بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا حکم دے دیا، جس کے بعد مندر کے لئے تعمیراتی سامان ایودھیا پہنچا دیا گیا۔ انتہا پسند ہندو تنظیم وشوا ہندو پریشد کی جانب سے عندیہ دیا جا رہا ہے کہ مندر کی تعمیر کا کام بہت جلد شروع کر دیا جائے گا۔رام مندر کی تعمیرکے لئے 20 ٹن پتھر کارسیوک پورم میں پہنچا دیئے گئے۔ یہ پتھر دو ٹرکوں میں بھارت کی مغربی ریاست راجستھان سے لائے گئے۔ بابری مسجد 1992 میں انتہا پسندوں کے ہاتھوں شہید کر دی گئی تھی۔ ریاست اتر پردیش میں قائم الہ آباد ہائی کورٹ نے 2010 میں بابری مسجد، رام مندر کے تنازعے پرعجیب فیصلہ سنایا تھا، جس کے مطابق جس زمین پر بابری مسجد موجود تھی، اسے ہندوں اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ فی الحال یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور متنازع جگہ پر کسی قسم کی تعمیر کی اجازت نہیں، تاہم رام مندر تعمیر تحریک کے مرکزی رہنما مہنت نرتیہ گوپال داس کا کہنا ہے کہ ایودھیا میں رام مندر بنانے کا وقت آ گیا ہے۔ ہندو تنظیم وی ایچ پی کے کارسیوک پورم کے انچارج شرد شرما کا کہنا ہے کہ مندر کی تعمیر کے کام میں بہت سارے پتھر کی ضرورت ہے۔ ابھی 20 ٹن پتھر آئے ہیں، تاہم تقریبا دو لاکھ ٹن پتھر چاہئیں۔ ہمیں امید ہے کہ آئندہ لوگوں کی جانب سے ہی پتھروں کا عطیہ آئے گا۔ جیسے ہی حکومت کی طرف سے حکم ملے گا، ہم تعمیری کام شروع کر دیں گے۔بعض ہندو تنظیموں کا دعوی ہے کہ جہاں بابری مسجد تھی، وہی مقام ان کے دیوتا رام کی جائے پیدائش ہے جو کہ تاریخی حقائق کے منافی ہے اور محض مفروضہ ہے۔
بی جے پی کی سرپرستی میں انتہاء پسند ہندوؤں نے ایودھیا میں متنازع رام مندر کی تعمیر کے لئے پتھر راجستھان سے بھجوانا شروع کردیئے ہیں۔اس سے پہلے بھی ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لئے پتھر آتے رہے ہیں۔ 2007 تک مسلسل پتھر لائے جا رہے تھے، لیکن راجستھان حکومت کی جانب سے کانوں کے قوانین میں تبدیلی کی وجہ سے پتھر لانے کا سلسلہ رک گیا تھا۔پتھر لائے جانے کے اس تازہ واقعے پر انتظامیہ خاموش ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جب تک ایودھیا میں امن رہتا ہے، تب تک وہ کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔

مسجد کی شہادت یقینی طورپر دنیا بھرکے مسلمانوں کے لئے اشتعال انگیز اقدام تھا، اس لئے پوری دنیا میں مسلمان ہندوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ حکومت وقت نے مسجد کی شہادت کے وقت فوج اور پولیس کومشتعل ہندوں کے کے خلاف مسجد کو شہید ہونے سے بچانے کے لئے کوئی قدم نہ اٹھایا، وہی حکومت مسجد کی شہاد ت کے بعد مسلمانوں سے پرامن رہنے کی اپیل کرتی رہی اوراندرون خانہ ہندو انتہا پسندوں کی سپورٹ کرتی رہی۔ بعد میں بھارت کی تقریبا تمام سیاسی جماعتوں نے بابری مسجد پراپنی سیاست چمکائی، لیکن کسی میں اس مسجد کو تعمیر کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ بابری مسجد کی شہادت کے واقعے کی تحقیقات کا وقت آیا تودوران تحقیقات یہ بات سامنے آئی کہ مسجد کی شہادت میں اس وقت کی حکومت کا بہت زیادہ عمل دخل تھا۔ رپورٹ میں ایل کے ایڈوانی، منوہر جوشی اورکاٹھیا کومسجد کی شہادت کے منصوبے میں براہ راست ملوث پایا گیا۔ رپورٹ کے مطابق مرلی منوہر جوشی اورایڈوانی نے اپنی نگرانی میں تمام انتظامات کو حتمی شکل دی اورمسجد کی شہادت کے وقت یہ دونوں لیڈر مسجد کے سامنے واقع رام کتھا کنج کی عمارت میں موجود تھے جوبابری مسجد سے صرف دوسومیٹر دورتھا۔

