حقیقت میلاد النبی - بہترواں حصہ

آج ’محدثات الامور‘ کس سطح کے اُمور کو کہا جائے گا؟:-

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدعت کو ’’محدثات الامور‘‘ سے تعبیر کیا اور اس کا معنی خود اپنے ارشاد سے متعین فرمایا۔ وہ ایسے فتنے ہیں جو دین کی بنیادی تعلیمات کو مسخ کر دیں یا ان کا انکار کر دیں اور یہ ارتداد پر مبنی ہوں۔ لہٰذا بدعاتِ ضلالۃ سے مراد چھوٹے اور ہلکی نوعیت کے اختلافات نہیں بلکہ ان سے مراد اس سطح کے فتنے ہیں کہ ان میں سے ہر فتنہ ’’خروج عن الاسلام‘‘ اور ’’اِرتداد‘‘ کا باعث بنے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور اَمرِ دین کو کاٹے اور ’’اِختلافِ کثیر‘‘ بن کر اُمت میں ظاہر ہو۔ مثلاً اگر کوئی شخص دین کے بنیادی عقائد (ایمان باللہ، ملائکہ، سابقہ نازل شدہ کتب، انبیاء، یوم آخرت، تقدیر اور حیات بعد اَز موت) میں سے کسی کا انکار کرے، اسلام کے اَرکانِ خمسہ (ایمان باللہ والرسول، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ) میں سے کسی کا انکار کرے، اَرکانِ اسلام میں کمی یا زیادتی، ختم نبوت کے انکار، تحریفِ قرآن (متنِ قرآن میں کمی یا زیادتی) کا مرتکب ہو، سنت کا انکار کرے، کسی خارجی فتنہ کی طرح باطل مسلک کی بنیاد رکھے، جہاد کی منسوخی، سود کا جواز وغیرہ کا عقیدہ گھڑ لے تو ان فتنوں کو قیامت تک کے لیے دین میں بدعاتِ ضلالۃ کہیں گے اور یہی ایسے فتنے ہیں جن کے ماننے والوں اور پیروکاروں کو جہنم کا ایندھن بنایا جائے گا۔ لہٰذا بدعت سے مراد فقط فتنہ اِرتداد اور اس کی مختلف شکلیں ہیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے فورًا بعد پیدا ہوئیں یا بعد کے مختلف اَدوار میں پیدا ہوں گی۔ اگر ایسی صورت نہیں ہے تو اس پر بدعتِ ضلالۃ کا اِطلاق نہیں ہوگا۔ پس آج بھی ارتداد ہی ایسا قاعدہ اور کلیہ ہے جس پر کسی بھی اَمر کو پرکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ بدعتِ ضلالۃ میں شمار ہوتا ہے یا نہیں؟ لہٰذا چھوٹے چھوٹے فروعی اور نزاعی مسائل مثلا میلاد، عرس، ایصالِ ثواب وغیرہ کو بدعات و گمراہی اور ’’محدثات الامور‘‘ نہیں کہا جاسکتا، کیوں کہ ان سے خروج عن الاسلام لازم نہیں آتا اور نہ اِرتداد ہوتا ہے بلکہ یہ اَصلاً شریعت سے ثابت ہیں۔ جب کہ ’’محدثات الامور‘‘ ان فتنوں کو کہا گیا ہے جن کی وجہ سے اُمت میں اِختلافِ کثیر پیدا ہوا، امت آپس میں بٹ گئی حتیٰ کہ الگ الگ لشکر بنے، جنگیں ہوئیں اور ہزاروں افراد ان فتنوں کے باعث شہید ہوئے۔

افسوس ہے ان لوگوں پر جنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد اور ایصالِ ثواب وغیرہ کو محدثات الامور اور بدعاتِ ضلالۃ قرار دیا ہے۔ ان کو دین میں بدعت قرار دینا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیان کردہ تعریف سے انکار، حدیث سے انکار اور جسارت علی الرسول ہے۔ لیس علیہ امرنا کا بھی یہی معنی ہے، یہ دَرحقیقت دین کے اندر مستحب اور مستحسن اُمور ہیں۔ فقہاء کے درمیان ہزاروں اختلافات ہیں، کئی مسائل میں مستحب و مکروہ حتیٰ کہ حلت و حرمت کا بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان اُمورِ مستحبات کو بدعات کہنا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیان کردہ تعریف کی روشنی میں گویا ارتداد اور کفر و شرک کا فتویٰ لگانے کے مترادف ہے اور مرتدین کے خلاف قتال کرنا جہاد ہے۔ کیا جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بدعتِ ضلالہ کا فتویٰ لگانے والے میلاد منانے والوں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں؟

