شہید پرنسپل‘طاہرہ قاضی ۔بہادری،فرض شناسی اور قربانی کی اعلیٰ مثال

١٦دسمبر ٢٠١٤ دہشت گردوں نے پشاور کے +رمی پبلک اسکول کے معصوم بچوں کا خون میں نہلا کر دہشت گردی کی ایسی مثال رقم کی جسے تاریخ کبھی نہ بھلا سکے گی۔ اسکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی نے اپنے جان دے کر قربانی، بہادری کی لازوال مثال رقم کی۔ ذیل میں طاہرہ قاضی کی شخصیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

شہید پرنسپل‘طاہرہ قاضی

طاہرہ قاضی نام ہے بہادری کا، شجاعت کا، فرض شناسی کا اور قربانی کا۔جنہوں نے دہشت گردوں کے سامنے ایک عورت ہوتے ہوتے ہوئے دلیری سے ، اپنی زندگی کی پروا کیے بغیر اپنے معصوم شاگردوں کے سامنے اپنی زندگی کا نذرانہ پیش کر کے پوری قوم کو یہ پیغام دیا کہ دہشت گردی کے سامنے، دہشت گردوں کے سامنے زندگی کی پروہ کیے بغیر سینہ سپر ہو کر ان کی بذدلانہ کاروائیوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔16 دسمبر2014ء ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا ۔اس دن دل کو ہلا دینے ، خون کو گرمادینے ، دماغ کو ماعوف کردینے والا سانحہ پیش آیا۔ آرمی پبلک اسکول پشاورکے معصوم بچوں کو دہشت گردوں نے بے دردی، سفاکی اور بے رحمی سے خون میں نہالا دیا۔132 معصوم بچے اوردیگر 9 افراد شہید کر دیئے گئے۔ اسکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے بہادری، فرض شناسی اور قربانی کی اعلیٰ مثال پیش کی۔کہا جاتا ہے کہ فوجی کمانڈوز آپریشن کے دوران انہیں دہشتگردوں کے شکنجے سے بہ حفاظت باہر نکالنے میں کامیاب ہوگئے تھے لیکن وہ یہ کہہ کر دوبارہ اسکول میں واپس چلی گئیں کہ میں اپنے اسکول کے بچوں کو تنہا نہیں چھوڑ سکتی ۔ جس کے نتیجے میں درندہ صفت دہشتگردوں نے بے رحمی ، صفاکی، بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں شہید کر ڈالا۔ طاہرہ قاضی نے جرٔت اور قربانی کی جو تاریخ رقم کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔واقعہ رونما ہونے کے بعد رات گئے تک ان کے بارے میں کوئی علم نہیں ہوا کہ وہ کہاں ہیں آیا زندہ ہیں یا انہیں بھی دہشتگردوں نے شہید کردیا ہے۔ کافی تلاش کے بعد جب اسکول میں پڑی ہوئی لاشوں کو دیکھا گیا تو ان میں ایک لاش طاہرہ قاضی کی بھی تھی جن کی شناخت بھی نہیں ہو پارہی تھی کیونکہ ان کی لاش مسخ ہوچکی تھی۔ ان کے لواحقین نے ان کے ذیوارات سے انہیں پہچانا۔ طاہر ہ قاضی نے شہادت کے مرتبہ پر فائز ہو کر پوری قوم کو یہ سبق دیا کہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوئی بھی مشکل آئے ہمیشہ اپنے فرض کو مقدم رکھا جائے، ظلم و جبر کے سامنے فرار ہونے سے بہتر ہے کہ اس کے سامنے ڈٹ جایا جائے حتیٰ کہ اپنی جان چلی جانے کا اندیشہ ہو تو اس کی بھی پروانہ کی جائے۔ ابتدا میں یہ کہا گیا کہ جلائی جانے والے لاش طاہرہ قاضی کی لیکن بعد میں ان کے لواحقین نے اس بات کی نفی کہ انہیں شہید کیا گیا ، جلائی جانے والے لاش اسکول کی ایک اور استاد کی تھی۔ یہ بہادر استاد تھیں افشاں احمدکہ جنہوں نے بہادری کی لازوال داستان رقم کی۔ اسکول کے ایک طالب علم عرفان اﷲ نے ایک گفتگو میں بتایا تھا کہ اس کی ٹیچر افشاں احمد چھلانگ لگا کر بچوں اور دہشت گردوں کے درمیان آگئیں اور انہیں للکار کر کہا کہ ’تم میرے مردہ جسم پر میرے بچوں کو مار سکتے ہو۔ میں اپنے بچوں کو فرش پر خون میں لیٹے ہوئے نہیں دیکھ سکتی‘۔ دہشت گردوں نے انہیں زندہ جلا ڈالا لیکن وہ پھر بھی بچوں کو بھاگنے کا کہتی رہیں، جان بچا نے کی ترکیبیں بتا تی رہیں۔سلام ہو ایسی بہادر ماؤں، بیٹیوں اور استادوں پر۔

