ساقی نہ کچھ ملانہ دیاہواشراب میں

نریندرمودی ماسکو کے ساتھ چھ ایٹمی پلانٹس،جدید جنگی طیا رے،میز ائل اورہیلی کاپٹروں کی خریداری کے چھ ارب ڈالرکے سولہ معاہدوں پردستخط کرنے،کابل پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح کے موقع پرپاکستان کانام لیے بغیر تنقید کے نشتربرسانے کے بعداچانک نوازشریف صاحب کی سالگرہ اور ان کی نواسی کی شادی کی مبارکباددینے کیلئے اپنے بھاری بھرکم وفدکے ساتھ لاہورپہنچ گئے۔ہوائی اڈے سے فوری طور پرنوازشریف صاحب کی ذاتی رہائش گاہ''جاتی عمرہ'' پردو گھنٹے کی ملاقات میں کیاگفتگوہوئی،اس کے بارے میں ابھی تک کچھ سامنے نہیں آسکا۔ان دنوں پاک بھارت کے دونوں اطراف حکومتی حلقوں میں دوستی کابخارجہاںشدت اختیارکرتاجارہاہے وہاں''ساقی نہ کچھ ملانہ دیاہواشراب میں'' کے مصداق اس ملاقات کے بعدتجسس،حیرت اوربے یقینی کے پہاڑجمع ہو گئے ہیں۔

’’ہارٹ آف ایشیا''کانفرنس کےموقع پربھارتی وزیرخارجہ سشماسواراج نے میڈیا کے سامنے اعتراف کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان اورہندوستان کے درمیان جنگ آپشن نہیں اورمسائل کے حل کیلئے کمپری ہنسیومذاکرات کاعلان کیالیکن واپس پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوئے ان کی نیت کاصاف پتہ چل گیا۔ اس میں شک نہیں مسائل،مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہوتے ہیں مگریہ بھی حقیقت ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کیلئے نیت اوّلین شرط ہے جبکہ اس حوالے سے مکاربھارت کاایک نیاپینتراسامنے آگیا ۔پاکستان میں بھارتی ہائی کمشنرٹی سی راگھوان کاکہناہے کہ بھارت آئندہ مذاکرات میں کشمیرکے صرف اس حصے پربات کرے گاجواس وقت اسلام آبادکے زیر انتظام(آزادکشمیر)ہے۔اس سے قبل بی جے پی کے ترجمان نے بھارتی ٹی وی پرایک سوال کاجواب میں کہاتھاکہ بھارت،پاکستان کے ساتھ دہشتگردی کے موضوع پرہی بات کرے گالیکن دہشتگردی کاسلسلہ چونکہ کشمیر سے جڑاہواہے،وہیں پر دہشتگردی کی زیادہ تروارداتیں ہوتی ہیں لہنداجب دہشتگردی کی بات ہوگی توظاہرہے کہ اس جگہ کا ذکربھی آئے گاجہاں دہشتگردی پل رہی ہے،اس لئے پاکستان کے ساتھ دہشتگردی کے ساتھ کشمیرپر بھی بات ہوگی لیکن جب بھارتی ہائی کمشنرسے پوچھاگیاکہ کیانئی دہلی کے زیرانتظام (مقبوضہ) کشمیرپر گفتگوکی گنجائش ہے توان کاکہناتھاکہ ۱۹۴۷ء میں پاکستانی فورسزکے کشمیرپرحملے کے بعدبھارت نے سب سے پہلے اقوام متحدہ میں مداخلت کی پٹیشن دائرکی تھی۔ ان کادعویٰ تھاکہ ہماری پٹیشن کی بنیادیہ تھی کہ بھارت کے حصے میں آنے والے کشمیرکے ایک حصے پر (بقول ان کے)پاکستانی فوج کاغیرقانونی قبضہ ہے۔

