یہ اور بات دل پہ قیامت گزر گئی ،لیکن شکست سے بھی بڑا فائدہ ہوا

وزیر اعظم جو آج کل مفاہمت اور سمجھداری کی باتیں کررہے ہیں اس کے پیچھےدہلی سے شروع ہو کر بہار، اترپردیش اور اب یہ مدھیہ پردیش سے ہوتا ہوا گجرات تک پہنچنے والاشکست و ریخت کا طویل سلسلہ کارفرما ہے۔ گجرات گرام پنچایت کے انتخابی نتائج کو دیکھنے کے بعد یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ انہوں نے بڑودہ کے حلقۂ انتخاب پر وارانسی کو ترجیح کیوں دی ؟ گجرات کا جھٹکا بہارسے زوردار ہے۔ اس لئے کہ گجرات نہ صرف وزیراعظم کی کرم بھومی ہے بلکہ امیت شاہ بھی وہیں کہ دھرتی پتر ہیں ۔ ان کے علاوہ وزیرخزانہ ارون جیٹلی بھی ایوانِ بالا میں گجرات کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ انسانی وسائل کی وزیر سمرتی ایرانی کا تعلق بھی گجرات سے ہےاور بی جے پی کے بھیشم پتامہ لال کرشن اڈوانی کا حلقۂ انتخاب بھی گجرات ہی میں ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ ۱۵ اگست ؁۲۰۱۴ کو وزیراعظم نے جس آدرش گرام یوجنا کا اعلان کیا تھا اس کے تحت مذکورہ بالا تینوںرہنماوں نے گجرات کے تین گاوں گود لئے اور ان تینوں مقامات پر بی جے پی پنچایت چناو ہار گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جےپی کے جو اچھے دن مختصر سے مدت کیلئے آئے تھے وہ بہت جلدلوٹ گئے۔ کامیابی کی بوند بوند کو ترسنے والے وزیراعظم کے پاس اب عظیم اقبال کا یہ شعر گنگنانے کے علاوہ کیا چارۂ کار ہے ؎
یہ مری انا کی شکست ہے،نہ دعاکرو،نہ دواکرو
جو کرو تو اتنا کرم کرو،مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو

کوئی بعید نہیں کہ وزیراعظم ان پہ درپہ لگنے والے زخموں کا غم غلط کرنے کیلئے غیر ملکی دوروں پر نکل کھڑے ہوتے ہوں ۔ چونکہ خود مودی جی اترپردیش کو گجرات پر ترجیح دیتے ہیں اس لئے پہلے اتر پردیش بلکہ وارانسی کا ذکر ہوجائے۔ وزیراعظم نے آدرش گرام یو جنا کے تحت جیا پور نام کا گاوں گود لیا اور بڑی شان سے اعلان کیا کہ میں نے جیا پور کو نہیں بلکہ جیا پور نے مجھے گود لیا ہے۔جیا پور کا پنچایت انتخاب جیتنے کیلئے مہنت اویدیہ ناتھ نے اپنی ہندو واہنی کو سنجے جوشی کے ساتھ وہاں بھیجا اس کے باوجود بہوجن سماج پارٹی کے ایک براہمن امیدوار گڈو تیواری نے بی جے پی کے ارون کمار سنگھ کو شکست دے دی ۔ ارون کمار سنگھ مقامی بجرنگ دل کاناظم ہے ۔ اس پر قتل اور ناجائز اسلحہ رکھنے کےمقدمات بھی ہیں اس لئے اگر آدرش گاوں کے لوگوں نے اسے دھتکاردیا تو کیا غلط کیا؟

