کیا چھُٹی بس اِن کا حق ہے؟

’’باس! مجھے بہت ضروری کام ہے، آج میں چھٹی کروں گا‘‘
’’ہرگز نہیں‘‘
’’سر! مجھے کل کی چھٹی چاہیے‘‘
’’ہرگز نہیں‘‘
’’ماما! پلیز، آج مجھے اسکول نہیں جانا‘‘
’’ہرگز نہیں‘‘
’’باجی جی! میں کل کام پر نہیں آؤں گی‘‘
’’ہرگز نہیں‘‘
’’کل مجھے کوئی کام پڑگیا تھا، اس لیے نہیں آسکا‘‘
’’اب آپ وہی کام کیجیے۔ آپ کو نوکری سے فارغ کیا جاتا ہے‘‘

گھر سے درس گاہوں اور درس گاہوں سے دفاتر اور اداروں تک پھیلے یہ مناظر بتاتے ہیں کہ عام آدمی کے لیے چھٹی کرنا کتنا مشکل ہے اور اسے اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑجاتا ہے۔

پہلی دوسری کلاس کا کوئی ننھا مُنا طالب علم ایک دن اسکول نہ جائے تو اگلے دن ٹیچر پوچھتی ہے،’’کل کہاں تھے آپ‘‘، بڑی کلاسوں کے طلبہ چھٹی کرلیں تو آمد پر ان کا ڈانٹ ڈپٹ اور ڈنڈے سے استقبال ہوتا ہے، جامعات کے طلبہ کی حاضری پوری نہ ہو تو امتحان دینے اور اچھے نمبر لینے کے لالے پڑجاتے ہیں، سرکاری ملازم چند روز کے لیے غیرحاضر ہوجائے تو اس سے جواب طلب کرلیا جاتا ہے، اور غیرحاضری ذرا طویل ہوجائے تو نوکری جا بھی سکتی ہے اور نجی اداروں کے ملازمین کو چھٹی یا دیر سے آنے کی قیمت تنخواہ میں کٹوتی اور سخت تنبیہ کی صورت میں برداشت کرنی پڑتی ہے۔

مگر جن کا رتبہ ان سب سے اعلیٰ ہے، جن کی ذمے داری ان سب سے بڑی ہے، جو کہنے کو ملک کے کرتادھرتا ہیں، ان کی چھٹیوں کا کئی حساب نہیں لیتا۔

یہ اعلیٰ مرتبے والے ہیں ملک کے اعلیٰ ترین ایوانوں میں بیٹھے لوگ، جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر ان ایوانوں میں پہنچتے ہیں۔

ان خواتین وحضرات کا دعویٰ ہوتا ہے کہ ان کا جینا مرنا عوام کے لیے ہے، ان کی زندگی ملک وقوم کے لیے وقف ہے اور ان کے لیے سیاست عوام کی خدمت کا دوسرا نام ہے۔ جب یہ لوگ انتخابی مہم چلاتے ہیں تو معاشی مسائل میں الجھے اور دن رات روزی روٹی کی فکر میں مصروف عام پاکستانی ان کے جلسوں میں آکر، ان کے جلوسوں میں شامل ہوکر اور ان کے حق میں نعرے لگاکر اپنے روزوشب کا بہت بڑا حصہ ان کے نام کردیتے ہیں۔ اس آس پر کے یہ لوگ منتخب ہونے کے بعد ان کے مسائل حل نہ بھی کرسکے، ان کی مشکلات دور نہ بھی کرسکے اور انھیں مصائب سے نجات نہ دلا سکے، تب بھی ان کے مسائل کے لیے آواز ضرور بلند کریں گے۔

یہی آس لیے اور اسی امید کے سہارے عام آدمی انتخابات والے دن اپنا آرام اور سارے کام چھوڑ کر گھر سے نکلتا ہے، پولنگ بوتھ پر پہنچتا ہے اور جسم کو جھلساتی دھوپ اور ہڈیوں میں اترتی سردی کے باوجود گھنٹوں طویل قطار میں لگ کر اپنے ووٹ اپنے پسندیدہ امیدوار یا اپنی امید اور خواب کو دیتا ہے۔ اس ووٹ کی طاقت سے یہ سیاست داں ملک کے منتخب ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ مگر پھر وہ ان ایوانوں میں نہیں پائے جاتے۔

ہمارے یہاں قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں سے ارکان کی بڑی تعداد کی غیرحاضری، ان ایوانوں میں وزراء کی عدم موجودگی اور ارکان کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے کورم ٹوٹنے کی خبریں تواتر سے سامنے آتی رہتی ہیں۔ لیکن یہ خبر پڑھنے اور سننے کو ہم ترس رہے ہیں کہ کسی منتخب نمائندے کی رکنیت اس بنا پر ختم کردی گئی ہو کہ وہ اکثر ایوان کے اجلاسوں سے غائب رہتا ہے یا اس نے طویل مدت تک ایوان کا رخ نہیں کیا، بل کہ طویل عرصے تک ایوان سے غیرحاضر رہنے والوں کو بڑے عزت واحترام سے تنخواہیں بھی دی گئی ہیں، کہ ان کی ’’حق تلفی‘‘ نہ ہو، ان کا استحقاق مجروح نہ ہو اور ان ’’غریبوں‘‘ کے گھر میں معاشی بحران نہ پیدا ہوجائے۔

