الف نون کے’ ا لن‘اﷲ کو پیارے ہوئے

تخلیق کار ، ڈرامہ نگار، ناول نگار، اداکار کمال احمد رضوی جو الف نون کے حوالے سے الن کے نام سے معروف تھے چند روز قبل انتقال کر گئے۔ وہ بے بہا خوبیوں کے مالک تھے۔ انہوں نے الف نون ڈرامہ از خود تحریر کیااور اس میں الن کا کردار بھی از خود ہی ادا کیا۔ انہوں نے ا کے علاوہ بھی کئی ڈرامے تحریری کے۔

کمال احمد رضوی المعروف الن

 ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے
2015ء نے جاتے جاتے علم وادب کا ایک اور چراغ گل کردیا۔ مِزاح نگار، ڈرامہ نگار، مترجم ، ناول نگار ،مدیر ، اداکار اور پاکستان میں تھیٹر کے بانی کمال احمد رضوی 17 دسمبر2015 ء کو عالم فانی سے ہمیشہ ہمشہ کے لیے عالم جاودانی میں چلے گئے۔انہوں نے ٹی وی مزاحیہ ڈرامہ ’الف نون‘ سے شہرت کی بلندیوں کو چھوا ، ڈارامہ کے خالق بھی وہ از خود ہی تھے اور اس ڈرامے کامرکزی کرداروں بھی انہوں نے الن کے نام سے خود ہی ادا کیا۔ جب کہ نون یعنی ننھے کا فلمی اداکارر رفیع خاور نے ادا کیا ۔الن اور نون کی جوڑی اس ڈرامے میں اس قدر ہٹ ہوئی کہ لوگ اس ڈرامے کو دیکھنے کا بے چینی سے انتظار کیا کرتے تھے ۔یہ جوڑی ادارکار ننھا’ رفیع خاور‘ کی خود کشی کرلینے کے بعد اچانک ٹوٹ گئی تھی اور الن تنہا رہ گئے۔ اس بعد بھی انہوں نے کئی ڈرامے کیے اور لکھے بھی لیکن الف نون جیسی شہرت نصیب نہ ہوسکی۔ 29 سال بعد 17 دسمبر2015 ء کو الن دوبارہ اپنے ساتھی ننھے سے جا ملے ۔
و ہ دن وہ محفلیں وہ شگفتہ مزاج لوگ
موج زمانہ لے گئی نہ جانے ان کو کس طرف

الن (کمال احمد رضوی) اداکار کے طور پر معروف ہوئے لیکن ان میں حسِ مزاح کا ایسا لطیف احساس پایا جاتا تھا کہ دیکھنے اور سننے والے داد دیے بغیر نہ رہ سکتے۔ ان کے جملے ظرافت کا اعلیٰ نمونہ ہوا کرتے، ان کے مزاحیہ فقرے نپے تلے اور عام فہم ہونے کے ساتھ ساتھ طنز کے تیر ونشتر لیے ہوئے ہوتے تھے۔ وہ اپنے ہی لکھے ہوئے جملوں کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اس انداز سے ادا کیا کرتے کہ مِز اح کا لطف دوبالا ہوجایا کرتا۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر الن کا تحریر کردہ ڈرامہ الف نون 72۔1971ء کے درمیان پہلی مرتبہ ٹیلی کاسٹ ہوا، یہ متعدد قسطوں پر مشتمل تھا۔ معاشرے کے سیاسی، سماجی، اقتصادی، ادبی موضوعات کو ہلکے پھلکے مزاح کے ساتھ الن (کمال احمد رضوی) اور ننھا (رفیع خار) اس خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا کرتے تھے کہ جو وقت الف نون کی ٹیلی کاسٹ ہونے کا ہوتا اس وقت محلوں کی گلیوں میں سنناٹا ہوا کرتا لوگ اس بات کی کوشش کیا کرتے کہ وہ الف نون کے نشر ہونے سے قبل اپنے اپنے گھروں کو پہنچ جائیں۔اس ڈرامہ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ 1970سے 1980کے درمیان یہ سیریل کراچی ٹیلی ویژن سے تین بار ٹیلی کاسٹ کی گئی۔

