ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!

 چند روز قبل ڈسکہ میں رب نواز نامی شخص نے عین شادی کے دن عروسی لباس میں ملبوس اپنی ہی بہن سعدیہ بی بی کو گولیوں سے چھلنی کر کے یہ ثابت کردیا کہ عورت ایسا ضعیف طبقہ ہے، جو جس صورت میں بھی ہو، ظلم کا نشانہ بنتا ہے۔ حوا کی بیٹی صدیوں سے نجانے کون کون سے عنوانات کے ساتھ ظلم کی چکی میں پس رہی ہے۔ ملک کی52 فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہیں، لیکن خواتین کو معاشرے میں ان کا جائز کا مقام حاصل نہیں ہے۔ خواتین کے حقوق کی بحالی کے لیے قوانین بن چکے ہیںلیکن ان پرعمل نہیں کیا جاتا۔ معمولی معمولی بات پر عورت کو قتل کردیا جاتا ہے۔ گزشتہ سال فرزانہ نامی خاتون کو اس کے بھائیوں نے اینٹیں مار مار کر صرف اس لیے قتل کردیا تھا کہ اس نے عاقل بالغ ہونے کے ناطے اپنے نکاح کے لیے بھائیوں کی مرضی پر عمل نہیں کیا تھا۔ شاید فرزانہ کو یہ معلوم نہیں تھاکہ اس نے جس معاشرے میں آنکھ کھولی، وہاں ”خاندانی روایات“ اس قدر مضبوط ہیں، جو بھی ان پر حرف آنے کا باعث بنے اس کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا جاتا ہے۔ عورت فاﺅنڈیشن کے مطابق پاکستان میں 2008 سے لے کر اب تک 3ہزار سے زاید خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا جا چکا ہے۔ایک اور رپورٹ کے مطابق 2014میں 923 خواتین اور82کمسن لڑکیوںکو غیرت کے نام پرقتل کیا گیاہے۔
ایک صاحب کہنے لگے کہ عورت کا اپنی مرضی سے شادی کرنے سے مشرقی ثقافت کی پامالی اور والدین کی عزت کو بٹا لگتا ہے، اگر عورتیں خود ہی اپنی شادیاں کرنے لگیں تو پھر ہم میں اور مغرب میں فرق ہی کیا رہ گیا۔ عرض کیا بالکل بجا کہ اسلام نے لڑکیوں کی شادیوں کے لیے ولی اور سرپرست کی اجازت پر زور دیا ہے۔ اپنی بچیوں کے لیے جو فیصلہ خاندان کے سمجھدار بزرگ کرسکتے ہیں، ناسمجھ لڑکی کا فیصلہ اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا، لیکن اگر کوئی ناسمجھی کر ہی بیٹھے تو کیا اس کی وہ سزا ہے جو ہمارے معاشرے میں عورتوں کی جان لے کر دی جاتی ہے؟ لڑکیاں اپنی مرضی سے شادی کر کے” ثقافت“ کو ہی پامال کرتی ہیں، شریعت کو تو نہیں روند ڈالتیں؟ کیا ثقافت شریعت سے بھی بڑھ کر ہے؟ کیا روایات کی قدر و قیمت انسانی جان سے بھی اعلیٰ ہوئی؟ شریعت تو شادی کے لیے عورت کی مرضی کو لازم قرار دیتی ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں رشتہ کرنے سے پہلے کتنی لڑکیوں کی پسند ناپسند کو سامنے رکھا جاتا ہے یا ان کی رائے ہی لی جاتی ہے؟ کم از کم پوچھنا تو بنتا ہے، لیکن پوچھا بھی نہیں جاتا۔ جس کو خاندان نے لڑکی کے لیے چن لیا، چاہے لڑکی کو پسند ہو یا نہ ہو، اسی کے ساتھ نکاح کے بندھن میں بندھنا ضروری ہے۔ عورت کی کیا مجال کے انکار کردے۔ چاہے خاندان نے دولت، شہرت، زمین اور دیگر فوائد حاصل کرنے کے لیے نوعمر لڑکی کے لیے کھوسٹ بڈھا ہی چنا ہو۔ معاشرے میں حیا و پاکدامنی اور اپنی اقدار بھی ضروری ہیں، لیکن وہ یوں جان لے کر تو نافذ نہیں ہوتیں۔ اگرکوئی کھلی بدکاری بھی کرے تو بھی کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی کسی کو اجازت نہیں، سزا عدالت دے،اگر لوگ فیصلے خود ہی کرنے لگیں تو پھر یہ ملک و ریاست تو نہیں، بلکہ جنگل ہی بن گیا۔ جہاں قانون اس کا ہی چلتا ہے جو طاقتور ہو۔

