مسلمان تاجر کے اوصاف (قسط اول)

جس تاجر کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ سچا اور ہر لحاظ سے کامل و مکمل دینِ اسلام کا ماننے والا ہے اس پر لازم ہے کہ اپنے آپ کو ان اوصاف سے آراستہ کرے جن سے اسلام اس کو آراستہ اور دنیا بھر کے تمام ادیانِ باطلہ کے پیروکار تاجروں سے ممتاز کرنا چاہتاہے۔
بقول مفتی نظام الدین شامزئی صاحب :دین عبادات کے راستےسے آتا ہے اورمعاملات خصوصا تجارت کے راستے سے نکل جاتاہے۔حالانکہ دین کا پچھتر فیصد حصہ معاملات سے وابستہ ہے۔
ذیل میں تجار احباب کی خدمت میں کچھ اوصاف ا س امید پر پیش کئے جاتے ہیں کہ:
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
وصف نمبر ١ : اگر مسلمان تاجر کی نیت آخرت کی ہو تو اس کی تجارت بھی عبادت بن جائے گی۔
کیونکہ :انما الاعمال بالنیات یعنی اعما ل کا مدار نیتوں پر ہے
وصف نمبر ٢ : مسلمان تاجر کا یہ بھی عقیدہ ہو نا چاہیے : کہ میری جملہ ضرورتیں کھانے، پینے، لباس اور رہن سہن وغیرہ کی جو پوری ہورہی ہیں یہ تجارت سے پوری نہیں ہو رہیں، بلکہ تجارت کے اندر جو شرعی احکام ہیں ان احکام کو پورا کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ میری ضرورتیں پوری فرمارہے ہیں۔اس عقیدہ کے استحضار کا اثریہ ہوتا ہے کہ مسلمان تاجر تجارت کی خاطر کبھی کسی حکمِ شرعی کو نہیں چھوڑتا۔ گاہک سر پر کھڑا بھی ہو تو بھی اذان سنتے ہی گاہک کو چھوڑ کر پہلے حکمِ خداوندی پورا کرتا ہے۔ نماز باجماعت ادا کرتا ہے بعد میں گاہک کو نمٹاتا ہے۔ کبھی گاہک کو پھنسانے کے لئے جھوٹ نہیں بولتا۔ مال کا عیب نہیں چھپاتا۔ رشوت نہیں دیتا اور سود اور شبہۂ سود کے قریب جانے کو بڑی ذلت اورہلاکت تصور کرتا ہے۔ نیز وہ جانتا ہے کہ اس استحضار اور استقامت پر دنیا و آخرت کی بھلائی کا وعدہ ہے اور ہر وقت اس کے سامنے قرآنِ کریم کی یہ آیتیں ہوتی ہیں:ِانَّ الَّذِینَ قَالُوارَبُّنَااللّٰہُ ثُمَّ استَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیہِمُ المَلاَئِکَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحزَنُوا وَأَبشِرُوا بِالجَنَّةِ الَّتِی کُنتُم تُوعَدُونَ نَحنُ أَولِیَاؤُکُم فِی الحَیَاةِ الدُّنیَاوَفیِ الآخِرَةِ وَلَکُم فِیہَا مَا تَشتَہِی أَنفُسُکُم وَلَکُم فِیہَا مَا تَدَّعُونَ نُزُلًا مِن غَفُورٍ رَّحِیمٍ (سورة حم السجدة ٣٠ تا ٣٢)
دیکھئے !اس میں ''ربنااللّٰہ '' کہنے کے بعد ''ثم استقاموا'' کا ذکر ہے کہ اس عقیدہ پر ڈٹے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ یقین ہوتا ہے کہ میں دکان و تجارت سے نہیں پل رہا، بلکہ اپنے رب کے احکام پر عمل کی وجہ سے پل رہا ہوں۔
وصف نمبر ٣: مسلمان تاجر حلال کھانے اور حرام سے بچنے کے لئے تجارت کرتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اسلام نے حلال کھانے کا حکم دیا ہے اور اس کی فضیلت بیان کی ہے جبکہ حرام پر شدید وعیدیں سنائی ہیں، جن کا ذکر درج ذیل احادیث میں ہے:
