بہت بے آبرو ہو کر ترے’’ شو‘‘ سے ہم نکلے!

جب سے بی جے پی کی حکومت ہندوستان میں برسر اقتدار آئی ہے تب سے ہندوستان کی ہندو انتہاپسند تنظمیوں کے پر نکل گئے ہیں ۔ اقلیتوں کے لئے عدم رواداری جیسے بہت سے مسائل پیدا ہو گئے ہیں جو ہندوستان کے علاوہ بیرون ملک میں بھی میڈیا کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔25 دسمبر کو بھی الجزیرہ نے اپنے ہیڈ ٹو ہیڈ شو میں انھیں سب مسائل کو لے کر بی جے پی کے نیشنل سیکریٹری رام مادھو سے گفتگو کی۔ رام مادھو آرایس ایس کے پرچارک ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے ترجمان بھی رہے ہیں۔ان کا نام بی جے پی میں مودی جی کے امریکی دورے کے بعد ابھر کر سامنے آیا ہے۔انھوں نے امریکہ میں مقیم انڈین کمیونٹی کے درمیان پارٹی کے لئے کام کیا ہے۔2014 کے لوک سبھا انتخابات میں بھی ان کا کافی رول ما نا جاتا ہے۔ ستمبر2014 میں مودی جی کی چینی صدر ایکس جن پینک سے ملاقات میں بھی یہ پیش پیش رہے۔ گویا یہ بی جے پی اور ہندوستانی سیاست کے چوٹی کے سربراہان میں سے ہیں لیکن الجزیرہ سے جڑے ہندی نـژا صحافی مہدی حسن نے اپنے سوالات کے ذریعے رام مادھو کے چھکے چھڑا دیئے۔ مہدی حسن نے سب پہلا سوال عدم رواداری سے متعلق کیا کہ چالیس ایوارڈ یافتہ ادیبوں نے اپنے ایوارڈ واپس کر دیئے ۔ سو سائنس دانوں اور اقلتی رہنماؤں نے ملک میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری پر اپنی تشویش کا اظہار کیا اور مذمت کی۔ رام مادھو نے کہا کہ وہ حکومت اور ملک کی شبیہ بگاڑ رہے ہیں۔ اگر36 لوگوں نے ایوارڈ لوٹایا ہے تو 36 ہزار افراد نے ان کے اس فیصلے کو غلط ٹھہرایا ہے۔ لیکن رام مادھو نے یہ نہیں بتایا کہ وہ36 ہزار افراد کون تھے اور کہاں سے آئے تھے ۔ مہدی حسن نے تعجب کا اظہار بھی کیا کہ وہ نامور اور تعلیم یافتہ شخصیات ہیں اور وہ ملک کی شبیہ بگاڑ رہے ہیں! رام مادھو کی نیا ضرور ڈگمگائی لیکن انھوں نے کثرت آبادی کا پتوار چلا دیا۔ مہدی حسن نے پھر فرقہ وارانہ واقعات کو لے کر ایک سخت سوال کر ڈالا کہ بی جے پی حکومت کے پہلے 6مہینوں میں25فیصد واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ رام مادھو نے پہلے تو زوردار انداز میں اس رپورٹ کو غلط ہی کہہ دیا لیکن جب بتایا گیا کہ یہ خود ان کے وزارت داخلہ کی رپورٹ ہے تو گھڑوں پانی پڑ گیا اور یہ وضاحت دی کی ابھی چند دنوں پہلے وزارت داخلہ نے نئی رپورٹ جاری کی ہے جس کی رو سے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو اس رپورٹ کے مطابق اس سال اکتوبر تک 630 واقعات ہوئے ہیں جن میں86 افراد جاں بحق اور1899 افراد زخمی ہوئے ہیں جب کہ گزشتہ سال561 واقعات ہوئے تھے اور ان میں 90 افراد جاں بحق اور1688 افراد زخمی ہوئے تھے۔ واقعات اور متاثرین دونوں کی تعداد اس سال زیادہ ہی رہی۔ مہدی حسن نے دادری سانحہ کے مسئلے پر مودی جی کی خاموشی پر رام مادھو جی کو آڑے ہاتھوں لیا اور جب گنہ گاروں کو سزادینے کی بات آئی تو رام مادھو پیچھا چھڑاتے ہوئے نظر آئے ۔ بی جے پی رہنماؤں کے مسلم مخالف بیانات اور گجرات کے فسادات پر بھی رام مادھو کو کڑے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اعداد وشمار میں دونوں کے درمیان اختلاف ضرور ہوا لیکن مہدی حسن نے معذرت کرلی۔ مہدی حسن نے اپنے سوال میں گجرات فسادات میں مرنے والوں کی تعداد دو ہزار بتائی تھی ۔ اس پر رام مادھو نے سخت اعتراض کیا کہ یو پی اے کی حکومت نے اعداد وشمار جاری کئے تھے اور جس میں مرنے والے 790 مسلم تھے اور 260 ہندو ۔ یہاں رام مادھو سے بہت معمولی سی چوک ہوگئی اور اکثر ہی حساب کتاب میں ایسی ہلکی پھلکی چوک ہو جاتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق مرنے والے ہندؤں کی تعداد 256 ہے۔ لیکن اس میں یہ بھی درج ہے کہ 223 لا پتا ہیں اور2500 زخمی بھی۔ غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق مرنے والوں کی تعداد2000سے بھی متجاوز ہے۔ مسلمانوں کے ایک لاکھ گھر تباہ کر دیئے گئے۔ 1100ہوٹل ‘15000 تجارتیں‘ 3000دستی کاروبار کا نقصان ہوا۔ 5000 گاڑیاں نذر آتش کر دی گئیں۔ ان فسادات کو لے کر حقوق انسانی کی تنظیموں کے حوالے سے مودی جی کی ذمہ داری پر بھی سوال کیا گیا ۔ جواب میں کہا گیا کہ ان پر صرف دھیمے رد عمل کا الزام ہے اور کورٹ نے ان کو بری کر دیا ہے ۔ ایک مجرم کے سزا کا حوالہ بھی دیا گیا جسے28 سال قید کی سزا ہوئی ہے۔ صرف دھیمے رد عمل کے الزام سے ویزے کی درخواست مسترد نہیں ہو جاتی ۔ مہدی حسن نے بھی چٹکی لی کہ بنا ٹرائل کے ہی بری کر دیا گیا۔ سزا یافتہ مجرم مودی کی حکومت میں وزیر تعلیم رہی ہیں اور حال ہی میں ان کی سیلفی بھی کافی مشہور ہوئی تھی۔ ان سوالات کے بعد پینل میں شامل کشمیری پنڈت ڈاکٹر نتاشا کاول نے بی جے پی اور آرایس ایس کے بخیے ادھیڑ دیئے۔ انھوں نے بتایا کہ پہلے 300 دنوں میں فرقہ واریت کے600 واقعات ہوئے ہیں اور جن میں کل43 افراد کی موت ہوئی ہے۔ 149 واقعات میں کرسچین کو ہدف بنایا گیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ صرف ایوارڈ واپسی ہی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ گھر واپسی اور لو جہاد کا مسئلہ بھی ہے۔ انھوں نے آر ایس ایس کے نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف اور صرف ہندو مت کی بالادستی کی قائل ہے۔ رام مادھو نے آر ایس ایس کے نظریے کو لے کر لیپا پوتی کرنے کی کوشش کی کہ یہ ہندوستان کے اتحاد کے لئے ہے‘ سارے ملک کے لئے ہے ‘ ایک ہندوستان اور متحد ہندوستان کے لئے ہے لیکن تالی چونکہ ڈاکٹر نتاشا کاول کے بیان پر بج چکی تھی اس لئے رام مادھو کچھ اکھڑے اکھڑے سے دکھے۔ مہدی حسن نے کہا کہ جب آر ایس ایس کے نظریے کی بات آتی ہے تو لوگ ماضی میں دیکھتے ہیں ۔ آر ایس ایس کے بانی مادھو سداشو گوالکر کے بارے یہ سوال پوچھا کہ وہ جرمنی نازی سے متأثر ہیں اور مودی جی کو ان سے تحریک ملی ہے جب کہ انھوں نے اپنی کتاب بنچ آف تھاٹس میں مسلم ‘ عیسائی اور کمیونسٹ کو ہندوستان کے اندرونی خطرات سے تعبیر کیا ہے اور عیسائیوں کو خون چوسنے والا کہا ہے۔ رام مادھو نے صریح غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے اس کا نہ صرف یہ کہ بالکلیہ انکار کیا بلکہ یہ چیلنج بھی کیا کہ گولکر نے کبھی خون چوسنے والا جیسے الفاظ کا استعمال ہی نہیں کیا ہے۔ شاید اندھ بھکت اسی کو کہتے ہیں۔ جب مہدی حسن نے آر ایس ایس کی ویب سائٹ پر موجود 1966 کی تیسری اشاعت کا حوالہ دیا تو سامعین کی تالیوں کے درمیان رام مادھو کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ پھر انھوں نے اعتراف کیا کہ انھوں نے تین چیلنج کہا ہے۔ اس پر مہدی حسن نے کہا کہ آپ دشمن کا ترجمہ چیلنج سے کر رہے ہیں۔ اس کے بعد جب رام مادھو سے پوچھا گیا کہ ہندو ملک سے کیا مراد لیا جاتا ہے تو انھو ں نے کلچر کا سہارا لیا اور کہا کہ ہندو سے مراد ہندو کلچر ہے ۔ اس پر مہدی حسن نے ایک اور سوال جڑ دیا کہ ہندوستان کی ثقافت میں مسلمانوں کا بڑا حصہ رہا ہے ۔ جیسے تاج محل تو اس کو کیسے ہندوائیں گے؟ اس سوال پر رام مادھو جی گھبراگئے اور جواب دینے سے کترانے لگے بالآخر نپا تلا جواب دینا پڑا کہ یہ ہمارے کلچر کا حصہ ہے اور ہم اسے ہندو کہتے ہیں۔

اس کے بعد جب ڈاکٹر نتاشا کاول کو موقع ملا تو انھوں نے آر ایس ایس اور بی جے پی دونوں کی ملی جلی سازش پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آر ایس ایس میں باضابطہ لڑکے او ر لڑکیوں کو اقلتیوں کے خلاف تیار کیا جاتا ہے۔ ان کو اسلحے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اس کے شواہد موجود ہیں ‘ ویڈیو اور دستاویزات ہیں۔ انھوں نے بی جے پی کے ممبر آف پارلمینٹ یوگی آدیتہ ناتھ کے نفرت انگیز بیان پر بھی نشانہ سادھا۔ گرچہ کہ رام مادھو نے اسلحے ٹریننگ کی کلی نفی کی لیکن ان کی اس کھوکھلی نفی کو سبھوں نے محسوس کیا۔ پینل میں موجود پی ایم او کے سابق مشیر ڈاکٹر گوتم سین نے تو یہ بول کر حد ہی کر دی کہ ہندوستان412سال سے زیر قبضہ تھا۔ اس پر ڈاکٹر کاول نے ان کی تین بار گرفت کی۔ رام مادھو بھی اپنے جذبات کو دبا نہ سکے اور بول پڑے کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ مغل ہندوستانی تھے؟ اگر یہ سوال معقول ہے تو اس سوال میں بھی معقولیت ہونی چاہیئے کہ کیا آرین ہندوستانی تھے؟

اس پورے گفتگو کے دوران سب سے دلچسپ مرحلہ یہ رہا کہ رام مادھو نے آئی آئی ایس کی نسبت مہدی حسن کی طرف کردی۔ ہوا یوں کہ مہدی حسن نے پوچھا کہ مسئلہ کشمیر کا کیا حل ہے۔ اس پر رام مادھو نے کہا کہ آپ اتنے فکرمند کیوں ہیں؟ مہدی حسن نے کہا کہ ہمیں فکر ہے کیوں کہ باقی ممالک ایٹمی جنگ کا خطرہ مول نہیں لے سکتے کیوں کہ آپ دونوں ممالک اسے حل نہیں کر پار ہے ہیں۔ جواب میں رام مادھو نے عدم رواداری کا ثبوت دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو بہت سے دوسرے مسائل کے بارے میں فکرمند ہونا چاہیئے جو ہو رہی ہیں۔ ’’آپ کی آئی ایس ایس‘‘ ایٹمی اسلحے پر قبضہ جما سکتی ہے۔ اس پر مہدی حسن نے تین بار کہا ’’ میری آئی ایس ایس‘‘!!! رام مادھو جھینپے بھی اور سبکی بھی ہوئی لیکن معذرت نہیں کی۔ اس مسئلہ کو لے کر مہدی حسن نے ٹویٹ بھی کیا۔ سامعین نے بھی اپنے سوالات کے ذریعے رام مادھو کو کچھ کم پریشان نہیں کیا۔ کسی نے بھگوت گیتا کو لے کر سوال کر ڈالا کہ ہریانہ میں اس کتاب کے فروغ کے حکومت ایک ملین خرچ کر رہی ہے۔ اس پر جب گول مٹول سا جواب ملا تو مہدی حسن نے سوال کو اور واضح کرکے پوچھا کہ قرآن اور بائیبل کے فروغ میں بھی حکومت تعاون کرے گے تو رام مادھو کنی کترا گئے لیکن بھگوت گیتا کی کھلے لفظوں میں حمایت کی۔ ایک عیسائی مذہب کے ماننے والے نے چرچ پر حملوں کو لے کر سوال کیا تو رام مادھو سفید جھوٹ بول گئے۔ انھوں نے کہا کہ دہلی انتخابات سے پہلے 6 حملے ہوئے تھے اس کے بعد کوئی حملہ نہیں ہوا۔ دہلی کے انتخابات فروری 2015 کے اوائل میں ہی ختم ہو گئے تھے جب کہ اس کے بعدچرچوں پر متعد حملے ہوئے ہیں۔ 20 مارچ کو جبل پور کے سینٹ تھومس کیتھولک چرچ میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ 21 مارچ کو ممبئی کے ایک چرچ پر حملہ ہوا۔ 12 مئی کو اندور میں سینٹ پاول اینگلیکن چرچ پر حملہ ہوا۔ 10جولائی کو مغربی بنگال کے نوڈیا ضلع میں ایک چرچ پر حملہ ہوا۔ رام مادھو نے گمراہ کرنے کی کوشش کی لیکن سوال کرنے والا ان کے جواب سے مطمئن نہیں دکھ رہا تھا۔ ایک صاحب نے سوال کیا کہ اگر بی جے پی اور پی ایم پر تنقید کی جاتی ہے تو اسے دیش دروہ کہا جاتا ہے اس طرح کا کلچر کیوں پیدا کیا جا رہا ہے؟ اس پر رام مادھو نے جواب دینے کے بجائے یہ کہا کہ آپ نے انڈین چینل دیکھا ہے۔ اس پر مہدی حسن نے کہا کہ انھوں نے آپ کو دیکھا جب شروع میں آپ نے ایوارڈ واپس کرنے والوں کے بارے میں کہا کہ وہ ملک کو بدنام کررہے ہیں۔ اس پر رام مادھو جی کا چہرہ قابل دید تھا۔ اس کے علاوہ ایک صاحب نے سوال کیا کہ بی جے پی ‘ وی ایچ پی اور بجرنگ دل کو کس نے ہندومت کا ٹھیکیدار بنایا ہے اور کس نے ان کو یہ حق دیا ہے؟ ایک صاحب نے پوچھا کہ آپ نے ہندوستانی کلچر کی بات کی۔ اسلام ہندوستان میں چھٹی صدی میں آیا مغل کے ساتھ نہیں‘ عیسائی مذہب پہلی یا دوسری صدی آیا تو صرف ہندو کلچر ہی کو کیوں فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے؟

مہدی حسن نے آرایس ایس کے ہیڈ کوارٹر میں لگے ہندوستانی نقشے کے متعلق پوچھا لیا کہ اس میں پاکستان ‘ بنگلہ دیش اور ہندوستان ایک ساتھ ہیں۔ اس پر رام مادھو نے آر ایس ایس اکھنڈ بھارت کا نظریہ پیش کر دیا۔ گرچہ کہ انھوں نے خیر سگالی اور باہمی رضامندی کی بات کہی اور جنگ کی نفی کی لیکن یہ پروگرام ایسے وقت میں نشر کیا گیا جب مودی جی پاکستان کے دورے پر تھے۔ اس پر کافی لے دے بھی ہوئی اور رام مادھو کو وضاحت بھی کرنی پڑی۔ کہا گیا کہ مراد یہ تھا کہ سب کلچر کے اعتبار سے ایک ہیں۔ لیکن پھر بھی سوال باقی رہ جاتا ہے کہ کون سا کلچر؟ ہندو کلچر یا کوئی اور کلچر؟ آر ایس ایس تو ہندو کلچر کے علاوہ کچھ تسلیم ہی نہیں کرتی بلکہ تاج محل کو بھی ہندو کلچر کا حصہ ماننے میں شرم محسوس نہیں کرتی۔
 

Khalid Saifullah Asari
About the Author: Khalid Saifullah Asari Read More Articles by Khalid Saifullah Asari: 12 Articles with 10696 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.