درندوں کے انسانی حقوق؟

 جرم کرنے کے بعد سزا کا خوف نہ ہو تو جرم کرنا فقط ایک کھیل بن کر رہ جاتا ہے۔ ہم کسی مجرم کو جب عادی مجرم کہتے ہیں تو اس سے مراد ایک ایسے شخص سے ہے جس کے لیے کوئی بھی جرم کرنا ایک معمول کی بات ہے۔ اب چاہے کوئی چھوٹی موٹی چوری ہو یا کسی ذی نفس کی جان لینا، اُسے تو جرم کرنا ہے سو وہ کرکے رہے گا۔ ہمارے ملک میں جرائم کی شرح میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مجرموں کو سزا کا خوف نہیں۔ اول تو مجرم قانون کی گرفت میں آتا نہیں اور اگر آ بھی جائے تو سزا کی فکر کسے ہے۔۔۔!

اس میں دو رائے نہیں کہ ہمارے ملک میں عدالتی نظام نہایت کم زور ہے۔ مقدمات شروع ہوتے ہیں تو ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ کچھ پیسوں کے عوض کیس بھی رفع دفع کر وادیے جاتے ہیں اور مدعی بھی چپ ساد لیتا ہے۔گواہوں کو کسی قسم کی سیکیوریٹی نہ دینا، مجرموں کا اثرورسوخ کی بنا پر فیصلوں پر اثرانداز ہونا اور فیصلوں کو اپنی مرضی سے تبدیل کرنے جیسی سنگین حقیقتیں جرم کی پیداوار اور مجرموں کی تعداد بڑھانے کے لیے کافی ہیں۔

جب جرم کرنے والے کو اس بات پر یقینِ کامل ہو کہ اسے بہت آرام سے کیس سے نکال دیا جائے گا تو وہ کیوں کر جرم کی دنیا سے باہر آنے کا سوچے گا۔ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے لیے ہماری جیلیں کسی پکنک پوائنٹ سے کم نہیں ہوتیں، جہا ں وہ کچھ عرصہ آرام کی غرض سے آجاتے ہیں۔

یہ صورت حال میرے ملک کی ہے، جہاں قانون کی بالادستی فقط آئین کے الفاظ اور حکم رانوں کے دعوؤں میں نظر آتی ہے۔ ورنہ درحقیقت قانون پر عمل درآمد دس فی صد سے زیادہ نہیں۔

اگر ایک معاشرے کو کام یابی کے اصولوں کے تحت مستقبل کی منصوبہ بندی کرکے ایک مثالی معاشرہ بنانا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ جہاں قانون بنائے جائیں وہیں سزا پر بھی سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔ سزا کو بالائے طاق رکھ کر، مثالی معاشرہ تو کیا ،رہنے کے قابل سماج بھی نہیں بنایا جاسکتا۔

ترقی یافتہ ممالک ہوں یا اکثر ترقی پذیر ملکوں کی بات کی جائے، نوے فی صد ممالک نے جب تمدن، مساوات، یگانگت، امن اور ترقی دینے اور اپنے ملک کو دوسرے ممالک سے آگے لانے کی منصوبہ بندی کی تو سب سے پہلے اس مخصوص معاشرے کے لیے اپنی مذہبی اور ثقافتی روایات کو دیکھتے ہوئے قانون سازی کی اور ان قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروایا گیا۔ ظاہر ہے یہ ایک دو سال کی تو بات نہیں، کتنی ہی دہائیاں گزر گئیں، لیکن زیادہ تر مسائل جو کہ امن وامان سے تعلق رکھتے تھے ان پر قابو پالیا گیا۔ جرم کرنے والے کو کڑی سزائیں دی گئیں، یوں معاشرے کو قانون کا پابند بنایا گیا اور قانون شکن عناصر کے دلوں میں سزا کا خوف بٹھایا گیا، اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

مملکت خداداد پاکستان میں آئین کی دفعہ 302 کے تحت دہشت گردوں، قاتلوں اور ملک دشمن افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جاتا ہے اور جرم ثابت ہونے پر سزائے موت دی جاتی ہے۔ اس قانون پر پاکستان بننے کے بعد سے عمل درآمد کیا جا رہا تھا لیکن 2008 میں سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا گیا گیا۔