جس طرح عہدِ صحابہ میں تدوینِ قرآن، باجماعت نمازِ تراویح اور جمعہ کے دن دو اذانوں جیسے اُمور کو جاری کرنے کا مقصد اُمتِ مسلمہ کی بھلائی تھا، ایسے ہی میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا تاجدارِ کائنات حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ٹوٹے ہوئے قلبی اور حبی تعلق کو برقرار رکھنے اور دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت و اِتباع کا جذبہ بیدار کرنے کا قوی اور مستحکم ذریعہ ہے۔ اور ایصالِ ثواب جیسے اُمور متوفیانِ اِسلام کی بلندیء درجات اور گناہوں کی بخشش کا سبب ہیں۔

تصورِ بدعت آثارِ صحابہ رضی اللہ عنھم کی روشنی میں:-

گزشتہ بحث میں ہم نے بدعت کا لغوی مفہوم بیان کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ لغوی اعتبار سے بدعت نئی چیز کو کہتے ہیں اور محدثات الامور و اِحداث فی الدین کا تعلق فتنہ اِرتداد یا خروج عن الاسلام کی سطح کے فتنوں کے ساتھ ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ بدعت کا تصور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے آثار میں بھی موجود ہے یا نہیں؟ اس کی وضاحت کے لیے ہم یہاں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا عمل مختصراً بیان کریں گے، کیوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اُمت کے لیے اِن صحابۂ کبار رضی اللہ عنھم کا عمل سب سے زیادہ معتبر ہے، اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنوں کے قلع قمع کے لیے اپنی اور اپنے بعد آنے والے خلفاء راشدین مہدیین کی سنت کی پیروی کو لازمی قرار دیا ہے۔

1۔ جمعِ قرآن اور شیخین رضی اﷲ عنہما کا عمل:-

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد جب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ منصبِ خلافت پر متمکن ہوئے تو اس وقت جھوٹی نبوت کے دعوے دار مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ یمامہ میں تقریباً سات سو (700) حافظِ قرآن صحابہ رضی اللہ عنھم شہید ہوئے۔ قبل ازیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری زمانہ اقدس سے اب تک قرآنِ حکیم کے ایک جلد میں جمع کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہوسکا تھا بلکہ متفرق مقامات پر مختلف صورتوں میں لکھا ہوا موجود تھا۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ اگر یہ سلسلہ جہاد و قتال اسی طرح جاری رہا اور وہ صحابہ رضی اللہ عنھم جن کے سینوں میں قرآن حکیم محفوظ ہے شہید ہوتے رہے تو عین ممکن ہے کہ حفاظتِ قرآن میں خاصی دشواری پیش آئے۔ اِس خدشہ کے پیش نظر اُنہوں نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو تجویز دی کہ قرآن حکیم ایک کتابی صورت میں جمع کر لیا جائے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

کيف أفعل شيئا ما لم يفعله رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم؟

’’میں ایسا کام کیسے کر سکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں فرمایا۔‘‘

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : اے امیر المومنین! درست ہے کہ یہ کام ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ظاہری حیاتِ مقدسہ میں نہیں کیا لیکن ’’ہو واﷲ خیر‘‘ اللہ کی قسم! بہت اچھا اور بھلائی پر مبنی ہے۔ لہٰذا ہمیں اسے ضرور کرنا چاہیے۔ اس بحث و تمحیص کے دوران سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سینہ کھل گیا اور کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اس عظیم کام پر مامور کیے گئے۔ چنانچہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کھجور کی شاخوں، سفید پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن کو جمع کرنا شروع کر دیا اور اس طرح تیار کیے گئے قرآن حکیم کے چند نسخے جو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بعد ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اﷲ عنہا کے پاس محفوظ ہوگئے تھے بعد میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان سے منگوا کر قرآنِ حکیم کو دوبارہ موجودہ ترتیب میں یک جا کر دیا۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب التفسير، باب قوله : لقد جاء کم رسول من أنفسکم عزيز عليه ما عنتم حريص عليکم، 4 : 1720، رقم : 4402
2. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب من سورة توبة، 5 : 283، رقم : 3103

اس طرح تاریخِ اسلام میں پہلی بدعتِ حسنہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوئی۔

جاری ہے---
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 93925 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.