بی جے پی کے اپنے دعویٰ کے مطابق اسے ضلعی پنچایت انتخاب میں صرف ۱۷ فیصد نشستوں پر کامیابی ملی ۔ وارانسی میں کامیابی کی شرح بھی لگ بھگ وہی رہی ۴۸ میں ۹ امیدوارکامیاب ہوئے باقی سارے ہار گئے۔ اس کے برعکس سماجوادی پارٹی نے ۲۵ نشستوں پر اپنی کامیابی درج کرائی ۔ وہ تو خیر سے مودی جی نےخود کوانتخابی مہم سے روکے رکھا ورنہ ان۹ امیدواروں کی کامیابی بھی مشکوک ہوجاتی ۔اس طرح کےمواقع پر اپنے آپ کو قابو میں رکھنا مودی جی کے لئے بہت مشکل ہوتاہے مبادہ ان کے صبرو ضبط کی وجہ افتخار راغب کےاس شعر میں بیان ہوئی ہو ؎
جب بھی میں نے چاہا، راغب دشمن پر یلغار کروں
خود کو اپنے سامنے پاکر میں نے خود کو روکا ہے

اس دوران بی جے پی کیلئے اچھی خبر منی پور سے آئی جہاں اس کے دو امیدوار کا میاب ہو کر صوبائی اسمبلی پہنچ گئے ۔ وہیں میزورم کے شمالی ایزول کی نشست پر کانگریس نے اپنی پکڑ بنائے رکھی اور میگھالیہ میں ایچ ایس پی ڈی پی نے اپنی کامیابی درج کرائی ۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کو ایک فتح اور ایک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دیواس میں تکوجی پوار کے موت سے خالی ہونے والی نشست پر بی جے پی نے ان کی بیوی گایتری راجے پوار کو امیدوار بنایا۔ گایتری نے کا نگریس کے جئے پرکاش شاستری کو ہرا دیا لیکن پچھلی مرتبہ کے مقابلے شکست کے فرق میں ۲۰ہزار ووٹوں کی کمی آگئی۔ شوہر۵۰ ہزار ووٹ سے جیتا تھا زوجہ صرف۳۰ہزار سے کامیاب ہوئی۔ لیکن بی جے پی کو اس سے بڑا جھٹکا جھبوا رتلام میں لگا جہاں کچھ عرصہ قبل دھماکوں میں ۸۰ سے زائدلوگ ہلاک ہوئے تھے۔

کانگریسی موروثیت کی اٹھتے بیٹھتے مخالفت کرنے والی بی جے پی نے جھبوا میں بھی آنجہانی رکن پارلیمان دلیپ سنگھ بھوریا کی بیٹی نرملا بھوریا کو اپنا امیدوار بنایا۔ یہ روایتی طور پر یہ کانگریس کی سیٹ ہے اور یہاں سے کانتی لال بھوریا ۴ مرتبہ کامیاب ہوچکے ہیں لیکن پچھلی مرتبہ مودی لہر کے چلتے وہ ۴۰ ہزار ووٹ سے ہار گئے تھے لیکن اس بار انہیں ۸۰ ہزار کے فرق سے کامیابی ملی ۔ اس نشست کو وزیراعلیٰ شیوراج چوہان نے اپنے وقار کا مسئلہ بنا لیا تھا ۔ انہوں نے وہاں ۶ دنوں تک قیام کیا ۲۷ خطابات عام کئے دھماکے سے مرنے والے مہلوکین کے گھر گھر گئے لیکن اس کے باوجود جو حشر ہوا وہ سامنے ہے ۔ ویسے ویاپم گھوٹالے میں پھنسے ہوئےشیوراج چوہان اگروزیراعظم کے نقشِ قدم پر چل کر اپنی مٹی پلید نہ کراتےتو اچھا تھا ۔ ایم پی میں جہاں برسرِ اقتدار بی جے پی کی یہ درگت بنی وہیں تلنگانہ میں ٹی آر ایس نے ورنگل میں ۴ لاکھ ۵۰ ہزار کے فرق سے کامیابی حاصل کرکے بتا دیا کہ مقبولیت کس کو کہتے ہیں ؟ملک بھر کے بی جے پی رہنما اپنے آس پاس دشمنوں کو جشن مناتے ہوئے حیرت سے دیکھ رہے ہیں ان کی حالت اس شعر کی مصداق ہے؎
یہ کون چھوڑ گیا ہے ہمیںاندھیرے میں
شکست کھائے ہوئے دشمنوں کے گھیرے میں

