سقوطِ ڈھاکہ......درویش مرگیا!

لٹ گیاجذبات کاسرمایہ بے حساب
کھلامیدان تھااوردوکمرے،وہ بھی نیم پختہ۔بارش ہوتی توجگہ جگہ برتن رکھنے پڑتے۔میں نے اپنی بہت سی راتیں وہاں گزاری ہیں،بہت سے دن بِتائے ہیں۔چاروں طرف کھیت تھے۔تین اینٹیں رکھ کر چولہابنایاہواتھا۔جب ہواتیزہوتی توہم وہ اینٹیں کہیں اور رکھ دیتے۔چلتاپھرتاچولہاتھاوہ لیکن وہاں کامکیں بڑابا کمال تھا۔

بہت سادہ،کوئی فوں فاں نہیں،مسکراتا ہوا،ہر ایک کیلئے دیدہ ودل فرشِ راہ کیے ہوئے۔جس کی باتوں سے خوشبو آتی تھی۔وہ مجسم اپنا پن تھا۔ کوئی رعب داب نہیں۔سراپا دعا تھا وہ۔مجھے جب بھی وقت ملتاوہاں پہنچ جاتااورپھرزندگی کارس خوب جی بھرکر پیتاتھا۔ ان کے ہاتھ کاپکا کھانابھی ملتااوران کے پندونصائح سے روح بھی خوب سیراب ہوتی ۔ عجیب شخص تھاوہ،میرے بے ہودہ لایعنی سوالات کواتنے غورسے سنتا کہ مجھے خودحیرت ہوتی۔پھرہرسوال کاآسودہ جواب ہوتا۔ اس کا رہن سہن،بول چال، رنگ ڈھنگ،سب ہی تو میرے سامنے تھا۔

صرف زاہدِخشک اورعابدِ شب گزارہی نہیں تھاوہ،زندگی کاہررنگ لئے ہواتھا ۔ میں اسے مختلف شعراء کاکلام سناتااوروہ مجھے ترنم کے ساتھ بہت خوبصورت شاعری سے محظوظ کرتا۔ اپنے گردوپیش کے لوگوں کے تنازعات،ان کی شادی بیاہ کے بکھیڑے،زمین جائداد کاجھگڑا،جڑی بوٹیوں سے علاج اورپیار سے رب کی طرف بلانااس کے کام تھے۔کسی بیمار سے کبھی کوئی پیسہ یا کوئی تحفہ تک نہیں لیتا تھا۔دو تین ملازم رکھے ہوئے تھے جو حکمت کی جڑی بوٹیوں کوان کی سخت نگرانی میں آنے والے مریضوں میں تقسیم کرتے تھے۔ایک دن میرے سامنے ایک بزرگ مریض کودوائی کے ساتھ نرم غذاکھانے کاجونہی مشورہ دیا تووہ مریض دوائی لینے کی بجائے بڑے غصے سے اٹھ کھڑا ہوا کہ میرے پاس زہر کھانے کیلئے پیسے نہیں اورمجھے تم نرم غذا کھانے کا مشورہ دے رہے ہو؟ فوراًمعافی پراترآیااوراپنی قمیض کی بغلی جیب میں ہاتھ ڈال کر جو کچھ بھی تھا اس کے حوالے کردیااوردروازے تک خوداس مریض کوچھوڑنے گیا۔میں کچھ کہنا چاہتا تھا کہ مجھے اپنی مخصوص مسکراہٹ سے خاموش رہنے کا اشارہ کر دیا۔