(١)عن أبی ہریرة قال : قال رسول اللّٰہ ا : ن اللّٰہ طیب لا یقبل لا طیبا و ن اللّٰہ أمر المؤمنین بما أمر بہ المرسلین فقال: یا أیہا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا۔و قال: یا أیہا الذین آمنوا کلوا من طیبات ما رزقناکم، ثم ذکر الرجل یطیل السفر أشعث أغبر یمد یدیہ لی السمائ، یا رب یا رب و مطعمہ حرام و مشربہ حرام و ملبسہ حرام و غذی بالحرام فأنّٰی یستجاب لذلک۔ رواہ مسلم۔ (مشکوة ص ٢٤١)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم  نے فرمایا : بلا شبہہ اللہ تعالیٰ (تمام کمی اور عیوب سے) پاک ہے، اس پاک ذات کی بارگا ہ میں صرف وہی (صدقات و اعمال) مقبول ہوتے ہیں جو (شرعی عیوب اور نیت کے فساد سے پاک ہوں) یاد رکھو! اللہ تعالیٰ نے جس چیز (یعنی حلال مال کھانے اور اچھے اعمال) کا حکم اپنے رسولوں کو دیا ہے اسی چیز کا حکم
تما م مؤمنوں کو بھی دیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے رسولو! حلال روزی کھاؤ اور اچھے اعمال کرو،نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے مؤمنو! تم صرف وہی پاک اور حلال رزق کھاؤ جو ہم نے تمھیں عطاء کیا ہے۔پھر آپ نے (بطورِ مثال) ایک شخص کا حال ذکر کیا کہ وہ طویل سفر اختیا ر کرتا ہے پراگندہ بال اور غبار آلودہ ہے وہ اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتا ہے کہتا ہے: اے میرے رب! اے میرے رب! (یعنی وہ اپنے مقاصد کے لئے دعا مانگتا ہے) حالانکہ کھانا اس کا حرام، لباس اس کا حرام (شروع سے اب تک) پرورش اس کی حرام
(ہی غذاؤں) سے ہوئی پھر کیونکر اس کی دعا قبول کی جائے۔
(٢)عن عبد اللّٰہ بن مسعود عن رسول اللّٰہ قال: لا یکسب عبد مال حرام فتیصدق منہ فیقبل منہ و لا ینفق منہ فیبارک لہ فیہ و لا یترکہ خلف ظہرہ لا کان زادہ لی النار، ن اللّٰہ لا یمحو السییٔ بالسییٔ و لکن یمحو السییٔ بالحسن ن الخبیث لا یمحو الخبیث، رواہ أحمد و کذا فی شرح السنة ۔ (مشکوة ص ١/٢٤٢)
ترجمہ :حضرت عبد اللہ بن مسعود رسول اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی بندہ حرام مال کما کر اس میں سے صدقہ و خیرات کرتا ہو اور اس کا وہ صدقہ قبول کر لیا جاتا ہو (یعنی اگر کوئی شخص حرام ذرائع سے کمایا ہوا مال صدقہ وخیرات کرے تو اس کا صدقہ قطعاً قبول نہیں ہوتااور نہ اسے کوئی ثواب ملتا ہے) اور نہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ شخص اس حرام کو (اپنی ذات اور اپنے اہل و عیا ل پر) خرچ کرتا ہو اور اس میں اسے برکت حاصل ہوتی ہو (یعنی حرام مال میں سے جو بھی خرچ کیا جاتا ہے اس میں بالکل برکت نہیں ہوتی) اور جو شخص (اپنے مرنے کے بعد) حرام مال چھوڑ جاتا ہے اس کی حیثیت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں رہتی کہ وہ مال اس شخص کے لئے ایک ایسا توشہ بن جاتا ہے جو اسے دوزخ کی آگ تک پہنچا دیتا ہے اور (یہ بات یاد رکھو کہ) اللہ تعالیٰ برائی کو برائی کے ذریعے دور نہیں کرتے بلکہ برائی کو بھلائی کے ذریعے دور کرتے ہیں اسی طرح ناپاک مال ، ناپاک مال کو دور نہیں کرتا (یعنی حرام مال بُرائی کو دور نہیں کرتا بلکہ حلال مال بُرائی کو دورکرتا ہے)
(٣) عن جابر  قال : قال رسول اللّٰہ : لا یدخل الجنة لحم نبت من السحت و کل لحم نبت من السحت کانت النار أولی بہ، رواہ أحمد و الدارمی و البیہقی فی شعب الایمان (مشکوة ص ٨)
ترجمہ :حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم ا نے فرمایا: وہ گوشت جس نے حرام مال سے پرورش پائی ہے جنت میں داخل نہیں ہوگااور جو گوشت (یعنی جو جسم) حرام مال سے نشو و نما پائے وہ دوزخ کی آگ کے زیادہ لائق ہے۔
(٤) عن أبی بکر أن رسول اللّٰہ قال: لا یدخل الجنة جسد غذی بالحرام۔ رواہ البیہقی فی شعب الیمان۔ (مشکوة ص٣٤٢)