گجرات کی کہانی سب سے زیادہ دلچسپ ہے۔ اس کی ایک جھلک بلساڑ ضلع پنچایت کی کلواڑ نشست میں دیکھنے کو ملی ۔ اس نشست پر بی جے پی نے ہریش بھائی پٹیل کو ٹکٹ دیا تو کانگریس نے ان کی بیوی جئے شری بین پٹیل کو اپنا امیدوار بنایا۔ ان دونوں کا مقدمہ گزشتہ ۹ سالوں سے عدالت کے فیصلے کا منتظر ہے۔ غالباً عدالت سے مایوس ہوکر یہ لوگ سیاست کے اکھاڑے میںایک دوسرے خلاف کود پڑے اور نتیجہ یہ نکلا کہ جئے شری کو وجئے شری پراپت ہوگئی اس نے اپنے شوہر نامدار کو ۷۹۱ ووٹوں سے شکست دے دی۔ ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ راجیہ سبھا میں اپنے ارکان کی تعداد کو بڑھانے کی خاطرمودی جی نے جو۷ نئے ضلعے بنائے تھے ۔ ان میں سے صرف ایک گیر سومناتھ میں کانگریس اور بی جے پی دونوں کے۱۴ امیدوار کامیاب ہوئے لیکن باقی ۶ میں بی جے پی کو کراری ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ موربی اور بوتاڑ میں تو بی جے پی کے دو امیدواروں کےمقابلے کانگریس کے ۲۲ اور ۱۸ امیدوار کامیاب ہوگئے ۔

گجرات اس بار شہر اور گاوں کے درمیان تقسیم ہوگیا ۔ ۶بڑے شہروں کے میونسپل کارپوریشنس پر کمل کھلا اور ۵۶ میں سے ۴۲ میونسپلٹی پربی جے پی کا قبضہ برقرار رہا حالانکہ اس کی نشستوں کی تعداد میں پہلے کی بہ نسبت کمی آئی۔ اس کے برعکس تعلقہ سطح پربی جے پی ؁۲۰۱۰ کے مقابلے۲۴۶۰ سے ۲۰۱۷ پر اتر آئی اور کانگریس ۱۴۲۸ سے چڑھ کر ۲۵۴۸ پر پہنچ گئی۔ضلعی پنچایت میں بی جے پی کے۳۶۸ تو کانگریس کے ۵۹۵ امیدوار کامیاب ہوئے۔ اس طرح ۳۱ میں سے ۲۱ ضلعی پنچایت پر کانگریس کا قبضہ ہو گیا ۔؁۲۰۱۰ میں بی جے پی کا ۳۰ ضلع پنچایت پر قابض تھی لیکن اب وہ ۶ تک محدود ہوگئی ہے ۔پانچ سال قبل کانگریس کی کسی ایک ضلع میں بھی اکثریت میں نہیں تھی لیکن اب ۲۱ پنچایتیں اس کے قبضے میں آگئی ہیں۔

تعلقہ سطح پر بی جے پی کو ؁۲۰۱۰ کے ۱۹۲ سے ۷۳ پر آنا پڑا جبکہ کانگریس ۳۷ سے بڑھ کر۱۳۲ تعلقہ پنچایت میں کامیاب رہی ۔ میونسپلٹی میں جہاں بی جے پی ۴۷ سے گھٹ کر ۴۲ پر پہنچی وہیں کانگریس اپنی قوت میں صد فیصد اضافہ کرکے ۵ سے ۱۰ مقامات پر کامیاب ہوگئی۔ ان نتائج کو اگر ووٹ کے فیصد میں تبدیل کیا جائے تو کانگریس کے۵۲ فیصد اور بی جے پی کے۴۴ فیصد ووٹ بنتے ہیں ۔ اس طرح گزشتہ سال کے پارلیمانی انتخابات کے مقابلے بی جے پی کے ووٹ بنک میں ۱۵ فیصد کی زبردست کمی واقع ہوئی ہے ۔ جس کے اثرات یقیناً ؁۲۰۱۷ کے ریاستی انتخابات پر پڑ یں گے۔

