معاشرے میں بڑھتا ہوا عدم برداشت

عدم برداشت سے نفسیاتی مسائل جیسے خوف، غصہ، چڑچڑاپن اور ذہنی الجھنوں کا سامنا رہتا ہے۔ معاشرے میں بہت سی چیزیں مثبت کے بجائے منفی سطح پر تیزی سے گامزن ہو رہی ہیں جو کہ کسی بھی معاشرے کی بقا کے لیے تشویش کاباعث ہے۔

کسی بھی معاشرے کی ترقی کا دارو مدار ایمان داری، برداشت ،بُردباری اور بھائی چارگی ہے۔جس معاشرے میں آقا محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم تشریف لائے وہاں کی سوسائٹی میں اخلاقی گراوٹ اور عدم برداشت انتہا پر تھی۔ جہاں ایک گھوڑا اگر آگے نکل جاتا تو اس پر لڑائی ہوجاتی تھی یا کسی کے جانور نے اگر پہلے پانی پی لیا تو اس پر کئی نسلوں تک دشمنی رہتی تھی۔ انسانی خون پانی سے زیادہ سستا اور ارزاں تھا۔ اسی طرح کی ایک لڑائی ’’حرب بسوس‘‘ کے نام سے مشہور ہے جو تقریباً چالیس سال تک لڑی گئی۔ وجہ یہ تھی کہ ایک قبیلے کی مرغی دوسرے قبیلے کے کھیت میں چلی گئی تھی۔جبھی تو ’’مسدس‘‘ میں حالی نے کہا تھا:
کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
لبِ جُو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
یونہیں روز ہوتی تھی تکرار اُن میں
یونہیں چلتی رہتی تھی تلوار اُن میں

اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عرب معاشرہ جوبے حس اور ظالم تھا میرے پیارے آقا محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم نے اپنے عمل اور کردار سے تبدیل کردیا۔ کیوں کہ آپ محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم اخلاق وکردار،معاملات، معمولات، رویے، ترجیحات میں صلہ رحمی کرنے والے تھے۔صلۂ رحمی یہ نہیں ہوتی کہ آدمی اچھائی کا بدلہ اچھائی سے دے بلکہ آپ محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا:’’جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے جوڑو، جو تم سے بُرا کرے تم اس سے اچھا کرو!‘‘اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدمت اور صلۂ رحمی صرف یہ نہیں کہ جو اچھا ہو، اسی کے ساتھ اچھائی کی جائے بلکہ اس معاملے میں اچھے برے کی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔آپ محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم نے عرب کے ایسے معاشرے کو تبدیل کیا کہ ان میں رواداری اور بھائی چارگی کی فضا پیدا ہوگئی۔ انصار اور مہاجر ایک دوسرے کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کو تیاررہنے لگے۔

افسوس! ہمارا معاشرہ بھی اس وقت اُن عرب قبیلوں کی طرح عدم برداشت میں کم نہیں ہے۔پورے معاشرے میں بے یقینی پھیلتی جارہی ہے۔عدم برداشت کی یہ لہر پاکستان کو کئی برسوں سے اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ معاشرہ دیوانگی اور بربریت کے خلاف مزاحمت کی بجائے اس کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ جہاں بھی دیکھیں لوگ ایک دوسرے کے دست و گریباں ہیں۔ معمولی معمولی باتوں پر غلیظ زبان کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے ۔بچے اساتذہ سے بدتمیزی کرتے نظر آتے ہیں، استاد بچوں سے انتہائی سفاکانہ اور سخت رویے سے پیش آتے ہیں۔ والدین اولاد کے ساتھ اور اولاد والدین کے ساتھ تمیز کے دائرے سے باہر نظر آتے ہیں۔ ٹریفک سگنل پر کھڑی گاڑیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جلد سے جلد آگے نکل جائیں، چاہے وہ کسی بھی حادثے کا شکار ہوجائیں اُنھیں تو بس جلدی جانا ہے؟معاشرے میں عدم برداشت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ کوئی ایک دوسرے کی بات سننے کو تیار نہیں ہے بلکہ اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے، چاہے اُسے کتنے ہی غلط دلائل پیش کرنا ہوں فخر سے پیش کرے گا۔عدم برداشت کے اس خوفناک رجحان سے معاشرے میں تشدد کے ایسے ایسے لرزہ خیز واقعات بھی جنم لے رہے ہیں کہ ان کا ذکر کرتے ہوئے انسانیت کاسرشرم سے جھک جاتا ہے۔ غلطیاں کس سے نہیں ہوتیں، بڑائی وہ ہے کہ لوگ اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی اصلاح کریں۔ مگر یہاں تو معاملہ بالکل برعکس ہے، غلطی تسلیم کرنے کے بجائے دوسرے کو غلط ثابت کرنے میں وقت صَرف کردیتے ہیں۔

بہترین معاشرے کی مثالیں ہمارے پیارے آفا محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم نے آج سے چودہ سوسال قبل ہی پیش کردی تھیں۔آپ محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم جب ایک گلی سے تشریف لے جاتے تھے تو ایک عورت آپ محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم پر کچرا پھینکا کرتی تھی۔ ایک دن اُس عورت نے کچرا نہیں پھینکا تو آپ محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم نے معلوم کیا، تو پتا چلا کہ وہ بیمار ہے۔ آپ محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم اُس کے گھر تشریف لے گئے اور عیادت کی۔ کیا ہمارے معاشرے میں کوئی ایسی مثال ملتی ہے۔مولانا سیدسلیمان ندوی خطبات مدراس میں لکھتے ہیں کہ ایک انگریز مورخ لکھتا ہے’’ میں نے مسلمانوں کے پیغمبر جیسی برداشت، صبر اور عقل کامل کہیں نہیں پائی‘‘۔ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اسی وقت ختم ہوسکتا ہے، جب ہم اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر تسلیم ورضا اپنائیں۔