اسی کچے گھر کے صحن میں ہر شام بچوں کو نہ صرف قرآن کریم پڑھانے کا بندوبست تھابلکہ دنیاوی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ ہرماہ کسی نہ کسی تعلیمی مقابلہ کی بنیادپربچوں میں انعامات کی تقسیم بھی جاری رہتی تھی اورانعام میں ان بچوں کوپہلے سے منتخب کرلیاجاتاتھا کہ جن کے تن کے لباس بوسیدہ یاپھٹے ہوتے تھے۔ان کی خودداری کاکس خوبصورتی سے خیال رکھاجاتاتھا۔ان کے ساتھ گھر کے باہرمیدان میں خودکھیلتے تھے۔ ہفتے میں دودن ان تمام بچوں کومفت پینے کیلئے دودھ بھی اپنی بھینسوں کاپلاتے تھے ۔اس میدان کے کونے پرباقاعدہ ایک جگہ مسجد کیلئے مخصوص تھی جہاں انہی بچوں میں سے کوئی اذان دیتاتھا اور پھرانہی بچوں میں کسی کوامامت کیلئے آگے کھڑاکردیاجاتا تھا۔ان تمام کاموں کیلئے کسی صلہ کی کبھی امید نہیں رکھی اورتمام اخراجات اپنی گرہ سے خرچ کرکے یک گونہ تسکین محسوس کرتاتھاوہ۔

ہرسوپیارومحبت کی خوشبوبکھیرے ہوئے وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھا،طبیب تھا،معلّم تھا،منصف تھا،چارہ گرتھا،ایک گھناچھتناردرخت...... پھلوں سے لداہوا، جھکاہوا۔ایک درخت لگانے کیلئے آپ کیاکرتے ہیں؟پھل داردرخت.......یہی ناں! کہ بیج لیتے ہیں۔اصل توبیج ہی ہوتاہے ناں ۔زمین کاانتخاب کرتے ہیں اورپھرایک چھوٹا سا گڑھاکھود کربیج کواس میں دفن کردیتے ہیں جی،اس گڑھے کی مٹی کے سپردکردیتے ہیں۔پھرکبھی کبھی اس کوپانی بھی دیتے ہیں اورصبرکرتے ہیں ۔آپ بیج کے سرپرسوارنہیں ہوتے،اس کے اندرسے کھینچ کرکونپل نہیں نکالتے ۔ پھر اللہ جی کونپل نکالتا ہے اوروہ ننھاسا بیج زمین کاسینہ چیرتاہواباہر جھانکنے لگتا ہے۔پھرسردوگرم کامقابلہ کرتاہے،ہواؤں کا،طوفانوں کا،بادوباراں کا، اپنے گردوپیش کے کیڑے مکوڑوں کا......اور ایک دن تن کرکھڑاہوجاتا ہے۔پھر اس میں پھل لگ جاتے ہیں اورتناہوادرخت جھکنے لگتاہے...... درخت جھکتا اس لئے ہے کہ لوگ اس کاپھل کھاسکیں،اس سے فیض پاسکیں۔

آپ نے کسی درخت کودیکھاہے جواپناپھل خودکھارہاہو،یہ کہتے ہوئے کہ جاؤ میں اتنی راتیں کھڑے ہوکر گزاردیں، سردراتوں کی کپکپی میرے اندر سے گزرتی رہی،اتنے دن جھلسا دینے والی دھوپ میں جلتارہا ہوں،اب ان پھلوں پر میراحق ہے۔نہیں ایساکبھی نہیں ہوا۔لوگ کھاتے ہیں پھل اس کا،اس کی چھاؤں میں بیٹھتے ہیں۔اس نے کبھی بھی اپنی چھاؤں سے ان لوگوں کو بھی محروم نہیں کیا جوگاہے بگاہے اس کوکاٹنے کیلئے اپنے کلہاڑوں کوتیزکرتے رہے، اگراس کا کوئی بازوکٹ بھی گیا تووہ کسی کے ہاتھ کی چھڑی بن کراس کے چلنے میں اس کامددگاربن گیا،اس کی میت کواپنے اندر سموکراسی دھرتی میں تابوت کی شکل میں دفن ہوگیا۔کبھی اس کوشرمندہ کرنے کیلئے اس کے مظالم اورکہنہ مکرنیاں کویاد نہیں دلایا۔بس وہ ایک پھل داردرخت تھا۔آپ اگر شورزدہ زمین میں بیج ڈال دیں تودرخت نہیں لگتا۔بیج مرجاتاہے،کبھی نہیں پنپتا۔وہ ٹوٹے پھوٹے کمروں کی عمارت تھی اوراس کاچراغ وہ خودتھا۔روشن چراغ،مینارۂ نور،چشمہِ فیض جس سے سب سیراب ہوتے۔