الف نون میں دو بنیادی کردار تھے ایک’ الن‘( کمال احمدرضوی )جب کہ دوسرا کردار ادار کار رفیع خاور ننھے کے نام سے ادا کیا کرتے تھے۔ الف یعنی الن دبلے پتلے اسمارٹ تھے ، ان کا کردار سنجیدگی لیے ہوئے تھا جب کہ نون یعنی ننھا اس کے مقابلے میں گول مٹول اور موٹے تھے، ار ان کا کردار مزاحیہ تھا، جس وقت یہ جوڑی ٹیلی ویژن پر نمودار ہوتی انہیں دیکھ کر ہی لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ آجایا کرتی۔ رفیع خاور فلموں میں کام کیا کرتے تھے، فلمی اداکار تھے ان کی پہلی فلم ’وطن کا سپاہی ‘ تھی۔ ننھا نے بے شمار فلمیں کیں ، وہ عموماً مزاحیااداکاری ہی کیاکرتے تھے۔ فلموں میں تو وہ کامیاب نہ ہوسکے البتہ کمال احمدرضوی کے لکھے ہوئے ڈرامے میں رفیع خاور کو بے پنا شہرت ملی۔ کہا گیا کہ رفیع خاور فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والی کسی ہیروئن کے عشق میں گرفتار ہوگئے تھے ۔ان کا عشق ناکام عشق ہوگیا ۔ وہ بظاہر صحت مند تھے لیکن دل کے بہت ہی چھوٹے نکلے ، انہوں نے دل برداشتہ ہوکر 2جون1986ء کو اپنے آپ کو گولی کا نشانہ بنا لیا اور خود کشی کر لی۔ ننھے کے انتقال کا اثر کمال احمدرضوی پر بھی ہوا۔ اس لیے کہ ننھے کہ اس عمل سے الن اپنے ساتھی اور دوست سے محروم ہوگئے۔ اس کے بعد کمال احمدرضوی نے کئی ڈرامے کیے لیکن ننھے کے بغیر ان کی اداکاری ادھوری ادھوری محسوس کی گئی۔ خود الن کو بھی اس بات کا شدید احساس تھا۔ انہوں نے لکھنے کاعمل تو جاری رکھا لیکن اداکاری سے اجتناب کرنے لگے۔اب وہ زیادہ وقت پڑھنے میں دینے لگے تھے۔ گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی۔
بکھری ہیں فضاؤں میں اس طرح تری یادیں
جس سمت نظر اُٹھی ‘ آواز تری آئی

کمال احمد رضوی نے متعدد ڈرامے تحریر کیے ان میں مسٹر شیطان، آدھی بات، بلاقی بدذات، بادشاہت کا خاتمہ، جولیس سیزر، صاحب بی بی گلام، چور مچائے شور،کھویاہوا آدمی، خوابوں کا مسافر، ہم سب پاگل ہیں، آپ کا مخلص شامل ہیں، انہوں نے مختلف رسائل کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیے ان میں تہذیب، آئینہ، شمع کے علاوہ بچوں کا رسالہ بچوں کی دنیا، تعلیم و تربیت،پھلواری شامل ہیں۔ کمال احمدرضوی بے بہا خوبیوں کے مالک تھے۔ ان کے قلم میں روانی اور پختگی تھی۔ ان کی سوچ کا دھارا ہمیشہ معاشرے میں کسی نہ کسی برائی ، خامی یا کمزوری کو دور کرنے کی جانب ہوا کرتا۔ الف نون کے بے شمار اقساط میں انہوں نے روزمرہ کے مسائل ، لوگوں کی مشکلات پر خوبصورت انداز سے طنز کے تیر چلائے ۔ وہ قلم کار ہونے کے ساتھ ساتھ اداکار بھی اتنے ہی اچھے تھے۔ بنیادی طور پر وہ تخلیق کار تھے۔ تھیٹر کے حوالے سے ان کی خدمات کو پاکستان میں پہلا پتھر تصور کیا جاتا ہے ۔ وہ بجا طور پر founding father of theature in Pakistanکہلائے جاتے ہیں۔ کمال احمدرضوی کی موت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا نعم البدل مشکل ہی نہیں بلکہ نہ ممکن ہے۔ وہ اپنی ذات میں ادارہ تھے۔ شخصی کمالات اور خوبیوں کا مجموعہ۔
جنہیں دیکھ کر جیتے تھے ناصرؔ
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں

کمال احمدرضوی کا تعلق ہندوستان کے شہر بہار شریف سے تھا وہ 1930ء میں بہار کے گاؤں ’گیا‘ کے مقام پر پید ا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ہندوستان میں ہی حاصل کی۔قیام پاکستان کے بعد پانچ سال بعد 1951ء میں انہوں نے پاکستان ہجرت کی،اس وقت ان کی عمر 21 برس تھی ۔شروع میں کراچی پھر لاہور منتقل ہوگئے لیکن پھرکراچی میں رہائش اختیار کی۔کمال احمدرضوی ترقی پسند خیالات رکھتے تھے، ان کے دوستوں کا حلقہ بھی ترقی پسندوں پر ہی مشتمل تھا۔ کراچی کے ابتدائی سالوں میں شہر کراچی کے شاعر، ادیب و دانشور کراچی کے معروف علاقے صدر میں قائم کیفے جارج میں شام کے اوقات میں جمع ہوا کرتے اور ادبی محفلیں رات گئے تک جاری رہتیں۔ کیفے جارج کے بعد پاک ٹی ہاؤس ادیبوں کی پناہ گیا بن گیا۔ کمال احمدرضوی بھی ابتدائی ایام میں ان محفلوں میں بھر پور شریک ہوا کرتے۔حکومت کی جانب سے انہیں 1989ء میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔ بلا شبہ کمال احمد رضوی کے انتقال سے ادبی دنیا ایک تخلیق کار سے محروم ہوگئی ؂
مرنے والے مرتے ہیں فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1284483 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More