ایک صحافی نے کہاکہ ان کے خیال میں بھارت نے ایک قدم پیچھے کیاہے، عالمی سطح پرکشمیرکومتنازع خطہ تصورکیاجاتاہے۔ انہوں نے کہا مذاکرات کی نازک صورتحال مدنظررکھتے ہوئے دونوں ملکوں کو چاہئے کہ وہ ردّعمل سے بچنے کیلئے محتاط انداز میں آگے بڑھیں۔یادرہے کہ نئی دہلی نے تو٢٠٠٨ء میں ممبئی حملوں کے بعدمذاکرات ختم کردیئے گئے تھے۔٢٠١١ء میں دونوں ملکوں نے امن بات چیت بات بحال کرنے پراتفاق کیامگر۲۰۱۴ء سے کشمیرکی متنازعہ سرحدپرگولہ باری سے دونوں جانب جانی ومالی نقصان ہوا۔٣٠نومبرکو پیرس میں ماحولیاتی تبدیلی پراقوام متحدہ کی کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم نوازشریف اوران کے بھارتی ہم منصب نریندرمودی کے درمیان مختصرملاقات اورپھردونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیروں نے بنکاک میں مذاکرات بھی بظاہرسردمہری ختم کرنے کاسبب بنے۔اطلاعات کے مطابق بھارتی ہائی کمشنرنے آزاد کشمیرپرپاکستان کے مبینہ غیرقانونی قبضے کا واویلا مچا دیا ہے کہ پاکستان سے مذاکرات میں پہلے آزادکشمیرکے مسئلے پربات کرنے کی پخ نکال دی ہے اور انہوں نے اپنے بیان کے حوالے کے طورپراقوام متحدہ میں دی جانے والی پٹیشن کاذکرکیاہے توپھر اب اقوام متحدہ کی اسی پٹیشن کے حوالے سے کیوں نہ آگے بڑھاجائے۔

راگھوان کایہ مؤقف سوفیصددرست ہے کہ ۱۹۴۸ء میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہروکشمیرکاتنازعہ اقوام متحدہ لے گئے تھے لیکن راگھوان پھریہ بھی بتائیں کہ آگے کیاہواتھا؟اگرانہیں کشمیرکے مؤقف پر قلابازی کھانے کیلئے صرف اسی حدتک تاریخ ے دوجملے رٹائے گئے ہیں کہ بھارت کشمیرکادعویٰ لیکر اقوام متحدہ لے گیاتھاتواس کے آگے چندجملے ہم ان کو بتائے دیتے ہیں کہ پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ۵جون۱۹۴۹ء کوایک قراردادمنظورکی تھی جس کوبھارت اورپاکستان دونوں نے بخوشی تسلیم کیا تھا اور اس قراردادمیں طے پایاتھاکہ بھارت اورپاکستان دونوں مل کر کشمیری عوام کوحق خواردایت میں استصواب رائے کے ذریعے کشمیری عوام کی مرضی معلوم کریں کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق ثاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ،پھروہ جس رائے کااظہارکریں ،ان کی رائے کااحترام کرتے ہوئے دونوں ممالک اس کے مطابق اس مسئلے کوحل کریں۔

جب راگھوان اب خوداقوام متحدہ کی بات کررہے ہیں توپھرہم بھی اقوام متحدہ کے فیصلے کوتسلیم کرتے ہیں لیکن اس ضمن میں اصل مسلہ یہی ہے کہ بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے کے وعدے توکرتارہالیکن عملی طور پربات چیت سے فرارحاصل کرتارہا۔اب کشمیرمیں آزادی کی جدوجہد کا سلسلہ جاری ہے ،وہ اسی بنیادپرکہ کشمیری عوام یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ بھارت سرکاراقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کوحق خود ارادیت دے لیکن بھارت کشمیری عوام کے اس قانونی حق کے مطالبے کودبانے کیلئے ان کواپنے آٹھ لاکھ کے قریب چھوڑے ہوئے فوجی درندوں کے ذریعے سے غیرانسانی ظلم وتشددکانشانہ بنایاجاتاہے جس میں اب تک ایک لاکھ کے قریب کشمیریوں کو شہیدکردیاگیاہے،اس بہیمانہ ظلم وستم کے باوجود اب تک کشمیری جدوجہدآزادی کوجاری رکھے ہوئے ہیں اور بھارت کشمیری عوام کے اس جائز وقانونی اور اقوام متحدہ کے دیے گئے حق کوتسلیم کرنے سے انکاری ہے۔