ہمارے ہاں ادارے بنانے پر بہت زوردیاجاتاہے،ہرکام کیلئے ادارہ بناؤ۔آپ کی بات سوفیصد صحیح ہے،بنائیں ضروربنائیں۔ہم مٹی گارے،لوہے سیمنٹ کی عمارت کو ادارہ کہتے ہیں،ایسا ہی ہے ناں!بس ایک خوبصور ت عمارت،بہترین رنگ و روغن، پھولوں کے گملے،الماریاں،کمپیوٹر،میزکرسیاں اور سجاوٹ........بس یہی کرتے ہیں ہم،اوراسے کہتے ہیں ہم ادارہ۔اس عمارت کی پیشانی پراس کانام بھی لکھ دیتے ہیں اورخوش ہوتے رہتے ہیں کہ واہ جی زبردست،ہم نے ادارہ بنا لیا جس کے سنگِ بنیاد کی تختی ہمیشہ ہمارے نام کوزندہ رکھے گی۔ایسی ہی ایک مزارِ قائد اعظم کی عمارت کے سنگِ بنیاد کی تختی جنرل یحییٰ خان کے ہاتھوں آج تک نصب ہے۔

میں اس سے زیادہ توکچھ نہیں کہناچاہتااورنہ ہی زیادہ جانتاہوں لیکن اتناجانتا ہوں کہ ادارے کی عمارت اہم نہیں ہوتی بلکہ افراداہم ہوتے ہیں ۔ درودیواراہم نہیں ہوتے مگرافراداہم ہوتے ہیں۔ادارے افرادسے بنتے ہیں،ایسے افراد سے جو جھکے ہوئے ہوں،پھل دارہوں،بے غرض ہوں،بے لوث ہوں،دیدہ ودل فرشِ راہ کئے ہوئے،مینارہ نورہوں،جومجسم اپناپن ہوں،جن پرآنکھیں بندکرکے اعتبارکیا جاسکے۔زبانی کلامی نہیں،ان کاعمل ان کی شخصیت کاپرتوہو۔وہ تبلیغ نہیں بلکہ مجسم دعوت وفکرہوں ۔ان کی گفتگونہیں ان کی شخصیت سحرانگیزہو۔وہ اندر باہرسے ایک ہوں۔جوکہتے ہوں وہی کرتے بھی ہوں۔نری تبلیغ نہیں،با عمل بھی ہوں۔ان پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے،اتنے اجلے ہونے چاہئیں وہ۔ اس لئے کہ وہ ادارے کی روح ہوتے ہیں۔عمارت اچھی ہواوربے روح ہوتوپھرکھنڈراور خوبصورت عمارت میں کیافرق رہ جاتاہے۔ہم صرف ادارے بنانے کیلئے ہلکان ہیں حالانکہ ہمیں ایسے افراد کی ضرورت ہے جن پرآنکھیں بندکرکے یقین کیا جا سکے۔وہ زبانی کلامی ہمدرد نہ ہوں،عملاًہمدردی کاپیکرہوں۔جب تک ایسے افراد نہ ہوں،ادارے بنانے سے کچھ نہیں ہوگا۔اینٹ گارے سے عمارت،یا سیمنٹ سریے کاخوبصورت رنگ وروغن کاشاہکارتوبن سکتاہے،ادارہ نہیں۔کسی بھی ادارے کو افرادبناتے ہیں اورانہیں تباہ بھی وہی کرتے ہیں۔میں نے بہت بڑے بڑے درخت دیکھے ہیں،اوپرسے بالکل صحیح وسالم اوراندرسے دیمک زدہ۔ایسے درخت کسی بھی وقت زمیں بوس ہوجاتے ہیں۔ہمیں اس پرکھلے دل وذہن سے سوچنا چاہئے،صرف سوچناہی نہیں بلکہ عمل پیرابھی ہوناچاہئے۔اداروں کی قطار نہیں، بے لوث افرادبنانے پرتوجہ دیجئے ۔

