دل پر سیاہ دھبہ! کیوں؟

وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور باغ کے ایک کونے سے ایک کوئلے کا ٹکڑا اُٹھایا اور قریب کی دیوار پر کچھ لکھنا شروع کر دیا۔ پاس سے گزرنے والے اُس کو ایک مخبوط الحواس بوڑھا سمجھتے ہوئے یہ سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ آج وہ زمانے کا جُھٹلایا اور ٹُھکرایا ہو ا کیا پیغام دینے والا ہے ۔ لیکن پھر ایک راہ گزرتے" علم والے" نے پڑھا تو حیران رہ گیا کہ اُس نے لکھ تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بوڑھا شخص شام کے وقت ایک باغ کے بینچ پر بیٹھا ہوا

 بوڑھا شخص اور علم والا

ایک بوڑھا شخص شام کے وقت ایک باغ کے بینچ پر بیٹھا ہوا تھا۔ اُس کے بال کم ، بکھرے ہوئے اورکچھ مٹی بھی اُن میں جمی ہوئی تھی۔ایک پُرانا پینٹ کوٹ زیب تن کر رکھا تھا جو صاف نظر آرہا تھا کہ ایک مدت سے دُھلا نہیں ہوا۔پہنے بوٹ ہوئے تھے لیکن پالیش تو دُور کی بات کپڑے سے صاف کرنے کی زحمت بھی نہیں کی ہوئی تھی۔ چہرے اور ہاتھوں پر زمانے کے تھپیڑوں کی جُھریاں عیاں تھیں۔لیکن پھر بھی چہرہ ایسا مطمئین جیسے دُنیا کی وہ تما م راحتیں حاصل ہو ں جسکی سماج کھوج میں رہتا ہے۔ جو اُس کے پاس سے گزر رہا تھا اُسکی ظاہری حالت سے مایوس ہورہا تھا لیکن اُس کے چہرے کا اطمینان کسی کو کیوں نظر نہیں آ رہا تھا یہ بہت دِلچسپ تھا۔
بوڑھا شخص بھی اُنکی پرواہ کیئے بغیر باغ میں کھیلتے ہوئے بچوں کو دیکھ کر یہ غور و خوص کر رہا تھا کہ مختلف بچے مختلف گروپوں کی شکل میں اپنی اپنی پسند کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔لیکن اُن سب میں ایک ایسی چیز مشترک ہے جو کسی کو نظر نہیں آ رہی ہے اور وہ ہے اُن بچوں کا دِل جس میں کھیل کھیلنے کی دِلچسپی بھری ہوئی ہے اور اُس کھیل میں جیت کی لگن کیلئے وہ سب اپنے اپنے دماغ کا بہترین استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تا کہ جیت اُنکا مقدر بن جائے۔جبکہ اُس کی سوچ کے دوران کچھ بچوں کوہار کا بھی سامنا ہو چکا تھا لیکن وہ اپنے دِل کے شوق کو اہم سمجھتے ہوئے اگلے کھیل میں اپنی دماغی صلاحیت استعمال کر کے کامیابی حاصل کرنے کے خواہشمند نظر آ رہے تھے۔ دوسری طرف اُن بچوں کیلئے وہ بوڑھا شخص ایک پیار کرنے والا بابا تھا اور اُن میں سے ایک دو بچے اُسکو ہاتھ لگا کر ہلکی پُھلکی شرارت بھی کرتے تھے جو اُس بوڑھے کو بہت اچھا لگتا تھا کیونکہ اُن بچوں کے دِل میں محبت تھی اور دماغ میں مادیت پرستی کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اسلیئے آج اُسکی سوچ نے اُس کیلئے ایک اور نتیجہ اخذ کیا ۔

وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور باغ کے ایک کونے سے ایک کوئلے کا ٹکڑا اُٹھایا اور قریب کی دیوار پر کچھ لکھنا شروع کر دیا۔ پاس سے گزرنے والے اُس کو ایک مخبوط الحواس بوڑھا سمجھتے ہوئے یہ سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ آج وہ زمانے کا جُھٹلایا اور ٹُھکرایا ہو ا کیا پیغام دینے والا ہے ۔ لیکن پھر ایک راہ گزرتے" علم والے" نے پڑھا تو حیران رہ گیا کہ اُس نے لکھ تھا کہ:
" اپنے دِلوں کو کھول کر صاف کر لو تم کو پیدا کرنی والی ذات تمھارے انتظار میں ہے"۔
علم والے کو اُس ہی وقت شاعرِ مشرق ڈاکٹر محمد علامہ اقبال کا یہ شعر یا د آیا:
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جُھکا جب غیر کے آگے،نہ من تیرا نہ تن

دل پر سیاہ دھبہ:
ٓٓ آج ہمارے ملک کے سیاست دان ۔اعلیٰ عہدے دار، پرنٹ میڈیا ،الیکٹرونک میڈیا اور عوام اپنے معاملات کسی اور کے حوالے کر کے خواہش کر رہے ہیں کہ ملک میں مُثبت تبدیلی آ جائے۔ لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ" دماغ کسی اور کا ہو اور دل پر سیاہ دھبہ"۔سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ کیا آج کا سماج اپنے حقوق کی جنگ آپ لڑ رہا ہے؟ خاص طور پر مسلمان۔ یہ ایک انتہائی اہم سوال کی طرف نشاندہی ہے۔ کیونکہ سارے معاملات کو سیاسی رنگ دے کر سماج کا ہر فرد اس بات سے بری الذمہ ہونا چاہتا ہے کہ سیاست نامہ وہ نہیں ہے جو سماج کی خواہش کو اہمیت دے۔

آئین و قانون کا پابند:
سماج جو کہ تاریخی حیثیت میں بہت معنی خیز اصطلاح ہے۔تہذیب ،تمدن اور ثقافت کے رنگ کے ساتھ ہر وقت سماجی طلبِ علموں کیلئے موضوعِ بحث رہا ہے۔زمانہِ قدیم سے آج تک ہر زاویئے سے تحقیق کے بعد سماجی قدریں تلاش کی گئی ہیں اور دین و دُنیا کا ایک مشترکہ سماجی نظام واضح کرنے کی کوشش ہمیشہ سے جاری و ساری ہے اور تا قیامت یہ کوشش جاری رہے گی۔لیکن نظامِ ریاست میں سماج کو پھر بھی ایک ایسے آئین و قانون کا پابند کیا گیا ہے کہ جس کے تحت ریاستی امور کو اہم سمجھا جا سکے۔دوسری طرف ریاست کی بھی ذمہداری ہے کہ سماجی معاملات کو " فلاحی ریاست" کے تصور کے مطابق اہمیت دیں۔

دینِ اسلام بھی اس ہی پر عمل درآمد کیلئے زور دیتا ہے اور حضور پاکﷺ کی سیرتِ مبارک بھی اس ہی کیلئے مشعلِ راہ ہے۔

Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 204 Articles with 313467 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More