی گئی تھی تاہم اب موجودہ حکومت اس کے لیے مکمل طور پر من بنا چکی ہے۔ حکومت کی اس تعلیم دشمنی سے تعلیم اس قدر مہنگی ہوجائے گی کہ متوسط طبقہ تک کے لیے حصول تعلیم انتہائی مشکل امر ہو گا۔ سوال یہ ہوتا ہے کہ آسٹریلیا اور کناڈا جیسے ممالک نے تعلیم میں عالمی تجارت سے انکار کیا ہے تو ہندوستان کیسے اپنی تعلیم کو قربان کرنا چاہ رہی ہے؟

1964میں کوٹھاری کمیشن نے تعلیم پر کل بجٹ کا 6فیصد خرچ کرنے کی شفارش کی تھی۔ ہائر ایجوکیشن خصوصاً ریسرچ پر 1.5کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن آج بجٹ کا بمشکل تمام4فیصد ہی تعلیم پر خر چ ہورہا ہے۔ ہائر ایجوکیشن خصوصاً ریسرچ کا معاملہ تو اور بھی تکلیف دہ ہے۔ کیوں کہ ریسرچ پر فقط 0.9 فیصد ہی خرچ ہوتا ہے۔جب کہ چین میں 1.9، روس میں 1.5، برازیل میں 1.3اور جنوی افریقہ میں 1.0 بجٹ فقط ریسرچ کے لیے خاص ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اعلی تعلیم یعنی ریسرچ کے تناظر میں ہندوستان کی شرح فقط 12فیصد ہے ، جبکہ امریکہ میں 82، برازیل میں24،چین میں20اورپاکستان میں 5 فیصدہے۔ کمزور تعلیمی صورتحال میں یوجی سی کو ذمہ داری سے قدم رکھنا چاہئے تھا ، تاکہ اعلی تعلیم کا معیار بڑھے۔ اسے تو یہ بھی سوچنا چاہئے تھا کہ 1986-85میں تعلیم پر غور وخوض کے لیے مہم چلی تھی۔ تعلیمی پالیسیاں بنائی گئی تھیں ۔ اب تیس برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ دنیا بدل گئی۔ ایجوکیشن سسٹم تبدل ہوگیے، اس کے باوجود بھی منظم طریقے سے تعلیمی مسائل زیربحث نہیں آ رہے ہیں۔ فقط وقفہ وقفہ سے البتہ ایسے فیصلے لیے ضرور گیے، جو صورتحال سے میل نہیں کھاتے، بلکہ نزاعی بن جاتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ایک طرف حکومت تعلیم دشمنی کی مثال قائم کرتی جارہی ہے اور یوجی سی سرد مہری کی تاریخ۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 92372 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More