بی جے پی کو اپنے انجام کا اندازہ تھا اس لئے گجرات کی حکومت مختلف بہانوں سےبلدیاتی انتخابات ٹال رہی تھی ۔ الیکشن کمیشن کے خلاف اس نے عدالت میں گہار لگائی کہ آزادوغیرجانبدار انتخاب کروانے کیلئے ماحول سازگار نہیں ہے لیکن عدالت نے اس نامعقول دلیل کو مسترد کردیا اور اسے مجبوراً انتخابات کرانے پڑے ۔ بی جے پی نےآگے چل ایک اور داوں کھیلتے ہوئےرائے دہندگی کی تاریخ دیوالی اور شادی کا موسم میں طے کردی۔ ان لوگوں کو خام خیالی تھی کہ عام لوگ دلچسپی نہیں لیں گے اور ان کے کارکن بڑھ چڑھ کرکامیابی سے ہمکنارکردیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ جہاں میونسپل کارپوریشن میں ؁۲۰۱۰ کے مقابلے زیادہ رائے دہندگان(۴۵ فیصد ) نے حصہ لیا وہیں تعلقہ پنچایت میں یہ تعداد بڑھ کر ۶۰ پر پہنچ گئی ۔ اس کا مطلب ہے کہ لوگ اپنی دیگر مصروفیات کو چھوڑ کرقصداً بی جے پی کو ہرانے کیلئے پولنگ بوتھ میں آئے۔ اس طرح گویا۷ ماہ کی پاٹیدار تحریک نے بی جے پی کے ۱۷ سالہ اقتدار کی چولیں ہلا دیں ۔

قومی سیاست میں جو مقام اتر پردیش کو حاصل ہے وہی حیثیت گجرات کے اندرسوراشٹر کی ہے اور مثل مشہور ہے کہ جو سوراشٹر سے کامیاب ہوتا ہے وہی گجرات پر راج کرتا ہے ۔ سوراشٹر کو ہندوتوا کی لیباریٹری کہلانے کا بھی شرف حاصل ہے اس کے باوجود وہاں جو کچھ ہوا وہ چونکا دینے والا ہے۔ سوراشٹر کے اندر کانگریس کو ۱۱ میں سے۱۰ ضلعوں میں کامیابی ملی اور صرف گاندھی نگری پوربندر میں بی جے پی اپنی ناک بچا سکی۔ تعلقہ سطح پرکانگریس نے ۶ مقاماتبڑے فرق کےساتھ بی جے پی سے چھین لئے ۔ کڑوا پٹیل اور لیوا پٹیل کے درمیان کا اختلاف بھی بی جے پی کے کام نہ آسکا۔ لیوا پٹیل سماج کے طاقتور رہنما وٹھل رادڑیہ کے امیدواروں کو راجکوٹ میں ۳۶ میں سے ۳۵ نشستوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ شمالی گجرات کے مہسانہ ، گاندھی نگر، سابر کانٹھا اور پاٹن ضلعوں سے جووزیراعظم نریندر مودی ، وزیراعلیٰ آنندی بین پٹیل اور دیگر بڑے وزراء کا علاقہ ہےبی جے پی کا سپڑا صاف ہوگیا۔ ایسا کیوں ہوا اس کی وجہ ناصر کا ظمی کے شعر میں دیکھیں؎
پیاسی دھرتی جلتی ہے، سوکھ گئےبہتےدریا
فصلیں جل کر راکھ ہوئیں،نگری نگری کال پڑا