اس رپورٹ نے جہاں ہندوں کے سکیولر ازم اور لبرل ازم پر سے پردہ اٹھایا،وہیں بھارتی لیڈروں کا اصل چہرہ بھی دنیا کے سامنے عیاں ہوگیا ۔بابری مسجد کی شہادت کے الزام میں ایل کے ایڈوانی اعترافی بیان بھی دے چکے ہیں، لیکن بھارتی ایوان انصاف کوان کے اندرموجود مجرم دکھائی نہیں دے رہا اس لئے وہ اب تک آزاد پھر رہے ہیں۔بابری مسجد کا متعصب اور انصاف سے مبرا فیصلہ آنے کے بعد ہمارے ان دوستوں کی آنکھیں بھی کھل جانی چاہئیں، جو بھارت اور دیگر غیر مسلم اقوام سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔

بابری مسجد کے تحفظ اور اس کی سلامتی کیلئے قائم کی گئی کمیٹی بھی مسجد کے شہادت کے کئی برس بعد بھی کوئی کارروائی دکھانے یا کرنے پر تیار نہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کا یہ عالم ہے کہ پندرہ سال بعد پہلی بار عدالت میں استغاثہ کے کسی گواہ کی پیشی کی گئی تھی اور اس طرح مسماری کے مقدمے کا پہلا بیان گزشتہ سال درج کیا گیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ عدالت میں مختلف تاریخوں پر مسجد کے انہدام کے معاملہ کی سماعت کسی نہ کسی سبب سے ملتوی ہوتی رہی ہے۔ چھ دسمبر 1992ء کو ہندو انتہاء پسندوں کے ہاتھوں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ملک بھر میں مسلمانوں کے شدید احتجاج کے بعد انہیں ہی نشانہ ستم بنایا گیا جس کے نتیجے میں دو ہزار سے زائد مسلمان شہید کر دیئے گئے تھے۔ اس وقت کے وزیر اعظم نر سیما راؤ نے بابری مسجد کے انہدام کی تحقیقات کیلئے لبرہان کمیشن قائم کیا تھا۔ لبرہان کمیشن کو مرکز میں قائم ہونے والی ایک کے بعد دیگر حکومتوں کی جانب سے مسلسل توسیع دی جاتی رہی ہے اورکئی سال گزر جانے کے باوجود اس کمیشن اپنی رپورٹ پیش نہیں کی ہے۔ بی جے پی کے قائدین اور ہندوتوا لیڈروں کی اشتعال انگیزیوں کے باعث 400 سالہ قدیم بابری مسجد کو شہید کردیا گیا اور ہندوستان کے تمام سیکولر قائدین دیکھتے رہے گئے۔ حکومتیں خاموش رہیں اور ہندوتوا طاقتیں اپنی من مانی میں کامیاب ہوگئیں۔ ان طاقتوں نے ایک طرح سے بابری مسجد کو شہید کرتے ہوئے ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کو نفسیاتی دباؤ کا شکار کردیا اور اس حادثہ کے بعد ہی سے ملک میں ہندو فرقہ پرستی نے زور پکڑا۔ جہاں سیکولر ازم کی بات کرنے والی جماعتیں بابری مسجد کی شہادت پر سوائے اخباری بیان بازیوں اور طفل تسلیوں کے کچھ نہیں کرپائیں۔ دراصل بھارت میں مسلمان دوسرے درجہ کے شہری ہیں اور انہیں اکثریت کے برابر حقوق نہیں مل سکتے۔ بابری مسجد مسئلہ پر اس وقت کے وزیر اعظم نے یقین دلایا تھا کہ مسجد اسی جگہ تعمیر کی جائیگی تاہم بعد میں اس وعدہ کو فراموش کردیا گیا اور مرکز میں قائم ہونے والی حکومتوں نے مسجد کی جگہ ہونے والی پوجا کیلئے تو انتظامات اور عارضی سائبان کے نام پر تعمیرات بھی کروا دی گئیں لیکن مسجد کو بحال کرنے اور تعمیر کرنے کا وعدہ کسی کو یاد نہیں رہا۔ اس وعدہ پر ویسے تو مسلمانوں کو کوئی اعتبار نہیں تھا لیکن جنہوں نے مسلمانوں کو اعتبار دلانے کی کوشش کی تھی وہ بھی کچھ کہنے سے گریزاں ہیں۔

