آہ دسمبر They are no more....

دسمبر آخری سانسیں لے رہا ہے ۔یہ ہمیشہ سے ہی ہم پاکستانیوں پربڑا بھاری رہا ہے۔پچھلے سال جب سانحہ پشاور ہوا تب بھی کئی دفعہ سوچا کہ کوئی لہو لہو زخمی سی تحریر دل کے دکھ کی ترجمانی کے لئے لکھ دوں۔سچ پوچھیں تو درد کی شدت نے کچھ لکھنے کی اجازت ہی نہ دی ۔سو دکھ کو اندر ہی اندر پی گیا۔دکھ سہنا آزمائش اور دوسرے کا درد محسوس کرنا نعمت ہوتی ہے۔آج ایک مجبور بے کس بیبس مان اور باپ کو ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کی سیڑھیوں پر چار سالہ مردہ بچی کے جامد و ساکت وجود کو اٹھائے دیکھ کر درد پھر سے ذات کی تمام دیواریں پھلانگ کر وجود کے آنگن میں آن دھمکا ہے۔باپ لرزتے ہاتھوں سے موبائل پکڑے کسی کو اطلاع دے رہا تھا "عائشہ کی ڈیتھ ہو گئی ایـ"یہ تکلیف اور درد میں لتھڑا ہوا فقرہ ہر نوحے ہر مرثیئے پر بھاری ہے۔ماں اور باپ دونوں کا حلیہ بتا رہا تھا کہ ان کی مالی حالت اس پہاڑ جیسے دکھ کے سامنے انتہائی کمزور ہے۔ماں ایمرجنسی وارڈ کے سامنے سیڑھیوں پر بچی کا مردہ جسم گود میں لئے آنسو پو آنسو بہاتی چلی جا رہی تھی۔ان آنسوؤں کے پیچھے ایک امید کی جلتی بجھتی لکیر بھی نظر آئی۔جسے مایوسی نگلتی جا رہی تھی ۔ماں روتے روتے بچی کو لحظہ بھر آس بھری نظروں سے دیکھتی کہ شاید ماں کا رونا دھونا اسے آنکھیں کھولنے پر مجبور کر دے۔بچی کے سر پر چند پٹیاں لپٹی ہوئی تھیں ۔دنیا اپنی رفتار سے ان کے گرد بہہ رہی تھی ۔اگر بچی کے باپ کا بے جان فقرہ میری سماعت سے نہ ٹکراتا تو میرے پاس بھی بھلا کہاں وقت تھا کہ قیامت کا مقابلہ کرتے اس جوڑے کے پاس رکتا ۔ماں بچی کے صدمے سے ہلکان تھی تو باپ کے چہرے کی پریشانی اور کرب بتا رہا تھا کہ اس ڈحلتی شام میں گاؤں تک جانے کے لئے کوئی سستا اور آسان طریقہ سجھائی نہیں دے رہا۔بچی کی سانسیں تو نجانے کب کی جسم کا ساتھ چھوڑ چکی تھیں باپ بیوی کی تسلی کے لئے اور اپنے اندر کی محبت سے مجبور دور افتادہ گاؤں مردہ بچی کو ایک آس کے ساتھ شہر کی بڑی اسپتال لے آیا تھاکہ شائد بڑے ڈاکٹر کوئی معجزہ کر دیں۔ہر وقت فیسوں کی دلدل میں غرق بڑے ڈاکٹرز کیا خاک معجزہ کریں گے۔وہ تو صبح کی نمائشی حاضری کے بعد چھوٹوں کو ہسپتال کا کرتا دھرتا بنا کر کب کے پرائیویٹ پریکٹس کرنے جا چکے تھے۔ان چھوٹوں نے بھی she is no more alive کہہ کر قصہ ختم کر دیا۔بے چارے باپ کی جیب میں کتنے پیسے ہیں وہ ڈیڈ باڈی کیسے لے کر جائے گا یہ ماں جیسی ریاست کے سوچنے کا کام نہیں ۔ماں کے دکھ نے مجھے توڑ دیا ۔سال سے جو درد اپنے اندر لیئے بڑے صبر سے گھوم رہا تھا ۔آج بلبلا اٹھا ہوں ۔

پشاور میں جو تقریب سجائی گئی معصوم بچوں پر نجانے میڈل حاصل کرتے کیا گذری ہو گی۔میڈل دینے والوں میں جو لوگ شامل تھے پوچھئے اپنے آپ سے کہ کیا وہ سب واقعی اتنے عظیم تھے کہ ان کو اس پر وقار تقریب میں بطور مہمان خصوصی مدعو کیا جاتا ۔یہ وہی لوگ ہیں کہ جن کے پروٹوکول کے چکر میں کہیں کوئی بچی دم توڑ جاتی ہے تو کہیں کوئی بچی بیچ سڑک جنم لیتی ہے۔جی یہ وہی لوگ ہیں جو نجانے کب سے جی بھر کر اس گلشن کو اجاڑنے میں پوری تندہی سے مست ہیں۔ان کے آپس کے اختلافات اور اقتدار کی ہوس نے کئی والدین سے ان کے بچے چھین لئے کئی عورتوں کے سہاگ اجڑ گئے جانے کتنے اپنے پیاروں سے بچھڑ گئے ملک کا لاء اینڈ آرڈر برباد ہو گیا لیکن ان کے ماتھے پر ایک شکن تک نہیں آئی ۔