علاوہ ازیں جب بھی پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بات کرتاہے توبھارت سرکارکی طرف سے کہہ دیاجاتاہے کہ شملہ معاہدے میں طے پاگیاتھاکہ دوطرفہ مسائل کودوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کیاجائے گا لہندااقوام متحدہ کی قرار دادکاذکرنہ کرو۔دوطرفہ مذاکرات پربھارت اوّل توآمادہ نہیں ہوتا اوراگرہوتابھی ہے توبات نشستند، گفتنندو برخواستندسے آگے نہیں بڑھاتا ۔اب جب بھارتی ہائی کمشنر نے ایک بارپھراقوام متحدہ میں بھارت کی طرف لے جانے والی قرار داداپناتے ہوئے اس کاذکر کیا ہے توپھراس قراردادپراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادکوبھی پڑھ لیں اوراس پرعملدرآمدکیلئے اپنی سرکارکوبھی آمادہ کریں۔پاکستان اورکشمیر کے عوام دونوں اس حل کودل وجان سے تسلیم کرتے ہوئے اس پرعمل درآمدکیلئے آمادہ ہوجائیں گے۔

اسلام آبادمیں سشماسوراج نے کہاتھاکہ ماحول میں گرمجوشی کوبڑھانے کیلئے وہ پاکستان آئی ہیں۔اس ماحول کوقائم رکھنے اور امن مساعی کوآگے بڑھانے کی سمت میں مودی کوسب سے بڑاچیلنج اپنی ہی پارٹی کے سخت گیرعناصرکی طرف سے ہے۔ان کے برسراقتدارآتے ہی ہندوانتہاپسندتنظیمیں پاکستان کے خلاف زہراگلتی رہی ہیںاوربھارت کے اندربھی مسلمانوں کے تئیں اودھم مچائے ہوئے ہیں،یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ دلی اوربہارمیں حکمران بی جے پی کوذلت میزشکست کامنہ دیکھناپڑا۔اقتصادی محاذپرناکامی نے بھی بی جے پی کے سامنے حکومتی وسیاسی مستقبل کے حوالے سے کئی تیکھے سوالات کھڑے کئے ہیں ۔ بہرکیف سیاسی اورسفارتی حلقے پرامیدہیں کہ بنکاک مذاکرات،بھارتی وزیرخارجہ کی پاکستان میں آمد اوربھارتی وزیراعظم مودی کے اچانک دورۂ پاکستان سے سرمہری کی جوبرف پگھلتی ہوئی نظرآرہی ہے اس کے پیچھے امریکااوربرطانیہ کادباؤ بھی کارفرماہے جنہوں نے اپنے دیرپامفادات کیلئے خطے میں تناؤ میں کمی لانے کیلئے خفیہ کرداراداکیاہے۔

اب بہتریہی ہوگاکہ مودی حکومت متکبرانہ رویہ چھوڑکرزمانے کی نئی زمینی حقیقتوں کوجلدازجلدتسلیم کرکے حل طلب امورکی طرف واضح پیش قدمی کرے توخوداس کی تعمیروترقی کیلئے نیک شگون ہوگا مگرپاکستان کیلئے بھی لازم ہے کہ اس بات کاادراک رکھے کہ ماضی میں مذاکرات کی آڑمیں کشمیرمیں حقوق انسانی کابھی کھل کرمذاق اڑایاگیاہے اس لیے بھارت کو اعتماد سازی کے کچھ عملی اقدامات پرزوردے تاکہ مذاکرات کی بحالی کی خوشگوارہوا سرینگر اوراس کے اطراف میں بھی پہنچے،اس میں خصوصاً کالے قوانین کاخاتمہ سرفہرست ہوناچاہئے اورحریت کانفرنس کے سربراہ جناب سیدعلی گیلانی کی طویل نظربندی کوختم اوردیگرتمام بے گناہ کشمیریوں کاآہنی سلاخوں سے آزاد کیاجائے۔

۱۹۷۸ء میں اس خطے میں پبلک سیفٹی ایکٹ نافذکیاگیاجوبظاہرجنگلی اسمگلروں کے خلاف استعمال میں لایا جاناتھالیکن یہ مخالفانہ سیاسی نظریہ رکھنے والوں کے خلاف بے دریغ استعمال کیاجاتارہاہے۔١٩٩٠ء سے اب تک یہاں سرکاری اعدادو شمارکے مطابق اب تک ۴۸۳۷۵افرادگرفتارہوئے جن میں نوجوان ، بزرگ،اسکولوں کے بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔۴کوسزائے موت ،۲۵کوعمرقید جبکہ۲۷۵۵کودس سے ۱۷سال تک کی سزا۱۸۷۰۱اورکو۵برس قیدہوئی۔مارچ٢٠١١ء میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ جاری کرکے اس بات کاانکشاف کیاکہ ریاست جموں وکشمیرمیں مقدمہ چلائے بغیر سینکڑوں نوجوانوں کوجیل خانوں میں بند کرکے بہیمانہ تشدد،ٹارچراورانسانیت سوزسلوک کرنے کی بے شمار مثالیں رپورٹ ہوئیں ہیں۔١٩٩٠ء میں ''انسپا''کے نام سے ایک اورتلوارشہریوں پرگرا دی گئی،انسپایعنی آرمڈ اسپیشل پاورزایکٹ کے سیکشن ۴کے تحت فوج کاجونیئر کمیشنڈ آفسیر تک کوئی بھی بنیادبناکرکسی بھی کشمیری پرکوئی بھی ملٹری کاروائی کرسکتاہے۔ وادیٔ کشمیر اورجموں صوبہ کے پیرپنجال رینج میں آج بھی ہزاروں زیر حراست لاپتہ افرادکوکوئی اتاپتہ نہیں۔