خواجہ حسن نظامی اردو کے مایہ ناز ادیب ہیں آپ کی بے شمار کتب ہیں۔اُن ہی کتب میں ’’غدر دہلی کے افسانے‘‘ اور’’ بیگمات کے آنسو‘‘ بہت مشہورہیں۔جنمیں۱۸۵۷ء کے انقلاب کے نتیجے میں شہزادوں اور بیگمات کے مصائب کی داستانیں لکھی ہیں جنھیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ایک مغلیہ سلطنت کی تاراجی اور بربادی کے خود بادشاہ اور شہزادے ذمے دار تھے۔سلطنت کے لُٹ جانے کے بعدوہ کس طرح دربدرکی زندگی گزار رہے تھے یہ کہانیاں اتنی پُراثر اور دل گداز ہیں کہ بے اختیار ان شہزادوں اور خانوادوں کے حالات پڑھ کر افسوس ہوتا ہے۔ ’’شہزادے کا بازار میں گھسٹنا‘‘ اس واقعے میں ایک فقیر شہزادوں کو منع کرتا ہے کہ درختوں پر بیٹھے پرندوں کو تنگ مت کرو، لیکن شہزادے اپنی جاہ وحشمت کے غرور میں تھے اس لیے فقیر کو برا بھلا کہنے کے بعد غلیل سے اُس کے پیر پر ایک پتھر مارا جس سے وہ بے چارا گھسٹتا ہوا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ وہ تخت کیوں کر آباد رہے گا جس کے وارث ایسے سفاک ظالم ہیں۔جب انگریز فوجوں نے سلطنت پر قبضہ کرکے بادشاہ اور شہزادوں کو گرفتارکیا تواِنہی میں شہزادہ نصیرالملک بھی تھا جس نے فقیر کو غلیل سے پتھر مارا تھا۔جب انگریزوں سے آزادی ملی تو دہلی کے بازارمیں ہاتھوں کو ٹیک کر کولھوں کو گھسیٹتے ہوئے راستہ چلتا تھااور گلے میں ایک جھولی ہوتی تھی۔آج بھی اہلِ اربابِ اختیار اُن ہی بادشاہوں کی طرح کچھ برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔بلکہ وہ اپنی خوشنودی کے حصول کے لیے مصررہتے ہیں۔

غصہ ہمارے پورے معاشرے میں سرایت کرچکا ہے ،جس کے اظہار کے لیے کبھی احتجاج اور کبھی تشدد کے واقعات رونماہوتے ہیں ،اسی وجہ سے جرائم کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے ، فرقہ واریت بڑھ رہی ہے۔ عوام میں عدم تحفظ کا احساس شدت سے سرایت کرگیا ہے۔ روزانہ بریکنگ نیوز کی صورت میں پاکستان کے مختلف حصوں سے تشدد کی خبریں آتی رہتی ہیں۔یہی نہیں اگر ہم اپنے نجی معمولات پر بھی نظرڈالیں تو ہمیں بہت سے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں ہمیں اکثر اوقات عدم برداشت کے مظاہرے دیکھنے کو ملتے ہیں۔

ہمارے مذہبی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی رویوں میں بے اعتدالی پیدا ہوگئی ہے۔ مذہبی طبقہ اپنے اپنے مسالک کو درست قرار دینے کے لیے دوسرے مسالک کو نشانہ بناتے ہیں۔اسی طرح سیاستدانوں کا بھی یہی حال ہے کہ وہ اپنی جماعتوں کو صحیح ثابت کرنے کے لیے دوسروں کو گڑھے میں ڈالنے پر اصرار کرتے ہیں۔ ثقافتی اور سماجی حلقوں کا بھی یہی حال ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہر جگہ پیکٹ کی صورت میں لوگ جمع ہیں اور اپنے ہم نظریہ لوگوں کو ہی برداشت کرتے ہیں۔کیا کسی بھی معاشرے میں تمام لوگ اتفاق کے بجائے نفاق سے رہیں، یہ ہمارے لیے کس حد تک قابل قبول ہوگا؟ہم مسلمان توہیں، مگر جب کوئی سماجی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو رویوں میں تبدیلی ہونے لگتی ہے۔

عدم برداشت سے نفسیاتی مسائل جیسے خوف، غصہ، چڑچڑاپن اور ذہنی الجھنوں کا سامنا رہتا ہے۔ معاشرے میں بہت سی چیزیں مثبت کے بجائے منفی سطح پر تیزی سے گامزن ہو رہی ہیں جو کہ کسی بھی معاشرے کی بقا کے لیے تشویش کاباعث ہے۔آپ اس بات سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ تحمل، صبر اور قناعت ایسی چیزیں ہیں کہ اونٹ چرانے والی قوم کو اﷲتعالیٰ نے حضورمحمدمصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم کی صحبت کے صدقے میں کہاں سے کہاں پہنچادیا۔

صابر عدنانی
About the Author: صابر عدنانی Read More Articles by صابر عدنانی: 34 Articles with 80208 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.