یہ ہوتی ہے گڈ گورننس .......

چند ماہ پہلے فوج کی جانب سے حکومت کو گڈ گورننس بہتر بنانے کا مشورہ کیاملا ۔ سیاسی میدان اور حکومتی حلقوں میں کچھ اس طرح کھلبلی مچی کہ کئی ہفتوں سے بحث و مباحثے ہوتے رہے ۔حالانکہ گڈگورننس کو بہتر بنانے کی بات غلط نہیں تھی۔کیونکہ پاکستان میں یہ صنف دور دور تک دکھائی نہیں دیتی ۔یہاں تو ہر وزیر خزانہ عزرائیل کا روپ دھار کر عوام پر آئے روز مہنگائی اور ٹیکسوں کا عذاب نازل کرتا رہتا ہے ۔قومی خزانے کو باپ کی جاگیر تصور کرکے بے دریغ لوٹا جاتاہے ۔ گزشتہ ہفتے مجھے عمرہ کی ادائیگی کے لیے ارض مقدس جانے کا اتفاق ہوا ۔جونہی ہمارا جہاز جدہ شہر پر پہنچا تو یوں محسوس ہوا کہ یہ شہر سونے میں نہایا ہوا ہے ۔ گولڈن رنگ کی روشنیوں نے ماحول کو خوبصورت بنا رکھا تھا لیکن جب واپسی پر ہمارا جہاز لاہور میں اترنے لگا تو آدھے شہر کی لائٹس بند دکھائی دیں ۔ پھر جب ہم جدہ سے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے تو کشادہ سڑکوں اور جگہ جگہ بنے ہوئے انڈر پاسز اور فلائی اوور نے کہیں بھی ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ نہیں پڑنے دی ۔ مکہ معظمہ پہنچے تو ہوٹل میں سامان رکھنے کے بعد عمرے کی سعادت حاصل کرنے خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہوئے تو چاروں اطراف بلند و بالا ہوٹلوں کی نہ ختم ہونے والی لمبی قطار دکھائی انہیں ہوٹلوں میں سے فلائی اوور بنا کر ٹریفک گزرنے کا اہتمام دیکھ کر دل خوش ہوگیا ۔ عمرہ کرنے کے بعد سر کے بال صاف 15 ریال میں صاف کروائے یہ خدمت پاکستانی روپے کی کم ویلیو کی بنا پر ہمیں 450 روپے میں پڑی۔ ایک دکان سے تین ریال کی ٹوپی خریدی تو میں نے سو ریال کا نوٹ دکاندار کو دیا۔جسے دیکھ کر دکاندار ایسے چونکا جیسے میں نے کوئی عجوبہ کردکھایا ہو ۔ اس نے اپنی جیب سے سارے نوٹ نکال کر مجھے 97 ریال واپس کیے ۔اس لمحے میں اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا ۔یوں محسوس ہورہا تھا جیسے سعودی عرب میں سو ریال کا نوٹ بھی بہت بڑا تصور کیاجاتاہے۔لیکن پاکستان میں کرنسی کی مسلسل گراوٹ کی بنا پر ہزار کا نوٹ بھی سو روپے کے برابر پہنچ چکاہے ۔پاکستان سے باہر جاکر کرنسی کی کمتری کا احساس شدت سے ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ایک فرد کا عمرہ تقریباڈیڑھ لاکھ میں اس کے برعکس بھارتی مسلمان صرف 60 ہزار روپے میں عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔ پاکستانی کرنسی ایک ریال میں 28 روپے اور بھارتی کرنسی 17 روپے ہے ۔ کرنسی کا یہی فرق ارض مقدس جانے والوں کو بطور خاص پریشان کیے رکھتا ہے ۔ایک بھارتی مسلمان نے بتایا کہ حج پر بھارتی حکومت 25 فیصد سبسڈی بھی دیتی ہے ۔یہ اس کافر حکومت کا کارنامہ ہے لیکن پاکستان میں مسلم حکمران حاجیوں اور زائرین کی چمڑی ادھیڑنے سے بھی باز نہیں آتے۔بہرکیف خانہ کعبہ کے قریب ہی مجھے بجلی کا دفتر دکھائی دیا جس کے باہر پاکستان کی طرح بل ٹھیک کروانے والوں کی لمبی قطار دکھائی نہ دی تو میں نے ایک مقامی شخص سے پوچھاتو اس نے بتایا کہ یہاں بجلی کبھی نہیں جاتی ۔جبکہ ایک پانچ مرلے پرمشتمل گھرانے( جس کے ہر کمرے میں ائیرکنڈیشنڈ بھی رات دن چلتا ہے اور گیس کی عدم موجودگی کی بنا پر لوگ کھانا بھی بجلی کے ہیٹر پر پکاتے ہیں پھر بھی مہینے بعد بجلی کا بل سو ریال ہی آتا ہے ۔ خانہ کعبہ کے ارد گرد قطار درقطار سونے کی دکانیں دکھائی دیں جن میں منوں وزنی سونا توموجود ہوگا لیکن کسی بھی دکان کے باہرنیند میں اونگتا ہوا سیکورٹی گارڈ دکھائی نہ دیا اور نہ ہی بنکوں کے باہر سیکورٹی گارڈ نظر آیا ۔ استفسار پر بتایا گیا کہ یہاں کسی کی جرات نہیں ہے کہ بنک یا سونے کی دوکان کولوٹنے کا ارادہ کرے ۔یہاں جو بھی یہ کام کرتا ہے اس کی گردن اور ہاتھ کاٹ دیے جاتے ہیں اس لیے ڈاکہ زنی کاتصور ہی موجود نہیں۔ سعودی عرب کے تمام شہروں میں رات ہو یا دن اشارہ سرخ ہوتے ہی ٹریفک رک جاتی ہے۔وہاں کسی بھی چوراہے پر پاکستان کی طرح ٹریفک پولیس کے اہلکار دکھائی نہ دیے تو مجھے بتایاگیا کہ ہر ٹریفک سگنل پر جدید کیمرے نصب ہیں جو نہی کوئی اشارے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو کیمرہ گاڑی کی نمبر پلیٹ اور ڈرائیور کی تصویر محفوظ کرلیتا ہے پھر وہی تصویر اورنمبرموٹررجسٹریشن دفتر میں براہ راست کمپیوٹر میں پہنچ جاتاہے اور گاڑی کے مالک کو پانچ سو ریال جرمانے کا ایس ایم ایس موصول ہو جاتا ہے اگر جرمانہ ادانہ کیاجائے تو گاڑی اور اسکے مالک کو جیل میں بندکرکے اس کے تمام لائسنس منسوخ کردیئے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کسی کی جرات نہیں کہ وہ ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کرے ۔ پاکستان میں تو ہرجگہ سیکورٹی گارڈ اور پولیس اہلکاروں کی فوج ظفر موج جگہ جگہ ناکے لگا کر عوام کو پریشان کرتی ہے لیکن دونوں شہروں میں نہ تو کہیں پولیس کاناکہ دکھائی دیا اور نہ ہی فوج ظفر موج ۔ گاڑی میں بھی صرف ایک ہی پولیس والا بیٹھا نظر آتا ہے۔ مجھے بتایا ہے کہ وہ ایک ہی پولیس والا کافی ہے کیونکہ اس کے پاس اختیارات ہیں وہ جسے قانون شکنی کے الزام میں پکڑتا ہے اسے کوئی نہیں چھڑا سکتا ۔ یہ قانون کی طاقت ہے ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ سعودی پولیس کے اہلکاربھی کسی کو ناجائز تنگ نہیں کرتے اور نہ ہی جگہ جگہ ناکے لگا کر لوگوں سے رشوت وصول کرتے ہیں ۔ مجھے دونوں شہروں میں صرف تین سکوٹر اور دو سائیکل دکھائی دیئے ۔ہر شخص نے اپنی ذاتی گاڑی رکھی ہے ۔کیونکہ وہاں پٹرول اور اشیائے خورد نوش کی جو قیمتیں 1996 میں تھیں وہی قیمتیں آج بھی ہیں۔ ایک ریال میں تین لیٹر پٹرول ملتا ہے ۔جبکہ بارہ ہزار روپے کا ٹیبلٹ وہاں صرف 390 ریال کا ملا ۔ملاوٹ کا تو وہاں تصور ہی نہیں ہے جو چیز بھی خریدیں اس پر اجزائے ترکیبی کے تمام تفصیلات درج ہوتی ہیں اگر کہیں سے شکایت موصول ہوتی ہے تو اس کمپنی کو ہمیشہ کے لیے بلیک لسٹ کردیاجاتا ہے ۔جبکہ پاکستان میں کھانے پینے کی کوئی بھی چیز ملاوٹ سے پاک نہیں ہے حتی پینے کا پانی بھی زہر آلود ہے جسے پینے سے انسان مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ بہترین انتظامات اور قانون کی مضبوط گرفت نے سعودی عرب کو دنیا کا محفوظ اور خوشحال ترین ملک بنا رکھا ہے ۔گڈگورننس کی باتیں تو بہت سنتے آئے ہیں لیکن حقیقت میں گڈ گورننس کی حقیقی شکل مجھے ارض مقدس پر ہی دکھائی دی ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 671386 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.