عورت ذات کمزور ہے، ضعیف ہے اور یہی اس کا جرم ہے۔ مردطاقتور ہے، عورت اس کے ماتحت ہے، کمزور ہے۔ طاقتور اپنے ہر حکم کی بجاآوری چاہتا ہے۔ عورت کے نشانہ بننے کی لیے تو کسی بڑی وجہ کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ بس مرد کے ذہن میں یہ خیال آیا چاہیے کہ عورت میری رٹ کو چیلنچ کر رہی ہے۔ پھر تو عورت کی سزا کے لیے سالن میں نمک زیادہ ڈالنا ، گھر میں چھوٹی موٹی لڑائی اور ناچاقی ہوجانا ، بچے کی بجائے بچی کی پیدائش ہوجانا اور شوہر کی دوسری شادی پر ناراضی کا اظہار ہی کافی ہے۔ پھر کبھی بیوی کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے، کبھی بیوی کو فائرنگ کر کے قتل کردیا جاتا ہے، کبھی گلا دبا کر ماردیا جاتا ہے اور کبھی لوہے کے راڈ سے اس کا سر پھاڑ دیا جاتا ہے اور کبھی طلاق دے دی جاتی ہے۔

کسی دانا کا کہنا ہے کہ” اگر کسی معاشرے کا تجزیہ کرنا مقصود ہو تو اس معاشرے میں عورت کی سماجی حیثیت دیکھ لو۔“ ہمارے معاشرے میں روز عورتوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات چیخ چیخ کر ہمارے معاشرے کا خوفناک تجزیہ پیش کر رہے ہیں۔ ملک میں آئے روز خواتین کی عصمت دری کے واقعات ہمارے معاشرے کا نقاب نوچ رہے ہیں۔ عورت کے استحصال کی کہانی پرانی ہے، جو زمانے کے ساتھ مزید تلخ ہورہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ملک میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اغوا، قتل، ریپ، غیرت کے نام پر قتل، اقدام قتل، زبردستی کی شادی، جان سے مارنے کی دھمکی، جنسی ہراساں، تشدد، وراثت سے محرومی اور دیگر کئی عنوانات سے عورتیں زیر عتاب ہیں۔ہمارے معاشرے میں بسا اوقات مردوں کی سزا بھی عورتوں کو دی جاتی ہے۔ اپنی دشمنیاں مٹانے کے لیے عورتوں کو دشمنوں کے گھر بیاہ دیا جاتا ہے۔ اپنے مردوں کے رشتے کرنے کے لیے عورتوں کا وٹہ سٹہ کیا جاتا ہے۔ اپنی زمین محفوظ کرنے کے لیے عورتوں کا قرآن سے نکاح کردیا جاتا ہے اور وراثت میں عورت کومحروم کردینا تو شاید ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ آفاقی حقیقت یہ ہے کہ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی سمیت ہر روپ میں عورت انتہائی عزت و احترام کی مستحق ہے اور اسلام نے نہ صرف عورت کو انسانی معاشرے میں اس کا جائز مقام دیا، بلکہ اسے وہ حقوق بھی عطا کیے، جن کا اس سے پہلے کوئی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ افسوس یہ ہے کہ ہم ان حقوق کا زبانی تذکرہ تو بہت کرتے ہیں، لیکن انھیں عملی جامہ پہنانے کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں۔ آفاقی قوانین کی راہ میں ہماری ثقافت آڑے آجاتی ہے۔ان حالات میں ”علامہ اقبال“ مرحوم کا یہ شعر ہی پڑھا جاسکتا ہے
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 633413 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.