یہ اسی طرح اپنی موج مستی میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔الٹا ہر سال ان کو میڈیا اپیرنس کا ایک اور موقع ہاتھ آگیا۔اب یہ ہر سال نت نئے ڈائیلاگ لکھوا کر میڈیا پر جلوہ گر ہو کر ہر اس پاکستنی کے سینے پر مونگ دلتے رہیں گے جس نے جس نے اس نام نہاد جنگ میں اپنا کوئی پیارا کھو دیا۔یہ ان شہید بچوں کے والدین کے ساتھ یک جہتی کا راگ بھی الاپتے رہیں گے پھر اپنے تلوے چاٹنے والوں سے یہ بھی لکھواتے رہیں گے "گانا سنو گانا دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہیـ"ان کو کسی شہید بچے کے ساتھ نہ کوئی ہمدردی ہے نہ کسی بلکتی ماں کے زخموں پر مرہم رکھنا ہے۔ان کو اپنے ٹھیکوں کا خیال ہے۔بچوں کے جذبے لازوال ناقابل شکست ہیں کہ جو بھی گانا آئی ایس پی آر نے سانحہ پشاور کے بعد بنایا سپر ہٹ ہو ا ہے۔بچے ماں باپ سے فرمائش کر کے گاڑی میں گانا لگواتے ہیں ۔اگر نہیں پسند تو چند مفاد پرست کالی بھیڑوں کو یہ جذبے مذاق لگتے ہیں ۔انہوں نے آج تک اپنے مفادات کی فصل کی آبیاری کے سوا کیا ہی کیا ہے۔جب کبھی ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جاتا ہے تو یہ اس کوشش کو ملک و قوم آئین کے ساتھ مذاق اور غداری قرار دے کر ملک ٹوٹ جانے کی دحمکیاں لگانے لگتے ہیں ۔ان کی ذات ملکی عزت و وقار بن جاتی ہے۔ان کی کرپشن کو اجاگر کرنے کی ہر کوشش جمہوریت کی توہین قرار پا جاتی ہے۔ان کے معصوم بھولے بین اور دھمکیاں بے اثر عوام ان کو بلبلاتا دیکھر خوش بھی ہوتے ہیں پھر الیکشن میں بڑی معصومیت اور منافقت سے دوبارہ ووٹ بھی ان ہی کو ڈال آتے ہیں ۔یہ لوگ بھول چکے ہیں کہ ہر ذی روح عزرائیل کی دسترس میں ہے۔چلے وہ پھول گئے چلے سب نے جانا ہے۔نام ان بچوں کے مسلمانوں والے تھے نام ان منافقوں کے بھی مسلمانوں والے ہیں ۔زدنہ اس کائنات میں کسی نے نہیں رہنا۔اگر نام مسلمز والے رکھے ہیں تو اس بات کا یقین بھی دل میں بٹھا لیں کہ مرنے کے بعد ہر عمل کا حساب بھی دینا ہے۔خدا کی لاٹھی بڑی بے آواز ہوتی ہے ۔دعا ہے کہ گاؤں شہروں محلات میں بسنے والے ہر ایک کے بچوں کو وہ پاک ذات اپنی حفظوامان میں رکھے۔بچے پھول ہوتے ہیں یہ ہنستے مسکراتے کھلکھلاتی اچھے لگتے ہیں۔مزید کیا لکھوں طنزیہ تحریں لکھوانے پر انرجی ضائع کرنے کی بجائے مڑ کر دیکھ کر یہی جائزہ لے لیا جائے کہ کون سے مخدوم الحاج دنیا کا بھرا میلہ چھوڑ گئے تو منافقت کرنے کو کسی کا دل نہ کرے۔پاک فوج زندہ باد پاک فوج پائندہ باد۔اگر کسی کو اس بات پر ذرا سا بھی شک ہے وہ دو منٹ خاموشی میں تنہائی میں بیٹھ کر یہ سوچے کہ اس نے آج تک اس ملک کے لئے کیا کبھی ایک بھی رات ٹھٹھرا دینے والی ٹھنڈ میں جاگ کر گذاری ہے۔ہمارے نام نہاد جمہوریت کے پروانوں نے جو سسٹم ترتیب دیا ہے اس میں سیلاب آجائے تو ایک کشتی تک برآمد نہیں ہوپاتی ۔زلزلہ آجائے تو ایک سیڑھی تک دریافت نہیں ہو پاتی۔طنز کے تیر چلوانے ہوں تو ہزاروں کمیں گاہوں سے لاکھوں زہر میں بجھے تیر ٹھیک اسی طرح برآمد ہوتے ہیں جیسے کوفیوں کی تیروں کی بارش۔آخر میں ان سب کے لئے فرمان حضرت امام زین العابدین "مجھے اتنی تکلیف کربلا میں نہیں ہوئی جتنی کوفہ والوں کے خاموش رہنے پر ہوئی ۔کوفہ ایک شہر کا نام نہیں بلکہ ایک خاموش امت کا نام ہے ۔جہاں پر بھی ظلم ہو اور امت خاموش رہے وہ جگہ کوفہ اور لوگ کوفی ہیں۔"
Muhammad Rizwan Khan
About the Author: Muhammad Rizwan Khan Read More Articles by Muhammad Rizwan Khan: 24 Articles with 18200 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.