سرکارمیں شامل لوگ انسانی حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی کرکے لوگوں سے ووٹ حاصل کرکے انہیں ہر بارالوبنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اورمختلف فورسزایجنسیاں سرکارکو نظر اندازکرکے اپنے اندازسے آمرانہ طرزعمل کے ذریعے سے کام کرتی ہیں۔

سرکاری اعدادوشمارکے مطابق ریاست میں اس وقت ۲۷۰۰۰بیوائیں،۲۲۰۰۰یتیم بچے کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں حالانکہ غیرسرکاری ایجنسیوں کے مطابق اصل تعداد۹۴۲۸۳شہید،۷۰۳۸کسٹوڈین اموات،۲۲۸۰۶ کشمیری خواتین کی گود اجاڑدی گئی،۱۰۷۵۴۵ کشمیری بچوں کویتیم،۱۰۱۶۶ کشمیری دوشیزاؤں کی چادر عصمت لوٹ لی گئی،ایک لاکھ٣١ہزارسے زائد سویلین کشمیریوں کوگرفتاراورایک لاکھ چھ ہزارسے زائداملاک کومنہدم یا شدید نقصان پہنچایاگیا ۔کشمیریونیورسٹی کی ایک اسٹڈی کے مطابق ٢٠٠٨ء میں بیواؤں کی تعداد۳۲۴۰۰تک پہنچ چکی تھی۔خداکرے کہ مذاکرات کی بحالی سبھی مظلومین کیلئے نویدسحرثابت ہو ۔اگریہ زخموں کا مداواکرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں توناکامی کی صورت میں خطے کوناقابل تلافی قیمت چکانی پڑے گی۔

پاک بھارت مذاکرات کی شروعات کے مرحلے پرپاکستان کویہ نہیں بھولناچاہئے کہ بھارت کی جانب سے افغانستان تک زمینی رسائی کامطالبہ جس وقت کیاگیا، اس کے محض پانچ دن بعدپوری قوم آرمی پبلک اسکول کے سواسوسے زائد شہیدبچوں کی برسی پر اشکبارتھی۔اسے یہ بھی نہیں بھولناچاہئے کہ پاک افغان سرحدپارسے چوکیوں پرحملہ آورہونے والوں کی ڈوریاں کہاں سے ہل رہی ہیں۔ یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ بلوچستان اورفاٹامیں کس کی اندرونی مداخلت کے ناقابل تردیدثبوت ملے ہیں۔یہ بھی ذہن میں رکھناہوگاکہ شہرقائد سے لیکر پھولوں کے شہرتک اورکوئٹہ سے لیکرجی ایچ کیوتک کون پاکستان کی سلامتی کے حساس اداروں کونشانہ بناتارہاہے اورمزیدمنصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ گھرکے آنگن سے انسان مخلص دوستوں وہمسایوں کوگزرنے کی اجازت تودی جاسکتی ہے مگرسلامتی وخودمختاری اور وطن عزیزکے وجودکے دشمنوں سے گھرکومحفوظ کیاجاتاہے۔کولڈاسٹارٹ ڈاکٹرائن رکھنے والوں اور پاک چین راہداری کے خلاف واویلاکرنے والوں کوآنگن تک آنے کی اجازت دینا،حب الوطنی پر بھی کئی سوالات اٹھادیتاہے۔بھارت کی جانب سے استعمارکے اشاروں پرشروعات پرکئی سوالات اب تک اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اورمزیدسوالات اٹھیں گے۔ایسے مواقع پرہماری قیادت کونہائت دانشمندی اوراحتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 353067 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.