ترجمہ :حضرت ابو بکر سے روایت ہے کہ رسولِ کریم نے فرمایا: جس بدن نے حرام مال سے پرورش پائی ہوگی وہ (شروع ہی میں نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ، اور سزا بھگتے بغیر) جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
(٥) عن زید بن أسلم أنہ قال: شرب عمر بن الخطاب لبناً و أعجبہ و قال للذی سقاہ: من أین لک ہذا اللبن؟ فأخبرہ أنہ ورد علی ماء قد سماہ فذا نعم من نعم الصدقة و ہم یسقون فحلبوا لی من ألبانہا فجعلتہ فی سقائی و ہو ہذا فأدخل عمر یدہ فاستقائہ، رواہ البیہقی (مشکوة ص٢٤٣)
ترجمہ :حضرت زید بن اسلم (جو حضرت عمر فاروق ص کے آزاد کردہ غلام تھے) کہتے ہیں کہ( ایک مرتبہ)حضرت عمر بن خطاب نے دودھ پیا جو اُن کو عجیب معلوم ہوا، انہوں نے اس شخص سے جس نے دودھ لا کر پلایا تھا پوچھا کہ یہ دودھ تمہیں کہاں سے ملا؟ تو اس نے بتایا کہ میں پانی کے ایک چشمے یا کنویں پر گیا تھا (اس نے چشمے یا کنویں کا نام بھی بتایا) وہاں میں نے دیکھا کہ زکوٰة کے کچھ جانور ہیں اور ان کے نگران ان کا دودھ نکال کر لوگوں کو پلا رہے ہیں، چنانچہ انھوں نے میرے لئے بھی دودھ دوہا جو میں نے لے کر اپنی مشک میں ڈال دیا یہ وہی دودھ تھا، حضرت عمر نے (اپنے حلق میں) ہاتھ ڈال کر قے کردی (اور اس دودھ کو پیٹ سے باہر نکال دیا کیونکہ وہ زکوٰة کا مال تھا جو ان کے لئے جائز نہ تھا)
(٦) عن عائشة قالت : کان لأبی بکر ص غلام یخرج لہ الخراج فکان أبو بکر یأکل من خراجہ فجاء یوما بشیء فأکل منہ أبو بکر فقال لہ الغلام: تدری ما ہذا؟ فقال أبو بکر: وما ہو؟ قال: کنت تکہنت لنسان فی الجاہلیة و ما أحسن الکہانة لا أنی خدعتہ فلقینی فأعطانی بذلک فہذا الذی أکلت منہ قالت: فأدخل أبو بکر یدہ فقاء کل شیء فی بطنہ (بخاری، مشکوٰةص ٢٤٣)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق کے پاس ایک غلام تھا جو کمائی میں ایک مقررہ حصہ حضرت ابو بکر صدیق کو دیا کرتا تھا (جیسا کہ اہلِ عرب کا معمول تھا کہ وہ اپنے غلاموں کو کمائی پر لگا دیا کرتے تھے اور ان کو حاصل ہونے والی اجرت میں سے کوئی حصہ اپنے لئے مقرر کر لیا کرتے تھے) چنانچہ حضرت ابو بکر اس غلام کی لائی ہوئی چیز کو کھا لیا کرتے تھے ایک مرتبہ وہ غلام کوئی چیز لایا جس میں سے حضر ت ابو بکرصدیق ص نے بھی کھایا، ان کے کھانے کے بعد غلام نے کہا کہ آپ جانتے بھی ہیں کہ یہ کیسی چیز ہے؟ حضرت ابو بکر صدیق ص نے فرمایا: مجھے کیا معلوم ،تم ہی بتائو یہ کیسی چیز ہے؟ غلام نے کہا کہ میں ایامِ جاہلیت میں (یعنی اپنی حالتِ کفر میں) ایک شخص کو غیب کی باتیں بتایا کرتا تھا حالانکہ میں کہانت کا فن (یعنی پوشیدہ باتیں بتانے کا فن) اچھی طرح نہیں جانتا تھا بلکہ میں اس کو (غلط سلط باتیں بنا کر) فریب دیا کرتا تھا (اتفاقاًآج) اس شخص سے میری ملاقات ہوگئی تو اس نے مجھے یہ چیز دی ،یہ وہی چیز تھی جو آپ نے کھائی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ( یہ سنتے ہی) حضرت ابو بکر صدیق ص نے اپنے منہ (حلق) میں ہاتھ ڈال کر قے کر دی اور جو کچھ پیٹ میں تھا
( از راہِ احتیاط)سب باہر نکال دیا۔
 
M Khan
About the Author: M Khan Read More Articles by M Khan: 11 Articles with 72691 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.