گدھے کا گھوڑ ا اور شیر کا گیدڑ۔۔۔

بڑے لوگوں کی کچھ امتیازی صًفات ہوتی ہیں جو عام لوگوں میں نہیں پائی جاتیں، جو اپنے سوا تمام انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہوں، زندگی کی ہر آسائش اور سکون پر اکیلا اپنا حق ہی سمجھتے ہوں،عام خلق کو جاہل،گنوار اور اپنے پائوں کی جوتی سمجھتے ہوں،جب ان کی شاہانہ سواریاں شہراہوں پر نکلیں تو عام رعیت کے لئے راستے بند ہوں

کسی دوست نے فرمایا ، " بھیا! بڑے لوگوں کے موڈ ہوتے ہیں، اگر موڈ ہوگیا تو گدھا بھی گھوڑا ورنہ شیر بھی گیدڑ بن جاتا ہے! “ہم نے اپنی خداداد کھوپڑی پر کافی زور ڈالا اس حکمت کو جاننے کے لئے کہ آخر گدھا گھوڑا کیسے بنتا ہے اور شیر جو جنگل کا بادشاہ ہے وہ یکایک گیدڑ کیسے بن جاتا ہے لیکن چونکہ بدقسمتی سے یا خوشقسمتی سے ہمارا بھیجہ پیدائشی طور پر عقل و دانش کی صلاحیت سے خاصا بنجر واقع ہوا ہےسو ہم نے عافیت اسی میں سمجھی کہ گدھے، گھوڑے، شیر اور گیدڑ کے بابرکت تذکرے کو فی الحال موخر کرکے کسی دبنگ دانشور سے معلوم کرلینا چاہیے کہ یہ "بڑے لوگ" نام کی دیومالائی مخلوق کون سی ہوتی ہے جن کی کوئی معانی یا وصف لغات کی کتابوں میں ناپید نظر آتی ہے۔ایک دبنگ دانشور کو دیکھتے ہی ہم نے اپنا سوال انکے سر پر دے مارا۔اپنے نسوانی طرز کے لمبے بالوں کے ایک گچھے کو بڑی بے دردی سے اپنے دانتوں میں دباکے چھوڑدینے کے بعد وہ بولے " دنیا کی کسی تسلیم شدہ ڈکشنری یا لغات میں " بڑے لوگوں " کا لفظ اس لئے نظر نہں آتا کہ دنیا کے ہر خطے اور ہر قوم کے بڑے لوگ الگ ہوتے ہیں۔اس لئے ہر سماج اور ملک میں بڑے لوگوں کا تصور اور تصویر بھی الگ ہوتی ہے۔مثال کے طور پر کچھ معاشروں میں ارسطو،سقراط اور بقراط بڑے لوگ شمار کیے جاتے ہیں تو کہیں شیکسپیئر،آئن اسٹائین اور نیوٹن کو بڑا آدمی تسلیم کیا جاتا ہے۔ہم نے پوچھا کہ یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ یہ ہمارے بڑے لوگ ہیں؟ " تمہارا دادا جان تو نہیں کرتا ہوگا یہ فیصلہ! بھائی، ان کی اپنی قوم یہ فیصلہ کرتی ہے، نہ صرف وہ قوم یہ فیصلہ کرتی ہے بلکہ وہ دنیا سے اپنا فیصلہ منواتی بھی ہے۔" اس نے عینک کے پیچھے اپنی خونخوار آنکھوں سے ہمیں تکتے ہوئے کہا۔
" لیکن ہمارے پاس بھی تو بڑے بڑے مفکر، سائنسدان اور اہل دانش موجود ہیں تو پھر وہ ہمارےبڑے لوگ کیوں نہیں ہیں؟"
ہم نے کامل معصومیت سے سوال کیا۔ " لیکن ناداں! تمہارے پاس قوم کہاں! "
ان کے اس ناقابل فہم فلسفے پر ہمیں اندر ہی اندر بہت غصہ آرہا تھا مگر انمول بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہم نے کہا،" ہم اتنی بڑی قوم نہیں تو کیا ہیں ؟ " راکھ کا ڈھیر ہو تم لوگ! ایسی ہوتی ہے قوم؟ لوگوں کے انبوہ کو قوم نہیں کہا جاتا۔ اگر تم قوم ہوتے تو یہ فیصلہ بھی تم کرتے کہ ہمارے بڑے لوگ کون ہیں۔"وہ غصے سے لال ہو رہا تھا۔
" تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے ہاں بڑے لوگ نہیں ہیں؟ " میں نے کہا۔ ایک خوفناک مسکراہٹ کے ساتھ وہ بولا،
" ذرا یہ بات کسی مجمعے میں زور سے کہکر تو دکھادے، اپنی اوقات یاد آجائیگی اور سب کو بتلاتے پھروگے کہ بھائی جان! واقعی ہمارے ہاں بڑےلوگوں کی کتنی بڑی بھیڑ لگی ہوئی ہے!"
" تو پھر ان لوگوں کو بڑا آدمی کس نے بنا دیا؟" میں نے پوچھا۔ " جنً،بھوت ،راکاس اور ڈائنیں وغیرہ تم نے سنی ہوںگی، اور لوگ ان سے ڈرتے بھی ہیں تو ان کو جنً، بھوت اور ڈائن وغیرہ کس نے بنایا ہے؟انہوں نے سوال کیا۔
" وہ تو نسل در نسل پیدائشی ایسے ہیں۔" میں نے جان چھڑانے کی ناکام کوشش کی۔ " تو بس یہی سمجھو کہ یہ لوگ بھی نسل در نسل اور پئدائشی طور پر بڑے لوگ ہیں۔" بھلا بڑے لوگوں کی کچھ پہچان ہی بتادیں ۔ ہم نے ضد کی۔
" ہاں، بڑے لوگوں کی کچھ امتیازی صًفات ہوتی ہیں جو عام لوگوں میں نہیں پائی جاتیں، جو اپنے سوا تمام انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہوں، زندگی کی ہر آسائش اور سکون پر اکیلا اپنا حق ہی سمجھتے ہوں،عام خلق کو جاہل،گنوار اور اپنے پائوں کی جوتی سمجھتے ہوں،جب ان کی شاہانہ سواریاں شہراہوں پر نکلیں تو عام رعیت کے لئے راستے بند ہوں، جو اپنی ہی قوم کا خزانہ لوٹ کر عیاشیاں کرتے ہوں، جب لوگ بھوک سے مررہے ہوں تو یہ جشن منارہے ہوں، جب قوم محرومیوں کا ماتم کررہی ہو تو یہ محو رقص ہوجائیں۔یہ اگر کسی کی طرف دیکھ کر مسکرادیں تو یہ ان کی عنایت! کسی عام آدمی سے آدھ ہاتھ کا مصافحہ کردیں تو یہ عوام کی خوشنصیبی!اربوں روپے مال پاس ہونے کے باوجود محتاجوں کی طرح غریبوں کے مال کی طرف آنکھیں ڈال کر بیٹھے ہوں، غریبوں اور ناچاروں پہ کئے گیے اپنے مظالم کی داستانیں ان کی محفلوں کی رونق ہو اور کسی مظلوم کے لب سے نکلتی ہوئی آہ ہی انکے دل کو ٹھنڈک دیتی ہو۔جب ان کی لوٹ مار کی وجہ سے قومی خزانہ خالی ہوجائے تو یہ عوام کی جیبیں کاٹ کر واپس اس کو بھردیں۔وہ جو خدا کی پوری زمیں کو اپنی ذاتی جاگیر اور تمام باقی انسانوں کو اپنا غلام سمجھیں۔ جن کا یہ عقیدہ ہو کہ سورج،چاند اور ستارے صرف ان کے کئے ہی چمکتے ہیں،بادل انکے لئے ہی برستے ہیں اور تمام پھول ان کے لئے ہی مہکتے ہیں۔ یہ ہیں ہمارے بڑے لوگ!"
" کیا تاریخ میں بھی یہی بڑے لوگ ہوتے ہیں؟ " میں نے آخری سوال کیا۔
" تاریخ ان کے گھر کی لونڈی تو ہے نہیں جو وہ بھی ان کا حکم ماننے کے لئے مجبور ہو! " اس نے کہا۔

Shafique Shakir
About the Author: Shafique Shakir Read More Articles by Shafique Shakir: 8 Articles with 6952 views Work as an educator,write columns in regional dailies.Write poems in Urdu,Sindhi and English... View More