مجھ سے رہانہ گیا اوراس معاملہ کی تہہ کوتلاش کرنے کی ٹھانی۔''آپ ان کاموں پر تمام اخراجات اپنی جیب سے اداکرتےہیں یاکوئی آپ کی اس میں مددکرتا ہے؟'' میرے اس سوال پروہی ہلکی سے مسکراہٹ مگرآسمان کی طرف انگلی اٹھا کر اشارہ کیا اورکہامیں بھلا کسی کی کیامددکرسکتاہوں؟ماں باپ ورثے میں زمین چھوڑگئے،شہری جائدادبھی کافی ہے لیکن وہاں رہنے کوجی نہیں چاہتا، کرایہ پر اٹھا رکھی ہیں۔انہی غریب بچوں کے والدین زمین کاشت کرتے ہیں،کبھی ان سے شکائت نہیں ہوئی۔آج تک اس زمین میں کسی فصل کوکوئی نقصان نہیں پہنچابلکہ زرعی یونیورسٹی کافی رقبہ تجرباتی تحقیق کیلئے استعمال کررہی ہے۔ جانتے ہو ان باغات کے پھل فروٹ پاکستانی حکومت کے اعلیٰ عہدیدار وں اوربیرونِ ممالک کے سربراہوں کوروانہ کئے جاتے ہیں ۔ ایک عام شہری توان باغات کے قریب بھی نہیں جاسکتے لیکن یہ تمام بچے انہی باغات کے ہر موسم کے پھل کھاتے ہیں۔میں نے شروع دن سے ان باغات میں کچھ درخت ان بچوں کیلئے مخصوص کر دیئے تھے ۔

تمہاری سمجھ میں یہ بات نہیں آئے گی۔تمہارے پڑوس میں ایک بہت بڑا ادارہ ہے لیکن تم نے کبھی اس ادارہ سے فائدہ ہی نہیں اٹھایا۔''میں آپ کی بات سمجھا نہیں؟'' میں کل تمہارے پاس آرہاہوں اس ادارہ سے دونوں مل کرفیض یاب ہونگے۔حسبِ وعدہ اگلے دن وہی مسکراتاہواچہرہ موجودتھا۔اپنے ساتھ آنے کوکہا ۔ تھوڑی دیربعد سڑک کے کنارے ایک ریڑھی کے پاس بیٹھ گئے ۔میں برسہابرس سے اس ریڑھی سے واقف تھاکیونکہ اس کے اوپر ایک نامکمل انسانی لاشہ لیٹارہتاتھااوراس ریڑھی کی خاص نشانی یہ تھی کہ ہروقت اس ریڑھی پرسبز ہلالی پرچم لہراتارہتاتھا اور ان کے پہلو میں ایک چھوٹاریڈیو جوہروقت بجتا رہتاتھا۔مجھے اس بات کابخوبی علم ہے کہ کچھ افرادمحض ثواب کی خاطراس لاشہ کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ اس لاشہ کے دونوں ہاتھ اور ایک ٹانگ کٹی ہوئی تھی۔سلامت ٹانگ بھی اس قدر کمزور ہوگئی تھی کہ کھڑے ہونے میں کوئی مدد نہیں ملتی تھی۔کوئی ان کو کھانا کھلادیتااورکوئی ان کی ضروریاتِ زندگی کاخیال رکھتاتھا۔وہی ریڑھی ان کے شب وروز کا ٹھکانہ تھا۔گرم سردموسم بھی اسی ریڑھی پرگزرتے تھے ۔گرمیوں میں ایک چادراوپر تنی دیکھی جاتی تھی اورسرد موسم میں ایک موٹاساکپڑاان کوڈھانپے رکھتا تھا۔

