اگلی تصویر

 پہلے یہ تصویر لاہور کے اخبارات میں شائع ہوئی، جنوبی پنجاب جیسے دور دراز علاقوں کی باری اگلے روز آئی، جس نے جس اخبار میں تصویر دیکھی ، اسی اخبار کا حوالہ دیا اور اس پر اپنی رائے کا اظہار بھی ضروری جانا، بلکہ بہت سے لوگوں نے تو اپنے جذبات کے تِیر اخبار پر ہی چلانے میں ذرا دیر نہ کہ وہ ’’دو ٹکے‘‘ کی خاطر کہاں تک گر جاتے ہیں۔ تصویر نے سوشل میڈیا پر بھی خوب دھوم مچائی، اور یہ بات بالکل سچ ہے کہ کسی اشتہار کے لئے دی گئی اس تصویر نے اشتہار دینے والی کمپنی کی توقع سے بہت بڑھ کر بزنس کیا۔ دنیا کے دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ اشتہار کے پیمانے بھی تبدیل ہورہے ہیں، اب کئی روز تک اشتہار آتا ہے کہ ’’آرہا ہے‘‘۔ لوگوں میں جب خوب تجسس بڑھ جاتا ہے تو کمپنی اپنا مطلوبہ اشتہار لے آتی ہے، یوں اس کے لئے ماحول پہلے سے ہی تیار ہوتا ہے، یوں اپنی بات دوسروں تک اشتیاق کے ساتھ پہنچ جاتی ہے۔

زیر نظر اشتہار میں بہت انفرادیت ہے، ایک یہ کہ اس نے بھی قوم کو پہلے انتظار کروایا، اب بھی ’’اشتہار‘‘ صرف ایک تصویر پر مشتمل ہے، اخبار کے صفحہ اول کے لوئرہاف کے بالکل آخر میں ایک (چھ کالمی )خاتون اوندھی لیٹی ہے، اس علاقے میں موجود خبریں اس کے قریب آکر اپنا وجود کھو بیٹھتی ہیں، کیونکہ وہاں سے خاتون کا وجود شروع ہوجاتا ہے، اس کے ایک ہاتھ میں ایک موبائل بھی ہے، جوکہ تصویر کو دیکھنے کے آخری مرحلے میں دکھائی دیتا ہے، کیونکہ اس سے قبل اور بھی بہت سے مناظر ہیں، جہاں نظر ٹھہر جاتی ہے، خاتون نے سرخ رنگ کے کپڑے پہن رکھے ہیں، جن کا اگر رنگ تبدیل کرکے ’’سِکن کلر‘‘ کردیا جائے، تو مدعا مزید جلدی پورا ہوسکتا ہے۔ اخبار کھولتے ہی وہ تصویر قاری کو اپنی جانب متوجہ کرلیتی ہے، اگر کوئی قاری اپنے اہل خانہ میں بیٹھا ہے تو وہ اخبار کو فولڈ کرکے اوپر والا آدھا اخبار ہی پڑھ سکتا ہے، کیونکہ نیچے والے حصے میں فطری حیا اس کا راستہ روک لیتی ہے۔

نسوانی حُسن کی جلوہ گری اس اشتہار میں نمایاں ہوکر سامنے آئی ہے، اس موقع پر حیا وغیرہ کی ہڈی کباب میں ڈالنا زیادہ مناسب معلوم نہیں ہوتا، یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے، کہ قارئین کی اکثریت نے اسے بہت پسند کیا ہوگا، اور اس میں خوب دلچسپی لی ہوگی، ضروری نہیں کہ ہر کوئی گھر والوں میں بیٹھ کر ہی یہ اخبار پڑھے گا، بہت سوں کو تنہائی میں اخبار بینی کا موقع ملے گا اور کہتے ہیں کہ جب انسان تنہا ہوتا ہے تو شیطان اس کے قریب ہی ہوتا ہے، ایسے میں حیا وغیرہ کی ہانڈی بھی چولہے پر نہیں چڑھتی۔ مگر یہاں مسئلہ اہل خانہ میں یا تنہائی میں یا دوستوں میں ایسی تصویر دیکھنے کا نہیں، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہم لوگ آہستہ آہستہ ، ہلکی ہلکی چوٹیں کھا کر اس قسم کی باتوں کے عادی نہیں ہوتے جارہے؟ کونسا ڈرامہ ہے، کونسی خاتون اینکر ہے جس کے سر پر دوپٹہ ہو، اب یہ باتیں دقیانوسی معلوم ہوتی ہیں، اب برقعہ وغیرہ تو باقاعدہ جہالت کی ڈگری اختیار کرنے کو ہے، جس نے پردہ کرنا ہے، وہ دفاتر میں ملازمت کے قابل کیونکر قرار پاسکتی ہے، اگرچہ چند ایک ایسی مثالیں ضرور موجود ہیں، جو آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔

یہ بات نہایت ہی صدمے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے، کہ قرآن پاک میں جس عریانی فحاشی کو دورِ جاہلیت کی نشانی قرار دیا گیا ہے، وہی گنگا اپنے ہاں الٹی بہہ رہی ہے، یہاں پردے کو جہالت اور عریانی فحاشی کو ترقی کی علامت قرار دیا جارہا ہے۔ اب اگر ایک خاتون کی مذکورہ بالا تصویر آئی ہے تو بہت سے لوگ اس کو ایک اشتہار کی ایک ضرورت قرار دے سکتے ہیں، ٹی وی میں جیتی جاگتی تصویروں کی مثال دے سکتے ہیں، اس تصویر پر منفی تبصرہ اور تنقید کرنے والوں کو دقیانوسی اور قدامت پرست کہہ سکتے ہیں۔ ایسا طبقہ موجود ہے، جو اس قسم کی روایات کو پنپتا دیکھنے کے لئے بے چین ہے، ان کی نگاہ میں معاشرہ گُھٹا ہوا ہے، اسے آزاد ہونا چاہیے۔ ایسے لوگوں کو زیادہ فکر مندی کی ضرورت نہیں، اپنے ٹی چینلز پر ڈراموں کی حالت ملاحظہ کرلیں، کونسا ڈرامہ ہے جس میں لڑکی لڑکے کی داستانِ عشق نہیں؟ ہر گھر میں بیٹھی بیٹی کو نئے طریقے دکھائے اور سمجھائے جاتے ہیں، نوجوان لڑکے دوسری شادی کرتے اور پہلی کو طلاق دیتے عام طور پر دکھائے جارہے ہیں، اس قسم کے ٹریننگ سینٹر ہر گھر میں ٹی وی چینلز کی صورت میں قائم ہو چکے ہیں، صرف تین سو روپیہ ماہانہ پر ہر کوئی یہ تربیت حاصل کرسکتا ہے۔مذکورہ اشتہار کی تصویر کوہم لوگوں نے جو پذیرائی بخشی ہے،امید ہے کمپنی کو بہت حوصلہ ملا ہوگا اور اگلی تصویر اس سے مزید پر کشش ہوگی۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 434025 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.