20 فروری 2008 کو جو آخری پھانسی دی گئی وہ مجرم جاوید ملک کو ملی۔2008 ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے سزائے موت پر عمل درآمد غیرمعینہ مدت کے لیے روک دیا تھا۔ اس حوالے سے ظاہر یہ کیا گیا کہ یہ سب کچھ عالمی دباؤکی وجہ سے کیا جارہا ہے۔ عالمی دباؤ کا تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے، لیکن اس سے پاکستان ، قاتلوں، دہشت گردوں اور دیگر مکروہ جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے جائے امان بن گیا اور سزائے موت کا رہا سہا خوف بھی ان کے دل سے نکل گیا۔

اِس وقت دنیا کے 58 ملکوں میں سزائے موت کے قانون پر عمل درآمد ہورہا ہے، جب کہ 98 ملکوں نے مجرموں کو سزائے موت نہ دینے کی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی 2007، 2008 اور 2010 میں اپنی قراردادوں کے ذریعے سزائے موت کی مخالفت کی اور اس پر پابندی لگانے کو کہا۔ عالمی سطح پر سزائے موت کی مخالفت کے باوجود دنیا کی بہت بڑی آبادی ایسے ممالک میں رہتی ہے جہاں اب بھی سزائے موت پر عمل درآمد تسلسل سے جاری ہے۔ ان ملکوں میں چین، انڈیا، امریکا اور انڈونیشیا سرفہرست ہیں، ان چاروں ملکوں نے اس حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مخالفت کی ہے۔

پشاور آرمی پبلک اسکول میں ہونے والے قتل عام میں 134بچوں سمیت 150افراد شہید ہوگئے تھے، جس کے شدید ردِعمل کے بعد پاکستان نے عسکریت پسندوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کے لیے سزائے موت پر عاید پابندی ختم کردی گئی اور سخت اقدامات کا فیصلہ کیا گیا، جن میں سرفہرست تھا دفعہ 302 کا ایک بار بھی نفاذ۔ یہ ایک بروقت اور صحیح فیصلہ تھا، اس وقت اس فیصلے کو ساری دنیا کی تائید حاصل تھی، لیکن اب اچانک عالمی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے یہ مطالبہ داغا ہے کہ پاکستان پھانسی کی سزاؤں پر عمل درآمد فوری طور پر روکے اور سزائے موت پر پابندی عاید کی جائے۔ یہ مطالبہ وزیراعظم نوازشریف کے نام دونوں تنظیموں کی جانب سے لکھے جانے والے ایک کھلے خط میں کیا گیا ہے۔

یہ مطالبہ ایک ایسے ملک سے کیا جارہا ہے جہاں درندے معصوم بچوں کے پھول سے جسموں میں گولیاں اتار دیتے ہیں، جہاں ذرا سی مزاحمت پر ڈاکو اور راہ زن شہریوں کی جان لے لیتے ہیں، جہاں سیاست، مذہب اور زبان کے نام پر معصوم افراد کا خون بہایا جاتا رہا ہے اور جس ملک میں ذرا سے مفاد کے لیے لوگوں کے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ جو معاشرے اور ممالک انسانیت اور شعور کی وہ منزل پاچکے ہیں کہ ان کے یہاں جرائم، خصوصاً قتل جیسے سنگین جرم کی شرح نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے وہاں سزائے موت پر پابندی سمجھ میں آتی ہے اور اس کا جواز ہے، لیکن پاکستان پر ایسے مطالبے کے لیے دباؤ ڈالنا دہشت گردوں اور قاتلوں کی حوصلہ افزائی کے سوا کوئی نتیجہ نہیں لاسکتا۔ عالمی اداروں اور تنظیموں کو یہ حقیقت سمجھنا ہوگی کہ ہر ملک کے اپنے مسائل ہوتے ہیں اور اصولوں کو یکساں طور پر تمام دنیا پر لاگو نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے قطع نظر کے سزائے موت اصولی اور اخلاقی طور پر غلط ہے یا نہیں، کم ازکم پاکستان میں اس سزا کا خاتمہ اس ملک کے باسیوں پر بہت بڑا ظلم ہوگا۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ انسانی حقوق انسانوں کے ہوتے ہیں، اور ہم درندوں کی یلغار کا شکار ہیں۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 283144 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.