کئی سال کے طویل عرصہ کے بعد ضرورت اس بات کی ہے کہ سب سے پہلے وعدہ کے مطابق بابری مسجد کی جگہ مسجد تعمیر کی جائے اور وہاں ہونے والی پوجا کو فوری روکا جائے۔ مسجد کی شہادت کے ذمہ داروں کیخلاف مقدمات درج کرتے ہوئے انہیں بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا جائے تاکہ انصاف کے نظام میں اقلیتوں کا اعتماد بحال کیا جاسکے۔ لبرہان کمیشن ہو یا دوسری عدالتیں جہاں بابری مسجد سے متعلق مقدمات زیر سماعت ہیں سب کو ایک جگہ کرتے ہوئے فاسٹ ٹریک عدالت قائم کی جائے تاکہ انصاف اور عدلیہ کے فیصلے کے ذریعے بابری مسجد کی بازیابی کو یقینی بنایا جاسکے۔ پہلے بھی مسلمانوں کو قتل و غارت گری کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی تھی۔ صرف نومبر 1990ء میں ایل کے ایڈوانی کی رتھ یاترا کے موقع پر ہی دو ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کیا گیا جبکہ جنوری 1993ء آر ایس ایس، ویشوا ہندو پریشد اور شیو سینا کے دہشت گردوں نے ریاستی پشت پناہی میں ممبئی میں تین ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کیا جبکہ 2002ء میں احمد آباد، گجرات میں مرنے والے مسلمان عورتوں، بچوں اور مردوں کی تعداد تین ہزار سے کہیں زیادہ بیان کی جاتی ہے۔بی جے پی کے بھارتی سیاستدان لعل کشن ایڈوانی جس نے مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کیلئے رام رتھ یاترا کی تھی بھارتی دہشت گرد اور قائد اعظم محمد علی جناح کی قتل کی سازش کا مجرم بھی ہے حکومت پاکستان کو سمجھوتہ ایکسپریس میں پاکستانیوں کو شہید کرنے والے دہشت گرد حاضر سروس بھارتی فوجی لیفٹیننٹ کرنل سری کانت پروہت کے ساتھ ایل کے ایڈوانی کو بھی مطلوبہ افراد کی فہرست میں شامل کرکے پُرزور انداز میں حوالگی کا مطالبہ کرنا چاہئے۔
سچ تو یہ ہے کہ
بھارتی تاریخ پر دھبہ ہے ایڈوانی کا نام
ہے یہی شیطان اعظم ، ہند کا تخریب کار
کیا یہی ہندو دھرم ہے، شانتی اس کا ہے نام؟
جامہ انسانیت ہے جس کے ہاتھوں تار تار
بابری مسجد کے میناروں سے آتی ہے پکار
ہیں کہاں میرے موذن غازیان شہسوار
عالم اسلام کیوں چپ ہے مری توہین پر
میں مسلمانوں کا ورثہ، میں مقدس یادگار
ہوگئے ہندو مہاشے میرے دشمن کس لئے؟
سوچنے کی بات ہے اسے مرد مانِ روزگار
ہوش اے زُناریان کشور گنگ و جمن
بابری مسجد کو تم سمجھو نہ سنگ رہ گزار

Raja Majid Javed Ali Bhatti
About the Author: Raja Majid Javed Ali Bhatti Read More Articles by Raja Majid Javed Ali Bhatti: 57 Articles with 39569 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.