مبصرین کا خیال ہے کہ یہ حکومت کے خلاف عوامی ناراضگی کا اظہار ہے۔ فصلوں کی تباہی ، کسانوں کی خودکشی، غیر واضح تحویل اراضی کا قانون اور بے روزگاری جیسے حقیقی مسائل نے بی جے پی کا بیڑہ غرق کردیا ۔ عوام کو فی الحال گھروں کی قیمتوں میں اضافہ اور سڑکوںو پلوں کی خستہ حالت نے تنگ کررکھاہے اس لئے وہ اسمارٹ سٹی، وائی فائی والے شہر اور ترقی پذیر گجرات جیسے نعروں سے متاثر نہیں ہوتے ۔ سماجی فلاح وبہبود کی کسوٹی پر ؁۲۰۰۰ میں گجرات ۱۰ ویں مقام پر تھا ۔ اس کے بعد مودی کی دورِ اقتدار میں ؁۲۰۱۱ تک وہ ایک پائیدان نیچے کھسک کر ۱۱ ویں مقام پر پہنچ گیا ۔یہ اس گجرات ماڈل کی تلخ حقیقت ہے جس کو دکھلا کر ساری ملک کی عوام کو بیوقوف بنایا گیااورملک کے بھولے بھالے لوگ بھی خوب اس کے جھانسے میں آگئے بقول شاعر(ترمیم میں معذرت کے ساتھ) ؎
اچھے دن کی آس لگاکر میں نے خود کو جھونکا تھا
کیسے کیسے خواب دکھا کرمیں نے خود کوجھونکاتھا

گجرات کے بڑے شہروں میں بی جے پی کی کامیابی اور دیہات میں ناکامی کی ایک وجہ آمدنی کاتا وت بھی ہے ۔ ؁۱۹۹۴ میں گجرات کا عام شہری ایک دیہاتی کے مقابلے ۵۰ فیصد زیادہ کماتا تھا ۔ یہ فرق ؁۲۰۰۷ میں ۶۸ فیصد تک پہنچ گیا اوراب بھی وہیں ہے ۔ہاردک پٹیل کی تحریک کے پیچھے بھی یہ عوامل کارفرما ہیں اس لئے کہزیادہ ترپٹیل برادری کسان ہے اور چھوٹے شہروں میں رہتی ہے۔ اس تفریق و امتیاز کی سب سے بڑی قیمت ادیباسیوں اور مسلمانوں نے چکائی ۔ ادیباسیوں کے قومی کمیشن نے اور سچر کمیٹی کی رپورٹ نے ریاستی حکومت کی توجہ اس جانب مبذول تو کرادی لیکن اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے حکومت نے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا۔ شاید اس لئے کہ بی جے پی کو پتہ ہےمسلمان اور ادیباسی روایتی طور پر کانگریس کے ساتھ رہے ہیں ۔لیکن ان نتائج کے بعد کم ازکم اب یہ بات حکومت کی سمجھ میں آنی چاہئے کہ ’’میک ان انڈیا ‘‘ کے تحت شہروں میں بڑی کمپنیوں کے آجانے سے دیہات کی بیروزگاری دور نہیں ہوگی ۔

ان انتخابی نتائج کا فی الحال قومی سیاست پر تو کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا لیکن بی جے پی کی اندرونی جاری رسہ کشی پر یہ ضرور اثر انداز ہوں گے اور امیت شاہ کا پھر سے صدر منتخب ہونا خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ بزرگ رہنماوں نے غم و غصہ کے اظہار سے امیت شاہ کو یہ احساس کرادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کے آئندہ قومی مجلس عاملہ کے اجلاس میں۸۰ لوگوں کو خصوصی مدعو کے طور پر شریک کیا جارہا ہے جبکہ اس کے کل ۱۰۵ ارکان ہیں۔ امیت شاہ چاہتے ہیں کہ اپنے حواریوں کی مدد سے مخالفین کے اثرات کو زائل کریں ۔ امیت شاہ کے دوبارہ منتخب ہونے یا نہ ہونے کا سیدھا اثر آئندہ سال ہونے والے آسام ، مغربی بنگال، تمل ناڈو، کیرالہ اور پنجاب پر پڑ سکتا ہے۔یکے بعد دیگرے ناکامیوں سے دوچارکانگریس فری انڈیا کا نعرہ لگانے والے امیت شاہ کی حالت زارپر یہ شعر صادق آتا ہے ؎
یہ جو ایک ترکشِ وقت ہے،
ابھی اس میں تیر بہت سے ہیں
کوئی تیر تم کو نہ آلگے ،
مرے حالِ دل پہ نہ یوں ہنسو
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1240354 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.