وہ ان کے پاس زمین پربیٹھ گیا اورتعظیماً ان کے سرپربوسہ دیکرحال احوال پوچھنے لگا۔میرا تعارف کروایا۔مجھے اس وقت بڑی حیرت ہوئی جب انہوں نے مجھے میرے نام سے پکارا۔ مجھے یہ توپتہ ہے کہ میں ان کے پاس سے کئی مرتبہ گزراضرورہوں اوران کوہمیشہ سلام بھی کرتاتھا کیونکہ ان کی ریڑھی میرے راستے میں تھی۔ان کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ ہرسال چودہ اگست سے کچھ دن پہلے ہی ان کی ریڑھی کے چاروں کونوں پر نئے پاکستانی پرچم نصب ہوجاتے تھے اس لئے ان کی ریڑھی سب سے نمایاں نظرآتی تھی۔اس سے مزید مجھے کچھ معلوم نہیں تھا۔بڑی نستعلیق اردوزبان میں ان کی گفتگو،علامہ اقبال کے اشعاراورقائداعظم محمدعلی جناح کی انگریزی زبان کی تقاریرانہی کے رعب داب کے لہجے میں جب سننے کوملی توچند لمحوں کیلئے پاؤں تلے زمین کھسکتی نظر آئی۔پتہ چلا کہ موصوف علی گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ انگریزی ادب میں ماسٹرکی ڈگری رکھتے ہیں۔تقسیم ِپاکستان میں اپنے خاندان کے تمام افراد کو اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے ہوئے دیکھا اور اپنے جسم کے یہ تمام اعضاء بھی اسی ملک کیلئے نچھاورکرکے پاکستان پہنچے ہیں۔اس بات پربڑا نازاورفخر کررہے تھے کہ ان شہید ہاتھوں کوکئی مرتبہ قائد اعظم سے ہاتھ ملانے کی سعادت نصیب ہوئی اورشائدان ہاتھوں کومیرے رب نے اس لئے واپس لے لیا کہ اس کے بعدیہ کسی غدارکے ہاتھوں کو نہ چھوئیں۔نجانے اورکیاکیا کہتے رہے اورمیری حالت تویہ تھی کہ ندامت کے مارے ان سے آنکھیں چرارہاتھاکہ ایسی عظیم شخصیت اس قدرگمنامی کی زندگی گزاررہے ہیں۔

۱۶دسمبر۱۹۷۱ء سقوط مشرقی پاکستان کی دلدوزخبرسن کرجی بہت گھبرارہاتھا، میں نے سوچا کہ پاکستان کے اس عظیم مجاہدکے پاس جا کراپناغم ہلکا کرتا ہوں ۔میں نے دورسے دیکھا کہ ان کی ریڑھی کے پاس لوگوں کاایک تانتابندھاہواہے ۔ دل زورزورسے دھڑکناشروع ہوگیا۔میں نے سوچا کہ میری طرح یہ سب لوگ بھی اپناغم ہلکاکرنے کیلئے اس عظیم شخص کے پاس آئے ہیں۔لیکن میرے اندر کاخوف میری اس سوچ کاساتھ نہیں دےرہا تھا۔ جب قریب پہنچاتو معلوم ہواکہ یہ عظیم شخص اس بری خبرکوسن کراپنے دل پرقابونہ رکھ سکااوراپنے رب کے ہاں انہی کٹے ہوئے نامکمل لاشے کے ساتھ حاضرہوگیا۔اب ان کی تدفین کامسئلہ تھا۔میں نے آگے بڑھ کریہ ذمہ داری جب قبول کرناچاہی تومعلوم ہواکہ اس کا بندوبست بھی اسی شخص نے پہلے سے کردیاہے جس نے کچھ دن پہلے میری ان سے ملاقات کروائی تھی۔اسی پاکستانی پرچم کاکفن ان کوپہنایاگیا کہ یہ ان کی شدید خواہش تھی۔نجانے ساراشہران کے جنازے میں کیسے امڈ آیا۔لوگون کا ایک طوفان تھا جواس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔بےشمارایسے ناآشنا چہرے اس جنازے میں اس طرح پھوٹ پھوٹ کررورہے تھے،نجانے یہ سقوطِ مشرقی پاکستان کاغم تھایاپھراس مردِعظیم کا!کہاں سے ڈھونڈیں ایساعجیب شخص؟
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن
یہ الگ بات ہے دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 352964 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.