دہشتگردوں کی سفاکی، بر بریت اور درندگی کا اندزہ اس بات سے لگ یا جاسکتا ہے کہ اسکول کے ایک طالب علم جو قسمت سے زندہ بچ گیا تھا کا کہنا تھا کہ ان کی پرنسپل کو ان کے سامنے شہید کیا گیا۔ دہشتگرد بچوں سے ان کے نام پوچھتے اور ان کے والد کے پیشے کے بارے میں سوال کرتے۔ جن کا تعلق پاک افواج سے ہوتا انہیں اسی وقت بے رحمی سے ختم کردیا جاتا۔ طاہر ہ قاضی کے بارے میں یقینا ان کے پاس معلومات ہوں گی کہ ان کے شور کرنل(ریٹائر) قاضی ظفر اﷲ ہیں ۔اسی وجہ سے انہوں نے طاہرہ قاضی کے ساتھ انتہائی بربریت کا سلوک کرتے ہوئے طالب علموں کے سامنے انہیں جلا کر شہید کردیا۔دہشتگروں کا یہ عمل انہیں جنت میں لے جائے گا ۔کس قدر گمراہ ہیں اور لاعلم ہیں ان کے سربراہ اور یہ دہشتگرد خود ۔ یہ عمل کرنے والے مسلمان تو کیا انسان بھی کہلانے کے لائق نہیں۔

طاہرہ قاضی گزشتہ15 سال سے آرمی پبلک اسکول و کا لج میں درس و تدریس سے وابستہ تھیں۔اس اسکو کی پرنسپل مقرر ہونے سے قبل وہ اسی اسکول کی جونئیر ٹوڈ برانچ کی پرنسپل بھی رہ چکی تھیں۔ان کا تعلق لنڈی ارباب سے تھا۔لنڈی ارباب پشاور سے بہت نذدیک صرف 15 منٹ کی مسافت پر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔طاہر ہ قاضی اور ان کے شوہر کرنل(ریٹائر) قاضی ظفر اﷲ کا تعلق اسی گاؤں سے ہے۔ اس گاؤں میں زیادہ تر احمد زئی، قاضی، ارباب، فتح خان خیل اور گورگشت آباد ہیں۔اس گاؤں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس گاؤں سے پشاور شہر کے علاوہ پشا ور کے اہم جگہوں جن میں ائر پورٹ، رنگ روڈ شامل ہے کو راستہ جاتا ہے۔زراعت اور چھوٹی صنعتوں سے وابستگی اس گاؤں کے لوگوں کا ذریعہ معاش ہے۔گاؤں لنڈی ارباب چپلی کباب کے لیے بھی مشہور ہے۔طاہرہ قاضی کو15دسمبر 2012ء کو ’پرنسپل آف دی ائر ‘ کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔جو اس بات کا ثبوت ہے کہ طاہرہ قاضی ایک اچھی استاد ہونے کے ساتھ ساتھ اچھی منتظم بھی تھیں۔

فرض شناسی کی حسین مثال طاہرہ قاضی نے پیش کرکے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اگر موت کے سائے واضع طور پر نظر آرہے ہوں ظلم و بر بریت کے سامنے ڈٹ جایا جائے ، اپنے فرائض سے غفلت نہ برتی جائے۔ طاہر قاضی کو بہ حفاظت درندوں کے شکنجے سے نکال لیا گیا تھا وہ فوجی کمانڈوز کے کہنے پر باہر تو چلیں آئیں لیکن ان کے ضمیر نے یہ گوارہ نہ کیا کہ وہ اپنے معصوم بچوں ، اساتذہ اور اسکول کے دیگر عملے کودہشتگردوں کے رحم و کرم پررہنے دیں ۔ وہ یہ دیکھ آئیں تھیں کہ دہشتگرد سفاکی کے ساتھ انہیں شہید کر رہے ہیں انہوں نے واپس اسکول کے اندر جانے کا فیصلہ کیا حالانکہ انہیں احساس ہوگا کہ ان کے اس عمل سے ان کی اپنی جان بھی جاسکتی ہے۔ پھر بھی وہ واپس چلی گئیں۔ اپنے بیٹے احمد قاضی سے ٹیلی فون پر آخری گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاتھا کہ ’فون بند کرو میں نے بچوں کے والدین کو اطلاع کرنی ہے‘ ۔ سر پر موت کے سائے مڈ لا رہے تھے اور طاہرہ قاضی اپنے فرائض کی انجام دہی میں فکر مند تھیں۔ان کے بیٹے نے درست کہا کہ انہیں اپنی ماں کی اس قربانی پر فخر ہے۔ طاہر قاضی کی اس بے مثال قربانی پر پوری قوم کوان پر فخر ہے۔ حقیقیت یہ ہے کہ انہوں نے فرض شناسی اور قربانی کی لازوال مثال پیش کر کے پوری اساتذہ برادری کا ہی نہیں
بلکہ پوری قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔طاہر ہ قاضی کی جرٔت اور بہادری پر پوری قوم کاانہیں سلام۔
آتش و دہن میں کھڑی تھی تُو
گلشن کے تحفظ میں کڑی تھی تُو
درندے گُھس آئے تھے وہاں
معصوم کلیوں کا تھا جو گلستان
استاد بڑے شجیع ہوتے ہیں
سمندر جیسے وسیع ہوتے ہیں
شہید ہوکراَمر ہوتی طاہر قاضی
وحشت پہ ممتا لے گئی بازی
(16دسمبر2015)
 
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1284694 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More