ایک معاصر اخبار میں شایع ہونے والی خبر کے مطابق احتساب نہ ہونے کے باعث قومی اسمبلی کے ارکان کو وقت کا پابند نہیں بنایا جاسکا ہے۔ قومی اسمبلی کے حاضری رجسٹر کے جائزے سے یہ انکشاف ہوا کہ ارکان اسمبلی پہلے سے زیادہ غیرحاضر ہونے لگے ہیں۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے اپنے عملے اور ارکان قومی اسمبلی معیار مختلف ہے۔ سیکریٹریٹ کا عملہ قانونی طور پر بایومیٹرک حاضری (یعنی آتے اور جاتے ہوئے اندراج) کا پابند ہے۔ اس نظام کا مقصد عملے کے ارکان کو غیرحاضری اور تاخیر سے آنے سے روکنا ہے، جب کہ اس کے برعکس ارکان اسمبلی اس نظام سے مستثنیٰ ہیں۔ ان کی اکثریت قومی اسمبلی کے اجلاسوں کی کارروائی میں شرکت نہیں کرتی یا وہ تھوڑی دیر کے لیے آتے ہیں اور اپنی شکل دکھا کر چلے جاتے ہیں۔ وہ یومیہ الاؤنس کے لیے آکر حاضری لگاتے ہیں اور غائب ہوجاتے ہیں۔ واضح رہے کہ غیرحاضر رکن اسمبلی چھٹی کرنے کی صورت میں یومیہ الاؤنس سے محروم ہوسکتا ہے، لیکن مگر اس کی رکنیت برقرار رہتی ہے اور اسے تنخواہ ملتی رہتی ہے۔ اس خبر کے مطابق قومی اسمبلی کے تئیسویں اجلاس سے اب تک کے حاضری ریکارڈ کے مطابق حکم راں جماعت مسلم لیگ ن کے 189ارکان میں سے اوسطاً 39 ممبر غیرحاضر تھے۔ چوبیسویں سیشن میں ن لیگ کے 64 ارکان غائب تھے، پچیسویں سیشن میں 47 اور چھبیسویں سیشن میں اس جماعت کے 72 ارکان غیرحاضر رہے۔ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود دیگر جماعتوں کے ارکان کی صورت حال بھی مختلف نہیں، لیکن ملک کے حکم راں جماعت ہونے کے ناتے اس جماعت کے ارکان کو دوسروں سے زیادہ ذمے دار ہونا چاہیے۔

قومی اسمبلی وہ ایوان ہے جہاں ملک وقوم کی قسمت کے اہم فیصلے ہوتے ہیں، جہاں اہم ترین قومی امور زیربحث آتے ہیں، جہاں عام آدمی کی تقدیر کے فیصلے کیے جاتے ہیں، لیکن اس ایوان میں بیٹھنے والوں کی اپنے فرائض سے عدم دل چسپی بتاتی ہے کہ انھیں اپنی ذمے داریوں اور ان کی اہمیت کا کوئی احساس نہیں۔ اور صاحب! انھیں یہ احساس ہو بھی کیوں، وہ عوام کے مسائل حل کرنے اور قومی امور پر بات کرنے کے لیے اتنا خرچہ کرکے اور وقت لگاکر اس ایوان تک تھوڑی پہنچے ہیں، وہ جس اعزاز، مراعات، سہولیات اور تعیشات کے لیے اس ایوان کی رکنیت حاصل کرنا چاہتے تھے وہ تو انھیں ہرحال میں میسر ہیں، چاہے اجلاسوں میں شریک ہوں یا نہ ہوں، اور شریک ہوں تو بولیں یا خاموش رہیں، بل کہ نیند پوری کرتے رہیں۔

کیا ان منتخب ارکان کا صرف استحقاق ہے، ان کا کوئی فرض کوئی ذمے داری نہیں اور اپنے فرائض اور ذمے داریاں پوری نہ کرنے پر ان کے لیے کوئی سزا نہیں؟ چلیے منتخب نمائندوں کے بیرون ملک محفوظ اثاثوں اور ان کی دولت کا احتساب نہیں کیا جاتا تو کم ازکم ایوان میں ان کی حاضر، جو ریکارڈ پر موجود ہے، کے حوالے سے تو ان کا احتساب ہوسکتا ہے۔ مگر کون کرے گا احتساب؟ مراعات ملنے کا معاملہ ہو یا چھننے کا، حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی جماعتیں اور منتخب ارکان اس معاملے میں ہم آواز ہوتے ہیں۔ ایسے میں عوام کو چاہیے کہ اپنے حلقے کے منتخب نمائندوں کی ایوانوں میں حاضری اور کارکردگی پر نظر رکھیں اور اجلاس سے غیرحاضری پر براہ راست رابطوں، ای میل، خطوط، ایس ایم ایس سمیت کسی بھی ذریعے سے ان سے سوال ضرور کریں کہ ’’کل کہاں تھے آپ؟‘‘
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 283123 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.